sadiq-sanjrani

چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد

پاکستانی سیاست بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے اور پاکستانی سیاست کا تازہ ترین لطیفہ یہ ہے کہ آج سے کچھ عرصہ قبل اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن پر شب خون مارتے ہوئے سینٹ کے چیئرمین کی کرسی پر اپنے سب سے پسندیدہ آدمی جناب صادق سنجرانی کو کروڑوں روپے خرچ کر کے بٹھادیا تھا۔آج اپوزیشن کی وہی دونوں بڑی جماعتیں باہم مل کر اُسی صادق سنجرانی کو ہر قیمت پر سینٹ کے چیئرمین کی کرسی سے ہٹا نا چاہتی ہیں اور اُس پر دعوی یہ کر رہی ہیں کہ اُن کے اِس منفرد سیاسی طرزِ عمل سے تحریک انصاف کی حکومت کو سخت تکلیف اور صدمہ پہنچے گا۔ ہے نا زبردست سیاسی لطیفہ۔ بالکل اُسی پرانے لطیفہ کی طرح کہ جس میں ایک بچہ کلینک پر کسی بھی صورت انجکشن لگوانے پر راضی نہ ہورہا تھا لیکن جب عقلمند ڈاکٹر نے اُس بچہ کو کان میں یہ بتایا کہ جو انجکشن تمہیں لگایا جائے گا اُس کی ساری تکلیف تمہیں نہیں بلکہ تمہارے چھوٹے بھائی کو ہوگی تو وہی بچہ جس نے تھوڑی دیر پہلے تک انجیکشن نہ لگوانے کی ضد میں سارا ہسپتال سر پر اُٹھایا ہوا تھا، ہنسی خوشی انجکشن لگوانے پر راضی ہوگیا۔ شاید پاکستان کی اپوزیشن کو بھی کسی چالاک سیاسی ڈاکٹر نے چپکے سے کان میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ ایک بار سینٹ میں تبدیلی کا انجکشن اپنے لائے ہوئے چیئرمین کو لگوائے گی تو اُس کی تکلیف تحریک انصاف کی حکومت کو پہنچے گی۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صادق سنجرانی کے چیئرمین سینٹ کی کرسی پر براجمان رہنے یا نہ رہنے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ سینٹ میں اُن کی جماعت کو اکثریت حاصل نہیں ہے ایسے میں اُن کی جماعت تحریک انصاف کے لیئے یہ ہی زیادہ مناسب ہے کہ وہ سینٹ میں اپوزیشن کو کسی نہ کسی سیاسی مسئلہ میں اُلجھائے رکھے تا آنکہ سینٹ کے پرانے سینیٹرز کی جگہ نئے سینیٹرز کے منتخب ہونے کی تاریخ آجائے اور تحریک انصاف سینٹ میں واضح اکثریت حاصل کر کے اپنا من پسند چیئرمین سینٹ کو لا کر اپوزیشن کو سینٹ سے بے دخل کردے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت سینٹ میں اقلیت میں ہونے کے باوجود بڑی کامیابی کے ساتھ اپنی ترتیب دی گئی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن،سینٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کے مقابل ایک بہت بڑی اکثریت رکھتے ہوئے بھی روز بہ روز تحریک انصاف کے بچھائے گئے سیاسی جال میں پھنستی جارہی ہے۔دوسری طرف تحریک انصاف کے سینیٹر اور لیڈر آف دا ہاؤس شبلی فراز کی کمال ہوشیاری ملاحظہ ہو کہ وہ ہر وقت اپوزیشن کے 67 سینیٹرز کو اپنے 36 سے بھی کم سینیٹر ز کی عددی قوت سے سیاسی عدم تحفظ کے خوف میں مبتلاء کیئے رکھتے ہیں۔اپوزیشن کے 67 سینیٹرز کا ایک دوسرے پر بے یقینی اور عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ وہ جب بھی سینٹ اجلاس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک دوسرے سے اپوزیشن کے نامزد کردہ مشترکہ اُمیدوار برائے چیئرمین سینٹ حاص بزنجو کو ووٹ دینے کا تجدید عہد لینا نہیں بھولتے۔



یکم اگست کو صدر ِ پاکستان جناب عارف علوی نے سینٹ کا اجلاس طلب کیا ہو ا ہے۔غالب امکان یہ ہی ہے کہ اِسی اجلاس میں اپوزیشن کی طرف سے سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کر کے اُنہیں ایوانِ بالا سے اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کیا جائے گا۔صادق سنجرانی کو اپنے عہدے پر برقرار رہنے کے لیئے 54 عدد سینیٹرز کے ووٹ درکار ہوں گے،جو فی الحال تحریک انصاف کی حکومت کی صفوں میں تو موجود نہیں ہیں مگر اس کے باوجود واضح امکانات ہیں کہ صادق سنجرانی ایوانِ بالا سے مقررہ تعداد میں ووٹ حاصل کرلیں گے۔ اُس کی دوبنیادی وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایوانِ بالا میں زبردست اکثریت رکھنے والی اپوزیشن بُری طرح سے تقسیم دکھائی دیتی ہے، جس کا ادراک خود اپوزیشن کے رہنماؤں کو بھی ہے۔ جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے چیئرمین سینٹ کے لیئے نامزد شخصیت حاصل بزنجو پر مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے بے شمار سینیٹرز کو شدید ترین تحفظات ہیں۔ دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کئی سینیٹرز کا موقف ہے کہ اِس عہدے کے لیئے اُن کی اپنی جماعت میں سے کسی شخصیت کو نامزد کیا جانا چاہئے تھا۔ اَب دیکھنایہ ہوگا کہ ایوانِ بالا میں انتخابات والے دن اپوزیشن کے سرکردہ رہنما شہباز شریف اور بلاول بھٹو اپنے اپنے سینیٹرز کے یہ تحفظات دُور بھی کرپاتے ہیں یا نہیں۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ سینٹ انتخابات میں ووٹنگ کے لیئے خفیہ رائے شماری کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ اِس رائج طریقہ کار میں کس نے کس کو ووٹ ڈالا کچھ معلوم نہیں ہوسکتا، اِس لیئے اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ سینٹ انتخابات میں یقینی جیت کے اُمیدواروں کو غیر متوقع شکست کا سامنا بھی کرنا پڑجاتاہے اور ایسی ہی متذبذب قسم کی سیاسی صورت حال کا سامنا اِس وقت اپوزیشن کو بھی درپیش ہے۔

یوں پاکستان کے تازہ سیاسی منظر نامہ میں سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عد اعتماد کی کامیابی اپوزیشن کے لیئے سیاسی حیات و ممات کا مسئلہ بن چکی ہے۔ یعنی اگر اپوزیشن صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے عہدے سے ہٹانے میں کامیاب ہو بھی گئی تو تحریک انصاف کی حکومت اِس کا جواز یہ پیش کردے گی کہ اُن کے پاس تو پہلے ہی سینٹ میں اکثریت نہیں تھی جبکہ صادق سنجرانی بھی ہمارا چیئرمین نہیں تھا۔لہذا پرانے چیئرمین کے جانے اور نئے چیئرمین کے آجانے سے اُن کی حکومت کی سیاسی صحت پر کو ئی فرق نہیں پڑتا۔اگر خدانخواستہ اپوزیشن کی یہ تحریک ناکامی سے ہمکنار ہوجاتی ہے تو اپوزیشن کے پاس سوائے اپنا منہ چھپانے کے کوئی دوسرا راستہ نہ ہوگا۔یعنی جیت صادق سنجرانی کو حاصل ہو یا پھر حاصل بزنجو کو بہر صورت پلڑا تحریک انصاف کی حکومت کا ہی بھاری رہے گا۔شایداِس موقع کی درست تفہیم کے لیئے کچھ تغیر اور تبدیلی کے ساتھ یہ محاورہ بھی کہا جاسکتاہے کہ ”اپوزیشن چلی حکومت کی چال اور اپنی بھی بھول گئی“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں یکم اگست 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں