Coins-of-Pakistan-Rare

سکہ رائج الوقت کی بے وقعتی

”ایک لٹر پیڑول کتنے کا ہے؟“۔ عامر نے موٹرسائیکل میں پیٹرول بھروانے کے بعد پیٹرول بھرنے والے ملازم سے استفسار کیا۔
”جناب! 79 روپے 25 پیسہ فی لٹر کا ریٹ ہے آج کا“۔پیٹرول پمپ کے ملازم نے انتہائی مؤدب انداز میں جواب دیا۔
”پھر تم نے مجھے بقایا رقم کم کیوں دی ہے؟،میں نے تمہیں 100 روپے دیئے تھے لیکن تم نے مجھے بقایا صرف 20 روپے ہی واپس کیئے ہیں“۔عامر نے غصے سے ملازم کو گھورتے ہوئے کہا۔
”جناب!ہمارے پاس 75 پیسے کے سکے سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تو ہم آپ کو واپس کہاں سے کریں“۔پیٹرول پمپ ملازم نے وضاحت کی۔
”یہ تو پھر سیدھی سادی بے ایمانی ہوئی نا! صبح سے شام تک نہ جانے تم کتنے 75 پیسے گاھکوں سے اینٹھ لیتے ہو،بہرحال مجھے کچھ نہیں معلوم یا تو میرے 75 پیسے واپس کرو یا پھر 75 پیسے کا میری موٹر سائیکل میں مزید پیٹرول ڈال دو“۔عامر نے ملازم کو اپنا آخری فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
”یہ لیں ایک روپے کا سکہ اور برائے مہربانی مجھے معاف کردیں اور ذراآگے کی جانب بڑھ جائیں،کیونکہ یہاں میں نے دوسروں کی گاڑیوں میں بھی پیٹرول بھرنا ہے“۔ پیٹرول پمپ ملازم نے ایک روپیہ کا سکہ عامر کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بڑی لجاجت سے جواب دیا۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: موت سے پہلے کرنے کے کچھ کام

ہوسکتا ہے کہ چند پیسوں کے سکوں پر ہونے والے بحث و مباحثہ کے اس واقعہ سے ملتے جلتے مناظر، کبھی کبھارآپ نے بھی اپنے اردگرد ملاحظہ کیئے ہوں۔ بظاہر 50 یا 75 پیسے کے سکے انتہائی معمولی قیمت کے معلوم ہوتے ہیں مگر بعض لوگوں کے نزدیک ان کم مالیت سکوں کی بڑی ہی اہمیت ہوتی ہے اور وہ اس کے لیئے بحث و تکرار سے بھی ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے گالم گلوچ اور مارپیٹ تک جیسی غیر اخلاقی حرکتیں بھی کرگزرتے ہیں۔جبکہ ماضی میں ایسی خبریں بھی اخبارات کی زینت بن چکی ہیں کہ جب چندسکوں کے لین دین پر شروع ہونے والا تنازعہ کسی ایک فریق کے قتل جیسے الم ناک حادثہ کا باعث بن گیاتھا۔گو کہ ہم ایسے سانحات کو معاشرے میں رائج جہالت اور عدم برداشت جیسی برائیوں کا شاخسانہ بھی باآسانی قرارد ے سکتے ہیں۔مگر دوسری جانب ہماری عالم فاضل حکومتوں کا المیہ بھی ذرا ملاحظہ ہو کہ وہ کم مالیت کے سکوں کا اجراء تو بند کردیتی ہیں لیکن سرکاری مصنوعات کی قیمتیں مقرر کرتے ہوئے اس کا استعمال ترک نہیں کرتیں۔ یعنی جب 5،10،25،50 اور 75 پیسے کے سکہ حکومت جاری کرنا ہی بند کرچکی ہے تو پھر وہ پیٹرول،بجلی،گیس یا دیگر اشیاء کے سرکاری نرخ مقرر کرتے ہوئے روپیہ کے ساتھ پیسے کے لاحقہ آخر لگاتی ہی کیوں ہے؟۔اور اگر پیسہ کا لاحقہ کو لگائے بغیر حکومت کے لیئے اپنا کاروبارِ معیشت چلانا دشوار ہے تو پھر سکوں کی ریزگاری کا اجراء بھی جاری رکھا جائے۔بہر کیف سچی بات تو یہ ہے دورِ جدید میں سکوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے میں سخت دشواری کا سامنا ہے۔اسی مناسبت سے خاطر غزنوی نے کیا خوب کہا تھا کہ
گزری ہوئی کل کے ہوئے،سکے سبھی کھوٹے
جو آج کا سکہ ہے، وہی قبلہ نما ہے

سکہ بند تاریخ
مورخین کے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا کا قدیم ترین سکہ ہونے کا اعزاز ”پھوٹی کوڑی“ کو حاصل ہے۔ واضح رہے کہ پھوٹی کوڑی کا لغوی مطلب پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔جسے آپ عرف عام میں سیپ یا سیپی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل قدیم زمانے میں سمندری گھونگھے کو کوڑی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جبکہ کوڑی کو پھوٹی کوڑی اس لیئے کہا جاتاتھا کہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی تھی۔پس پھٹی ہوئی کوڑی،پھوٹی کوڑی کے نام سے زبان زدِ عام ہوگئی۔ پانچ ہزار سال قبل وادی سندھ کی تہذیب میں سب سے پہلے پھوٹی کوڑی کا بطور سکہ استعمال کیئے جانے کے شواہد پائے جاتے ہیں۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے آخر پھوٹی کوڑی کو بطور سکہ کیوں رائج کیا گیا؟ تو اس کے جواب میں بے شمار تاریخی روایات دستیاب ہیں لیکن سب سے مستند اور قرین قیاس روایت کے مطابق پانچ ہزار سال قبل وادی سندھ کی تہذیب میں کوڑی انتہائی نایاب اور کمیاب شئے تصور کی جاتی تھی۔لہٰذا اس کی قدروقیمت کی بناء پر اشیاء کے تبادلے اور خرید و فروخت کے لیئے بطور سکہ استعمال شروع کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پھوٹی کوڑی کا استعمال بھلے ہی اَب ہمارے معاشرہ میں یکسر متروک ہوچکا ہو لیکن اس کے باوجود آج بھی اردو زبان کے روزمرہ میں پھوٹی کوڑی کو محاورتاً عام استعمال کیا جاتاہے۔ مثلاً یہ محاورہ تو اکثرو بیشتر آپ نے سنا ہی ہوگا کہ”میرے پاس پھوٹی کوڑی تک باقی نہیں بچی“۔

واضح رہے کہ ماضی میں پھوٹی کوڑی سے سکہ کی بڑھنے والی قدر”روپا“ پر جا کر اختتام پذیر ہوجاتی تھی۔ روپا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چاندی کے ہیں اور بعد ازاں روپا ہی روپیہ کے نام سے معروف ہوگیا۔نیزایک روپیہ میں 5275 پھوٹی کوڑیا ں شمار کی جاتی تھیں،جبکہ پھوٹی کوڑی اور روپیہ کے درمیان مختلف مالیت کے دس دیگر سکے بھی آتے تھے۔ مثلاً کوڑی، دمڑی، پائی، دھیلا، ٹکا، آنہ، دونی، چونی،اٹھنی وغیرہ کے بعد جاکر روپیہ بننے کے ساتھ سکہ کا سفر ختم ہوجاتاتھا۔ قدر و قیمت کے لحاظ سے سکہ کی آپسی شرح تبادلہ درج ذیل تھی۔جیسے 3 پھوٹی کوڑی سے ایک کوڑی،10 کوڑی سے ایک دمڑی،2 دمڑی سے 1.5 پائی،2 پائی سے ایک دھیلا،2 دھیلے سے ایک پیسہ،6.25 پیسہ سے ایک آنہ اور 16 آنے سے ایک روپیہ بن جاتاتھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1960 تک پاکستانی روپیہ میں بھی 16 آنے میں 64 پیسے ہی ہوتے تھے۔ لیکن یکم جنوری 1961 کو پاکستان نے عالمی اعشاری نظام کے مطابق سکے تیار کرنا شروع کر دیے تھے۔ یوں اَب اعشاری نظام کے تحت پاکستانی روپے میں آنے تو 16 ہی ہوتے ہیں لیکن64 پیسے کے بجائے 100 پیسے ہوتے ہیں۔ پاکستان کا پہلا سکہ 1948 میں جاری کیا گیا تھا جس میں کریسنٹ اور ستارہ کی تصویر کشی کی گئی تھی، یہ سکہ نکل دھات سے بنایا گیا تھا اور اسے برانڈلی نے ڈیزائن کیا تھا۔ 1961 میں 1،5 اور 10 پیسہ کے سکے جاری ہوئے تھے، اس کے بعد 1963 میں 25 اور 50 پیسے کے سکے جاری کردیئے گئے۔علاوہ ازیں 1998، 2002 اور 2016 میں بالترتیب 2 اور 5 روپے پھر 10 روپے کے سکے جاری کر کے 50 پیسے یا اس سے کم مالیت کے تمام سکوں کا اجراء مکمل طور پر بند کردیاگیا۔

کھرے سکوں کا کھوٹا مستقبل
صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں حکومتیں سکوں کورفتہ رفتہ مکمل طور پر بند کرنے پر انتہائی سنجیدگی سے سوچ و بچار کررہی ہیں۔ جبکہ دنیا کے کئی ایک ممالک ایسے بھی ہیں جہاں نئے سکوں کا اجراء مکمل طور پر بند بھی کر دیا گیا ہے۔ دراصل دنیا بھر میں سکوں کا استعمال ترک کرنے کے پیچھے یہ خیال کارفرما ہے کہ آج کے جدید ترین ڈیجیٹل دور میں جب لوگوں کی اکثریت بڑی مالیت کے کرنسی نوٹ اپنی جیب میں رکھنا کم کرچکی ہے اور ادائیگی کے لیئے کاغذی کرنسی کے متبادل ڈیبیٹ کارڈ،کریڈٹ کارڈ اور مختلف طرح کی موبائل ایپلی کیشنز سہولت کے ساتھ استعمال کررہی ہے تو ایسی صورت حال میں بھاری بھرکم سکوں کی ریزگاری سے کون اپنے بٹوے کوبھرا رکھنا چاہے گا۔اگر اس خیال کو من و عن درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ ہزاروں سال تک دنیا بھر پر راج کرنے والے سکے بہت جلد ہی فقط ماضی کی ایک یادگار شئے بن کر رہ جائیں گے۔خاص طور کورونا وائرس کی عالمگیر وبا نے بھی سکوں کے مستقبل کو بڑی تیزی رفتاری کے ساتھ سنگین خطرات کی جانب دھکیل دیا ہے۔ بالخصوص جن ممالک میں وبائی مرض کووڈ 19 کی زیادہ شدت تھی،وہاں سکوں کے استعمال میں خاطر خواہ کمی محسوس کی گئی ہے اور کورونا وائرس کے خوف کی وجہ سے دُکان دار اور گاھک دونوں ہی سکے قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اس کے علاوہ رواں برس کے ابتدائی ایام میں ہی برطانیہ کی سرکاری سکہ ساز ٹکسال رائل منٹ نے اعلان کردیاتھا کہ اَب اُس کی جانب سے کم مالیت کے سکوں کا مزید اجراء نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ کنیڈا نے 2012 میں ہی ایک سینٹ مالیت کے سکے بنانا بند کردیئے تھے۔

نیز آسٹریلیا بھی 2 سینٹ کے سکے 1992 سے بنانا بند کرچکا ہے۔ سکوں کا اجراء بند کرنے والے تازہ ترین ممالک میں بہاماس سرفہرست ہے جس نے رواں برس کے اختتام تک ملک میں کم مالیت کے ہر قسم کے سکوں کی گردش مکمل طور پر روک دینے کا اعلان کیا ہواہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سکوں کے تاریک یا روشن مستقبل کے حوالے سے دنیا کو تین حصوں میں باآسانی تقسیم کیا جاسکتاہے۔مثلاً امیرملک، متوسط آمدنی والے ممالک اور غریب ممالک۔جہاں تک امیر ترین ممالک کا تعلق ہے وہ وہاں سکوں کا استعمال ترک کرنے کارجحان بڑی تیزی سے پھل پھول رہا ہے اور غالب گمان یہ ہی ہے کہ آئندہ چند سالوں تک ان ممالک میں سکے سرے سے ہی ناپید ہوجائیں گے۔ جبکہ متوسط آمدنی والے ممالک میں انتہائی کم مالیت کے سکو ں کا اجراء تو بند کیا جارہا ہے لیکن دوسری جانب بڑی مالیت کے سکے جاری بھی کیئے جارہے جیسے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں 5،10 ،25، 50 پیسے یا ایک اور دو روپے کے سکوں کا اجراء مکمل طور پر بند یا کم کردیا گیا ہے وہیں 5، 10 حتی کہ 50روپے مالیت تک کے سکے متبادل استعمال کے طور پر جاری بھی کردیے گئے ہیں۔ جبکہ غریب ممالک میں سکوں کا مستقبل ایک،دو دہائی تک مزید شاندار رہنے کا قوی امکان پایا جاتاہے۔کیونکہ ان ممالک نے ابھی تک سکوں کا استعمال ترک کرنا کا سوچا تک بھی نہیں ہے۔ شاید ان ہی غریب ممالک کودورِ جدید میں سکوں کی سب سے محفوظ ترین پناہ گاہیں بھی قرار دی جاسکتا ہے۔

سکے کسی کا سُکھ بھی ہیں
جی ہاں!سکے خیرات طلب کرنے والے ضرورت مند سائلین اور خیراتی اداروں کے لیئے زندگی کی مانند ہوتے ہیں۔شاید یہ وجہ ہے کہ سکوں کے استعمال میں نمایاں کمی آجانے سب سے زیادہ خیرات طلب کرنے والے افراد اور ادارے ہی متاثر ہوئے ہیں۔ کیونکہ انسان فطرتاً کچھ کنجوس واقع ہوا ہے یا یوں کہہ لیں کہ آدمی کو اپنی جیب میں موجود پیسے سے بڑی ہی محبت ہوتی ہے۔اس لیئے عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جتنا سکہ کی مالیت کم ہوگی ہم انسانوں کے لئے اُسے خیرات کرنا،اُتنا ہی آسان اور سہل ہوگا۔ لیکن اگر سکوں کا استعمال ہی ختم ہوجائے یا پھر ان کی مالیت 10 اور 50 روپے تک بڑھ جائے تو پھر سرِ راہ کھڑے ہوئے بھکاری کو اور دُکان میں رکھے کسی خیراتی ادارے کے ڈبے میں پیسہ عطیہ کرنا ناممکن نہیں تو قدرے مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے خیراتی اداروں کی معروف برطانوی تنظیم نیشنل کونسل برائے رضاکارانہ تنظیمات کے چیف ایگزیکٹو، کارل وائلڈنگ کا کہنا ہے کہ، ”لامحالہ، سکوں کا کم استعمال خیراتی اداروں کے لیئے سخت ضرر رساں ہے کیونکہ چھوٹے سکوں کے عنقا ہوجانے کے باعث ایک عام آدمی کے لیئے خیرات دینے کا طریقہ کار ہی ختم ہوجاتا ہے“۔ نیز چیریٹیز ایڈ فاؤنڈیشن (سی اے ایف) کی جاری کردہ ایک تازہ ترین تحقیقی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس2019 میں دنیا بھر کے خیراتی اداروں کو دیئے گئے عطیات میں سے نصف سے زیادہ رقم سکوں کی صورت میں دی گئی تھی۔جبکہ رپورٹ میں یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ آنے والے ایام میں دنیا بھر میں سکوں کا استعمال ترک یا بہت کم ہوجانے سے خیراتی اداروں کو حاصل ہونے والی امدادنصف تک کم ہوسکتی ہے۔

اس کے علاوہ سکوں کی بندش سے مہاجرین اور تارکین وطن بھی شدید متاثر ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ وہ افراد جو جنگ،کسی قوم کی طرف سے روا رکھے جانے والے ظلم و ستم یا کسی آفت سے بچاؤ کے لیئے مجبوراً اپنا وطن یا علاقہ چھوڑکر کسی دوسرے ملک یا خطے میں نقل مکانی کر جائیں مہاجرین یا پناہ گزین کہلاتے ہیں۔دنیا بھر میں اس وقت عالمی سیاسی خلفشار اورنقصِ امن کے ابتر حالات سے بچنے کے لیئے 70 ملین سے زائد انسان پناہ کی تلاش میں در بہ در ہیں۔ ان میں سے 40.8 ملین افراد وہ بھی ہیں جو اپنے ہی ملک میں بدامنی کی وجہ سے مہاجرین کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ویسے تو1990کی دہائی سے دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا تھا لیکن 2011سے شام میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے یہ تعداد یکدم خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اگر دنیا کی آبادی 7.34 بلین سمجھی جائے توہر 113 میں سے ایک شخص ہے جو یا تو اپنے ہی ملک میں بے گھر ہے یا پھر کسی اور ملک میں مہاجر ہے۔یہ تعداد برطانیہ، فرانس کی آبادی سے بھی زیادہ ہے اور خطرہ اس حدتک پہنچ گیا ہے کہ ہر 24 منٹ میں ایک شخص کو اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق دس ممالک میں دنیا کے آدھے سے زیادہ مہاجرین موجود ہیں، مہاجرین کو پناہ دینے والے اکثر ممالک معاشی طور پر غریب ہیں اور ان غریب ممالک کا عالمی معیشت میں حصہ صرف 2.5 فیصد ہے جن ممالک میں مہاجرین کی اکثریت آبادہے، ان میں سے ہر ملک اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے مہاجرین کوکسی بھی طرح کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے قابل نہیں۔لہٰذا دنیا بھر کے مہاجرین کو اپنی گزر بسر کرنے کے لیئے اپنے میزبان ملک کے شہریوں سے امداد کے لیے ہاتھ پھیلانا ہی پڑتے ہیں۔ چھوٹے سکوں کی منسوخی اور کمیابی نے مہاجرین کے لیئے عطیات کا حصول مشکل سے مشکل تر بنادیا ہے۔

مزید یہ مضمون بھی پڑھیں: زمین کے لیئے ہر زندگی ضروری ہے

سکوں کا مستقبل اَب ہماری مٹھی میں
ہمیشہ سے ہی سکے جمع کرنا ایک نفع بخش مشغلہ سمجھا جاتا رہاہے اور سکے جمع کرنے والوں کو ”کنگز آف ہابی“یعنی ”شوق کے بادشاہ“کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔کیونکہ ماضی میں عام تصور پایا جاتاتھا کہ صرف بادشاہ ہی نایاب سکے جمع کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ لیکن آج کے ڈیجیٹل زمانے میں انٹرنیٹ کی سہولت نے دنیا بھر کے نایاب سکوں تک سب کی دسترس کو کافی سہل اور آسان بنا دیا ہے اور اب ہر کوئی سکے جمع کرنے کا متحمل ہوسکتاہے۔نیز سکے جمع کرنے کے عمل کو اگر مشغلہ سے زیادہ وقت کی ضرورت قرار دیا جائے تو کچھ بے جانہ ہوگا۔ کیونکہ پرانے سکوں کو یادگاری صورت میں محفوظ کرنے کا بس اَب ایک ہی راستہ باقی بچا ہے کہ ہم اپنے طلباء وطالبات،بچوں یا پوتے،پوتیوں کو سکے جمع کرنے کا مشغلہ اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔ یاد رہے کہ پرانے سکے اپنی مالی قدرو قیمت کے لحاظ سے کسی خزانے کی مانند ہوتے ہیں۔یہ ہی وجہ سے بعض افراد اس مشغلہ کو اپنی سرمایہ کاری محفوظ بنانے کے لیئے بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سکے جمع کرنے کا مشغلہ انسان کی فنکارانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے کا باعث بھی بن سکتاہے کیونکہ ہر سکے کی بناوٹ کسی بڑے فنکار کی ہنرمند ی کاکمال ہوا کرتی ہے۔علاوہ ازیں سکے آپ کو تاریخ سے آگہی فراہم کرنے کا اہم سبب بھی بنتے ہیں۔ خاص طور پرعالمی سکے آپ کو دنیا کے دیگر ممالک کی تاریخ اور ثقافت سے بھی بخوبی روشناس کرواسکتے ہیں۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ دنیا کی بے شمار مشہورشخصیات بھی سکے جمع کرنے مشغلہ اختیار کیئے ہوئے ہیں۔مثلاً بڈی ایبسن، جیمز ارل جونز، نیکول کڈمین، اور پینی مارشل جیسے ہالی وڈ اداکاروں کے علاوہ وین گریٹزکی، ڈینس روڈمین، اور کریم عبد الجبار جیسے بڑی کھلاڑی بھی سکے جمع کرنے کے زبردست شائق ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 29 نومبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں