Red-War-Frist-Nock

سُرخ جنگ کی پہلی دستک

عام طور پر سرد جنگ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے بیچ شروع ہونے والے عسکری رشتے کے بیان و تفہیم کے لیئے استعمال ہوتی ہے۔ شاید آپ یقین کریں یانہ کریں بہرحال سرد جنگ دو دوست ممالک کے درمیان اچانک سے شروع ہونے والی عسکری چپقلس کا ایک نتیجہ تھی۔کیونکہ امریکہ اور سوویت یونین دوسری جنگِ عظیم میں ایک دوسرے کے عسکری اتحادی تھے اور دونوں نے باہم مل جل کر ہی جرمنی کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کی عظیم الشان مشترکہ جیت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکہ اور سوویت یونین کے آپسی تعلقات دوستانہ اور خوش گوار رشتہ میں بدل جاتے لیکن عالمی طاقت بن کر ساری دنیا کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کے جذبے نے دو اتحادی ممالک کو ہی ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں اُلجھنے پر مجبور کردیا۔ بعدازاں دوسابقہ اتحادیوں کے درمیان ہونے والی یہ ہی عالمی جنگ، سرد جنگ کے نام سے مشہور و معروف ہوئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ ایک صدی سے سفارتی زبان میں تین قسم کی جنگی اصطلاحیں تواتر کے ساتھ زیر استعمال رہی ہیں۔گرم جنگ (Hot War) یہ مکمل جنگ ہوتی ہے اور دونوں طرف سے افواج برسرِ پیکار ہوکر ہی جیت اور ہار کا فیصلہ کرتی ہیں۔معتدل جنگ (Warm War) یہ وہ جنگ ہے جہاں مذاکرات ابھی تک ناکام نہیں ہوتے اور مذاکرات کے ذریعے امن کی امید برقرار ہوتی ہے لیکن دونوں طرف سے فوج بھی مکمل متحرک ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے ہوتی ہیں۔مگر جنگ کا حتمی نتیجہ مذاکرات کی میز پر ہی سے برآمد ہوتاہے۔سرد جنگ (Cold War) یہ ایک نئی اصطلاح ہے جو امریکہ اور سوویت یونین کے 1945 سے لیکر 1980 تک کے جارحانہ جنگی تعلقات کیلئے بطورِ خاص استعمال ہوتی ہے۔سرد جنگ میں یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیئے دوسری ریاستوں کا استعمال کررہے تھے۔ مثال کے طور پر جنوبی ویتنام کمیونزم کے خلاف تھا اور انہیں جنگ کے دوران امریکہ کی مدد حاصل تھی اور دوسری جانب شمالی ویتنام والے کمیونسٹ تھے اور جنوب سے لڑ رہے تھے اور انہیں روس مدد فراہم کررہا تھا۔ اسی طرح افغانستان میں امریکہ افغان مجاہدین کو سوویت یونین کے خلاف مکمل مدد فراہم کررہا تھا۔

سرد جنگ کے سابقہ تجربے کی بنیاد پر دنیا بھر کے عسکری تجزیہ کار چین اور امریکہ کے مابین شروع ہونے والی حالیہ سفارتی چپقلس کو بھی ایک نئی سرد جنگ کا نقطہ آغاز قرار دے رہے ہیں اور اُنہیں گمان ہے کہ چین نے امریکہ اور اِس کے عسکری اتحادیوں کے خلاف سرد جنگ کے ملتے جلتے طریق پر معرکہ آرائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن ہماری ناقص رائے کے مطابق چین، امریکہ کے ساتھ نہ تو سرد جنگ کے فرسودہ طریقہ کار کے مطابق کبھی جنگ کرنا چاہے گا اور نہ ہی گرم جنگ اور معتدل جنگ کا فضول سا بدنام زمانہ راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا۔ بلکہ چین سپرپاور امریکہ اور اس کے عسکری اتحادیوں سے نمٹنے کے لیے ”سُرخ جنگ“ (Red War)کی منفرد اور غیر متوقع جنگی شاہراہ کا انتخاب کرے گا۔ بلکہ وادی گلوان کی تازہ ترین صورت حال دیکھتے ہوئے یوں کہنا چاہئے کہ چین نے حقیقی معنوں میں امریکہ اور اِس کے سہولت کاروں کے خلاف عملی طور پر ”سرخ جنگ“ کا باقاعدہ طبلِ جنگ بجا بھی دیا ہے۔سُرخ جنگ کیسی ہوگی؟ کس کس محاذ پر لڑی جائے گی؟اور اِس جنگ میں چین کی جانب سے اپنے دیرینہ مخالف ممالک کے خلاف کون کون سے عسکری اور غیر عسکری ذرائع استعمال کیئے جائیں گے؟۔ فی الحال کسی کے پاس اِن اہم ترین سوالات کے جوابات موجود نہیں ہیں کیونکہ ”سرخ جنگ“ کی ہیت کذائیہ اور اِس کے اسباب،اہداف اور مقاصد کے بارے میں چین کے علاوہ کوئی بھی نہ تو کچھ جانتا ہے اور نہیں ہی مستقبل قریب میں جان سکتا ہے۔ سرخ جنگ کی عسکری و غیر عسکری حکمت عملیاں آہستہ آہستہ کر کے دنیا کے بھر کے سفارتی حلقوں کے سامنے اُبھر کر آئیں گی یعنی جیسے جیسے چین امریکہ اور اُس کے عسکری اتحادیوں کے خلاف اپنی عسکری کارروائیوں کا دائرہ کار بڑھاتا جائے گا ویسے ویسے دنیا کے سامنے بھی سرخ جنگ کے اہداف و مقاصد ایک ایک کر کے واضح ہوتے جائیں گے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ جب تک دنیا سرخ جنگ کی حدت کو محسوس کرنے کے قابل ہو پائے گی،اُس وقت تک نہ جانے دنیا کا نقشہ کیا سے کیا ہوجائے۔



یادش بخیر! کہ سرخ جنگ(Red War) کی پہلی دستک بھارت کی چین سے ملحق سرحدی دروازے پر بالکل صاف صاف سنائی دے رہی ہے اور اِس دستک کے خوف ناک خونی شور نے گزشتہ چند ہفتوں سے دلی سرکار کی نیندیں اُڑائی ہوئی ہیں۔ وادی گلوان میں جس طرح سے چین نے پیش قدمی کی ہے،وہ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والوں کے لیئے حیران کن ہی نہیں ناقابلِ یقین بھی ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ اوردوسری بڑی عسکری طاقت کے نشے میں چُور بھارت نے کبھی خواب میں نہیں سوچا تھا کہ چین اکیسویں صدی میں عین کورونا وائرس کے عالمگیر وبا ئی ایام میں اِس طرح سے اُس کی سرحدوں پر خاموشی کے ساتھ حملہ آور ہوجائے گا کہ عالمی دنیا کا ایک بھی ملک چین کی عسکری کارروائی پر مذمتی بیان دینے کی زحمت کرنا بھی گوار ا نہیں کرے گا۔ وادی گلوان میں روز بہ روز ہونے والی بھارتی فوجیوں کی ہلاکت اور گم شدگیوں نے بھارت کی 45 لاکھ افواج کے عزم و حوصلہ کو پارہ پارہ کرکے اُنہیں سکتہ کی سی کیفیت میں مبتلا کردیاہے۔ چینی فوج کے ہاتھوں 20 سے زائد بھارتی فوجیوں کی مصدقہ ہلاکت اور 170 سے زائد غیرمصدقہ ہلاکت کی خبروں پر بھارتی اخبارات کی جانب سے بھی مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ معروف بھارتی اخبار دی ٹیلی گراف نے شہ سرخی لگائی کہ ”حقیقت سے منہ موڑنے کی بھاری قیمت یہ ہی ہوتی ہے“۔اخبار لکھتا ہے کہ ہمارے 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے اور بھارتی حکومت سب ٹھیک ہے کا راگ الاپتی رہی۔جبکہ ایک اور بھاتی اخبار میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے یہ سرخی لگائی کہ ”چین نے ہمارے گھر میں گھس کر ہمیں مارا“۔بھارت سے بلند ہونے والی اِن چیخوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے،سرخ جنگ کی پہلی دستک آنے والے دنوں میں مزید کتنی خطرناک اور ہول ناک ہوسکتی ہے۔

بعض دفاعی تجزیہ کاروں کو سرُخ جنگ(Red War) کی پہلی جھلک ملاحظہ کرنے کے بعد بھی فکری مغالطہ لاحق ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان شروع ہونے والی سرحدی کشیدگی بہت جلد واپس معمول کے پراَمن حالات کی جانب لوٹ جائے گی۔ کیونکہ اِن کا خیال ہے کہ چین بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو مزید بڑھانا نہیں چاہے گا لیکن ہماری رائے یکسر مختلف ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ چین اِس سرحدی کشیدگی کو آنے والے ایّام میں نہ صرف بڑھاوا دے گا بلکہ بھارت کی دیگر سرحدوں پر بھی ایک درجن سے زائدمزید نئے محاذ جنگ ضرور گرم کرے گا۔یاد رہے کہ چین وادی گلوان میں بھارتی افواج کو رسوا کرکے نریندر مودی کو چند قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے ساتھ ساتھ ایک واضح پیغام امریکہ بہادر تک بھی پہنچانا چاہتا ہے کہ چین نے امریکہ کے اتحادیوں کا گھیراؤ کرنا شروع کردیا ہے اگر امریکہ میں ذرا بھی ہمت اور حوصلہ ہے تو وہ اپنے اتحادیوں کو چین کے عسکری پنجوں تلے کچلے جانے سے بچالے۔ چین کا یہ اپنا حریفوں کو کھلا چیلنج ہے۔جسے ابھی تک کسی نے بھی قبول کرنے کی ہمت نہیں کی ہے اور سر دست ساری دنیا دم بخود ہوکر بھارت کی جگ ہنسائی کا نظارہ کرنے میں محو ہے۔ شاید چین کے حریفوں کو چین سے عسکری محاذ پراتنے زیادہ جارحانہ رویے کی بالکل بھی توقع نہیں تھی۔خاص طور پر بھارت کو اپنے درجنوں فوجی وادی گلوان کے سرحدی محاذ پر گنوانے کے بعد بھی سمجھ نہیں آرہا ہے کہ آخر چین کا بنیادی مقصد اور ہدف کیا ہے؟۔اِس سوال کا تسلی بخش جواب حاصل کرنے کے لیئے نریندر مودی ایک دن میں پانچ،پانچ بار بھارتی افواج کے حساس اداروں کے سربراہوں سے خفیہ ملاقاتیں اور اجلاس کررہاہے لیکن سب کے پاس سوال ہی سوال ہیں اور جواب ایک بھی نہیں۔

حالانکہ اِس سوال کا جواب چینی اخبار گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹر ان چیف ہو شی جن کے ٹوئٹر ہینڈل سے فراہم کردیاگیاہے۔انھوں نے کہا ہے کہ”وادی گلوان میں 20 میں سے17 انڈین فوجی مبینہ طور پر اس لیے ہلاک ہوئے کیونکہ انھیں فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں تھی جس سے انڈین فوج کی خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت کے پاس لداخ کے سرحدی محاذ پر کوئی ایسی فوج موجود نہیں ہے جو چٹانی علاقوں میں لڑنے کی مہارت اور جدید صلاحیتوں سے لیس ہو۔ بس چین نے تو وادی لداخ میں بھارت کی اِسی عسکری کمزوری سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے“۔ سچی بات تو یہ ہے ہوشی جن کی یہ ٹوئٹ وادی لداخ میں موجود بھارتی افواج کے بارے میں سولہ آنے بالکل درست ہے۔ صرف یہ ہی نہیں بھارت کے پاس وادی لداخ میں جاسوسی کا کوئی نیٹ ورک بھی موجود نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وادی لداخ میں بھارتی افواج پر رات کی تاریکی میں چینی افواج کے ہاتھوں جو بھی درگت بنتی ہے اُس کی تفصیلی خبر دلی سرکار کو دو دن بعد جاکر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وادی لداخ میں بھارتی افواج کی زمینی جنگ کی صلاحیت بھی انتہائی محدود ہے۔یعنی اگر چینی افواج چاہے تو فقط چند گھنٹوں میں بھارتی افواج سے پوری وادی لداخ خالی کرواسکتی ہے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے جس کا ادراک بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی بخوبی ہے۔ چین کے ساتھ منسلک سرحد پر بھارتی افواج کا کمزور نیٹ ورک ہونے کی بنیادی سبب یہ ہے کہ بھارت کی ساری توجہ ہمیشہ سے ہی پاکستان سے ملحقہ سرحد لائن آف کنٹرول پر مرکوز رہی ہے اور وہ وادی لداخ سے متعلق اِس خوش فہمی کا شکار رہا ہے کہ یہاں سے انڈیا پر 200 سال کی تاریخ میں کبھی بھی جارحیت نہیں کی گئی اور ہندوستان پر جب بھی حملہ ہوا ہے وہ براستہ پاکستان اور افغانستان ہی ہواہے۔ لہذا بھارت نے 70 سال تک اپنی ساری جنگی تیاریاں مرکز و محور پاکستانی سے ملحق سرحدی محاذکو بناکر رکھا لیکن اَب اُسے حقیقی جنگی خطرات کا سامنا چین،نیپال،بھوٹان اور بنگلہ دیش کی سرحدوں سے ہے۔

اچھی طرح سے ذہن نشین رہے کہ چین کی طرف سے وادی لداخ میں چھیڑی گئی سرخ جنگ(Red War) کا دوسرا سرا شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی سرحد پربیک وقت باندھ دیا گیا ہے جہاں شمالی کوریا نے جنوبی کوریا سے متصل سرحد پر قائم سفارت خانے کی عمارت کو جو کہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ امریکہ اورشمالی کوریا کے درمیان بھی رابطے کا دفتر تھااور یہ و ہی دفتر ہے جہاں مستقبل قریب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان اَمن معاہدہ طے کروانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ چین کی ہدایات پر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ آن کی جانب سے امریکہ کے اتحادی جنوبی کوریا کی اہم ترین سرحدی عمارت کو راکٹ دھماکے سے تباہ کرکے واضح پیغام دے دیا ہے کہ جنوبی کوریا میں موجود 40 ہزار سے زائدامریکی فوجیوں کی زندگیوں کو بھی سرخ جنگ(Red War) کے ویسے ہی خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے، جیسے خطرات کے بادل اِس وقت وادی لداخ میں بھارتی افواج کے سروں پر منڈلارہے ہیں۔ بہرحال یہ سرخ جنگ کی پہلی دستک ہے،کیا اِس ایک ہی دستک سے چین پر عالمی سپر پاور بننے کا دروازہ کھول دیا جائے گا یا چین کو سرخ جنگ (Red War) کی ابھی مزید دستکیں بھی دنیا کے دیگر ممالک کے سرحدی دروازوں پر دینا ہوگی؟۔اِس سوال کا جواب پھر کبھی سہی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے ہفت رووزہ ندائے ملت لاہور میں 25 جون 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

2 تبصرے “سُرخ جنگ کی پہلی دستک

  1. یہ ایک اچھی خبر ہے جس میں سرخ جنگ کے بارے میں چین اور انڈیا کے درمیان ہونے مولی لداخ جنگ کو بہت ہی اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ میںhttps://pakistankhabr.com/میں خبر شائع کرتا ہوں۔ آپ میری ویب سائیٹ کو لنک دیں دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں