Ramzan Kareem And Our Digital Life

ماہِ صیام اور وبائی ایام کی عبادات

کورونا وائرس کی ہلاکت خیز وبا نے انسان کے اجتماعی نظم پر شدید کاری ضرب لگائی ہے اور تمام دنیا کا کاروبارِ حیات اجتماعیت کے دائرے سے نکل کر اچانک سے انفرادیت کے ایک چھوٹے سے دائرے میں مقید ہوکر رہ گیا ہے۔ سماجی دوری کے نام پر جلوت سے خلوت تک کا یہ سفر حضرت ِ انسان نے فقط اِس لیئے اختیار کیا ہے کہ کسی طرح کورونا وائرس کی وباکے عالمگیر پھیلاؤ کو قابو میں کیا جاسکے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سماجی دُوری کے اِس نئے فلسفہ نے مذہبی عبادات کو بھی سخت زک پہنچائی ہے،کیونکہ دنیا بھر میں ہر قسم کی اجتماعی مذہبی عبادات پر جزوی یا کلی طور پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن اگر دین کی باطنی آنکھ سے ملاحظہ کیا جائے تو منکشف ہوتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے دینی عبادات کے خلوتی پہلو کی اہمیت و افادیت کو ہم انسانوں پر مزید آشکار کیا ہے اور برسہا برس سے لگی بندھی،معمول کی اجتماعی عبادات کے مقابل اپنے رب کے حضورکچھ دن تک خلوت میں مناجات کرنے کا ایک دوسرا روح پرور موقع فراہم کردیاہے۔
کورونا وائرس کی وبائی آفت سے نمٹنے کے لیئے دنیا بھر کے مذہبی رہنماؤں اور فقہائے کرام کی طرف سے اجتماعی عبادات کو محدود کرکے انفرادی عبادت کرنے کے جاری ہونے فتاوی کو اس لیئے بھی غلط نہیں قرار دیا جاسکتاکہ ہمارے دین ِ اسلام میں غیر معمولی اور ہنگامی حالات میں اجتماعی عبادت پر انفرادی عبادت کوفوقیت دینے کی بے شمار روایتیں پہلے ہی سے موجود ہیں۔حالیہ دور کے جید علمائے کرام نے اُن ہی قدیمی روایات کا سہارا لیتے ہوئے اور ماضی میں کیئے گئے مذہبی شخصیات کے اجتہادی فیصلوں کے تناظر میں ہی موجودہ صورت حال پر اپنے فتاوی کو منطبق کرکے عوام النّاس کو اپنے اپنے گھروں رہ کر میں عبادات کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔
کورونا وائر س کے بعد کی صورت حال کی حساسیت کو سمجھنے کے لیئے قرونِ اولیٰ میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کا حوالہ دینا از حد مفید ہو گا۔ کہ ایک بار سیدنا عمرؓ شام کے سفر پر جارہے تھے کہ سَرغ نامی بستی سے اْن کا گزر ہوا، سیدنا ابوعبیدہ بن جراحؓ اور اْن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے مہاجرین وانصار صحابہ کرام اور غزوہئ فتحِ مکہ میں شریک اکابرِ قریش سے مشورہ کیا، پھر اجتماعی مشاورت سے اْنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے کہا کہ”اے امیر المومنین! کیا آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں“۔ انہوں نے جواب دیا”ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہا ہوں“۔ پھرحضرت سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ آئے اور اْنہوں نے کہاکہ”اِس حوالے سے میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت موجود ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ ”جب تم کسی بستی میں کسی وبا کے بارے میں سنو، تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم پہلے سے وہاں موجود ہو اور یہ وبا پھیل جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ جاؤ“۔ یہ سن کر سیدنا عمر بن خطابؓ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنا سفر آگے کی طرف جاری رکھا“۔ (مسلم، مْلخصاً2219:)
اچھی با ت یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی اکثریت علمائے کرام کی رائے کے عین مطابق گزشتہ تین،چار ہفتوں سے فرض نماز بشمول جمعہ اپنے اپنے گھرو ں میں ہی ادا کررہے ہیں،جبکہ دیگر اجتماعی عبادات،اذکار اور وظائف کے لیئے بھی خلوت کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جارہاہے۔ لیکن اَب رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے، جس میں ہر مسلمان کاقلب ایمانی و روحانی کیفیات سے پوری طرح لبریز ہے۔ کورونا وائرس کے وبائی ایام میں ماہِ رمضان المبارک کی پرکیف سعادتوں سے بھرپور انداز میں مستفید ہونے کے لیئے چند ایمان افروز تجاویز پیشِ خدمت ہیں۔



قرآن سمجھ کر بھی پڑھنا سیکھیں
ماہِ رمضان کریم میں نماز فجر کے بعدپاکستان کی کم و بیش ہر مسجد میں دروسِ قرآن کی خصوصی نشستوں کا انعقاد ایک قدیمی روایت ہے۔ جس میں مسجد کے معزز خطیب اور امام قرآن مجید کی تفسیر کا خصوصی بیان فرماتے ہیں اور نمازی پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اُسے سماعت فرماکر اپنے سینوں کو تعلیماتِ قرآن سے منور کرتے ہیں۔ جیسا کے سب جانتے ہیں کہ کوروناوئرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے باجماعت نماز ادائیگی کے حکم کو فقہائے کرام نے ایک عام شخص کے لیئے عارضی طور پر معطل کرنے کا فتوی جاری کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اِس بار رمضان المبارک میں بعد نماز ِ فجر ملک بھر میں قائم کسی بھی مسجد میں درسِ قرآن کی محافل منعقد نہ ہوسکیں گی۔ اِس لیئے اگر آپ چاہیں تو مسجد میں درسِ قرآن کے نعم البدل کے طور پر اپنے گھر میں ہی قرآن مجید فرقان حمید کو سمجھ کر پڑھنے کا آغاز کرسکتے ہیں۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ تلاوتِ قرآن پاک کا ایک معنی ”عمل کرنے کی نیت سے پڑھنا“بھی ہے اور اِس معنی و مفہوم پر ہم اُس وقت ہی پورا اُتر سکتے ہیں کہ جب تلاوتِ قرآن حکیم کے دوران اُس کے مطالب و احکامات کوبھی سمجھنے کی قدرت و صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کے لیئے ازحد ضروری ہے کہ قرآن فرقانِ حمید کو سمجھ کر پڑھنے کی بھرپور سعی کی جائے۔ قرآن مجید کو سمجھ کرپڑھنے کے لیئے ہم آپ کو ایک خصوصی کورس کے متعلق بتارہے ہیں۔ اِس کورس کا نام “Understand Quran” ہے، جسے 1998 میں معروف اسکالر جناب ڈاکٹر عبدالعزیزعبدالرحیم کی جانب سے ترتیب دیا گیا تھا۔ چالیس اسباق پر مشتمل اِس کورس کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اِس کے ذریعے آپ قرآن کریم کے 50 فیصد سے زائد الفاظ کے معنی و مفہوم کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں۔جبکہ یہ کورس انٹرنیٹ پر بالکل مفت میں دستیاب ہے۔اِس کورس کا ایک سبق 30 منٹ دورانیہ پر محیط ہے جسے آپ ایک سے دوبار سُن کر باآسانی یاد کرسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں اِس کورس کا ہر سبق روزمرہ کی جانے والی عبادت اور اذکار کی پڑھی جانے والی عربی عبارات سے ترتیب دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اسباق کو یاد کرنا اور بھی زیادہ سہل ہوجاتاہے۔مزید یہ کہ آپ اِس کورس کے اسباق کو باآسانی کمپیوٹر اور اسمارٹ فون پر بھی ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ تاکہ بغیر انٹرنیٹ کنکشن اور پیکیج کے بھی اِس سے استفادہ کیا جاسکے۔ جبکہ اِس کورس کے متعلق دیگر طباعتی مواد بھی ڈاؤن لوڈ کے لیئے مفت میں دستیاب ہے،جسے آپ چاہیں تو پرنٹ کر کے ایک کتاب کی صورت میں اپنے پاس محفوظ بھی بناسکتے ہیں۔ تاکہ بعدازاں مشق کرنے میں آسانی ہوسکے۔ گزشتہ 20 برسوں میں لاکھوں افراد اِس کورس کی مدد سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں۔ بلاشبہ قران کو سمجھنے کے لیئے دنیائے انٹرنیٹ پراِس سے زیادہ مقبول اور بہترین کوئی دوسرا کورس موجود نہیں ہے اور یہ رائے اُن ہزاروں لوگوں کی ہے جو اَب تک اِس کورس کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرچکے ہیں۔قرآن فہمی کے اِس کارآمد کورس کا مختصر لنک درج ذیل ہے۔ https://bit.ly/2K4o4PW

دافع البلاء والوباء والقحط والمرض
ساری دنیا اِس وقت کووڈ 19 کے مرض سے نبرد آزما ہونے کے لیئے فقط ”لاک ڈاؤن“ پر تکیہ کیئے ہوئے ہے لیکن کورونا وائرس جیسی مہلک وباؤں سے لڑنے لیئے ایک مومن کے لیئے جو سب سے بہتر ہتھیار ہوسکتاہے،وہ صرف اور صرف دُعا ہے اور اِس دُعا کے ہتھیار کو استعمال کرنے کا موقع اگر رمضان جیسے مقدس مہینے میں میسر آجائے تو پھر کیا ہی کہنے۔ جبکہ احادیث کی کتب میں مذکور ہے کہ روزے کی حالت میں عصر سے افطار تک کا وقت دعاؤں کی قبولیت کے لیئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اِس لیئے ہماری گزارش ہے کہ اپنے اِس قیمتی وقت کوسوشل میڈیا پر چیٹ کرنے یا پھر مختلف ٹی وی چینلز پر چلنے والے تفریحی پروگراموں کی نذر کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ مختلف طرح کے اذکار کرنے میں گزاریں۔ جبکہ کورونا وائرس کی وبا سے حفاظت کے لیئے درودِ تاج کو ضرور اپنے معمول کے ذکر کا ایک لازمی حصہ بنالیں۔کیونکہ درودِ تاج کو ”دافع البلاء والوباء“ بھی کہاجاتاہے۔ یہ درود حضرت سید ابوالحسن شازلی ؒ نے انتہائی جذب و حضوری کے عالم میں روحانی طور پر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا تھا۔ اِس درودِ تاج کے ابتدائی کلمات میں حضرت محمد ﷺ کو”دافع البلاء والوباء والقحط والمرض“ کے القاب سے موسوم کیا گیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے برصغیر پاک و ہند میں برسوں سے درودِ تاج کو وبائی امراض سے بچاؤ اور حفاظت کے لیئے بطور اکسیر پڑھا جاتارہاہے۔ اِس ماہِ صیام عصر سے افطار کے درمیان ایک، تین یا سات بار درودِ تاج کا روزانہ پڑھنا،کورونا وائرس سے نہ صرف آپ کو اور آپ کے خاندان کے لیئے بطور حصار کام دے گا بلکہ یہ درود تاج ہماری ارضِ پاک سے کورونا وائرس کے خاتمہ اور نجات کا باعث بھی بنے گا۔ جیسا کہ الطاف حسین حالیؔ نے فرمایا تھا کہ اے خاصہٗ، خاصاں رُسل وقت دُعا ہے۔۔۔اُمت پہ تری آکہ عجب وقت پڑاہے۔۔! اگر آپ کے پاس درودِ تاج موجود نہیں ہے تو کوئی بات نہیں آپ مندرجہ ذیل لنک سے باآسانی اِسے اپنے اسمارٹ فون کا لازمی جز بناسکتے ہیں۔ https://bit.ly/2KanWy1

اپنی افطار میں سے ایثار کریں
ماہِ صیام میں روزے دار کے لیئے سحر و افطار کا اہتمام بنیادی رُکن کا درجہ رکھتا ہے۔خاص طور پر افطار ہمیشہ ہی سے مسلمانوں کے ہاں اجتماعیت کی ایک بڑی علامت رہی ہے۔ کیونکہ اسلام میں روزہ دار کا افطار کرنا ہی صرف باعثِ اجروثواب نہیں ہوتا بلکہ دوسرے افراد کے لیئے افطاری کا بندوبست کرنا بھی ایک بہت بڑی نیکی تصور کی جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جو روزہ دار کو افطار کرواتا ہے،اُس کے لیئے روزہ دار کے برابر اجر ہے اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی“۔(سنن ترمذی۔حدیث 807)۔مگر اِس ماہِ رمضان کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے انسداد کے لیئے علمائے کرام کی اکثریت نے افطار پارٹیوں،یا افطار ڈنر کے اجتماعات سے پرہیز کرنے کی ہدایات جاری فرمائی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے افطاری کے لیئے اجتماعی تقریبات کا انعقاد کسی بھی طور پر مناسب نہ ہوگا۔ لیکن اِس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ایک مسلمان اِس ماہِ مقدس میں لوگوں کو افطار کروا کر اجرو ثواب حاصل کرنے کے لیئے کوئی دوسرا راستہ اختیار کرسکتا اور کارِ خیر کرنے کی تو ہمیشہ سے ہی ایک زیادہ راہیں موجود ہوتی ہیں۔ ویسے بھی اِس رمضان المبارک میں تو روزہ دار پہلے سے زیادہ آپ کے افطاریوں کے منتظر ہوں گے۔ کیونکہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے لاکھوں لوگوں کو ضرورت مند افراد کی صف میں لاکھڑاکیا ہے اور اَب یہ لوگ آپ جیسے ہی صاحبِ استطاعت اورمخیر حضرات کے جذبہ ہمدری کے بڑی شدت کے ساتھ منتظر ہیں۔ اِن ہزاروں لوگوں تک اپنی افطار کا کچھ حصہ پہنچانے کے لیئے آپ پاکستان میں کام کرنے والے معروف اور قابلِ اعتماد فلاحی اداروں مثلاً سیلانی ویلفیئر اور الخدمت فاؤنڈیشن کی خدمات حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ فلاحی ادارے کورونا وائرس کی وبا سے متاثر ہونے والے ہزاروں افراد سے اپنے راوابط مسلسل استوار کیئے ہوئے ہیں۔اِن فلاحی اداروں کے ذریعے آپ بے شمار حق دار افراد تک اپنی افطاریاں پہنچا سکتے ہیں۔تو پھر دیر کس بات کی ہے،ابھی مندرجہ ذیل لنک پر کلک کرکے آپ اِ ن میں سے کسی بھی ایک ادارے کی موبائل ایپلی کیشن کو اپنے اسمارٹ فون میں ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے عطیات سے روزے داروں کے لیئے افطار کا بندوبست کریں۔ https://bit.ly/2RCYK7P ، https://bit.ly/2V9LARy

نماز تراویح گھر پر کیسے ادا کریں؟
حکومت ِ پاکستان نے ”کورونا بحران“ کا مقابلہ کرنے کے لیئے ابتداہی سے مختلف مکاتب ِ فکر کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ خصوصی رابطے کا اہتمام کیا تاکہ کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی نازک ترین صورت حال میں دینی طبقات کے ذریعے عوام کے ساتھ مذہبی معاملات کی انجام دہی میں مفاہمت اور بہترین تعلقات کو مستحکم بنایا جاسکے۔خاص طوپر رمضان المبارک کے دوران مساجد میں نمازِ پنجگانہ، تراویح اور دیگر مذہبی امور کی ادائیگی کے حوالے سے ایک مشترکہ نظام العمل پاکستان بھر میں نافذ کیاگیا ہے۔ جس کے مطابق رمضان المبارک میں مساجد کو فعال رکھنے اور نمازِ تراویح سمیت نمازِ پنجگانہ کی ادائیگی کے لیے چند شرائط اور ”راہنما اصول“ وضع کردیے گئے ہیں جن کے پاسداری کی شرط کے ساتھ ہی مساجد میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کی اجازت دی جارہی ہے۔مثلاً جو لوگ بیمار ہیں، یا وائرس سے متاثر ہیں یا ان کی عیادت پر مامور ہیں یا زائد العمر ہیں وہ مساجد نہ آئیں۔جبکہ مساجد کے دروازے پر سینی ٹائزرز واک تھروگیٹ یا اسپرے کا اہتمام کیا جائے، دو صفوں کے درمیان ایک صف کا فاصلہ ہو اور ایک صف میں بھی مقتدی مناسب فاصلے کے ساتھ کھڑے ہوں، نمازی وضو گھر سے کر کے آئیں، ماسک پہنیں، سنتیں بھی گھر سے پڑھ کر آئیں اور بقیہ نماز گھر جا کر پڑھیں۔اس کے علاوہ نماز پڑھنے کے بعد بھی تمام حضرات ہجوم کرنے کے بجائے مناسب فاصلوں سے گھروں کو روانہ ہوجائیں۔ تاکہ سماجی دوری کے بنیادی اُصول پر کماحقہ عمل ہوسکے۔ حکومت کی طرف سے عائد کردہ اِن شرائط کے بعد پاکستان میں نمازیوں کی ایک بڑی اکثریت رمضان المبارک کی پرسعید سعاعتوں میں مساجد جا کر عبادت کرنے خاص طوپر ماہِ صیام کی ایک اہم ترین مذہبی روایت تراویح پڑھنے سے قاصر ہے۔ اُن تمام حضرات کے لیئے ”تراویح اینڈ قرآن کنیکٹ“ نامی موبائل اپلی کیشن پیش ِ خدمت ہے۔ جس کی مدد سے گھر پر ہی تراویح کی ادائیگی میں خصوصی امداد حاصل ہوسکتی ہے۔ خاص طور پر تروایح کے مسائل و احکامات کی آگاہی سے متعلق اِس ایپ میں ایک خصوصی فیچر بھی شامل کیا گیاہے۔ گھر میں رہ کر تراویح پڑھنے کے لیئے یہ ایک بہترین اپلی کیشن ہے۔ اگر آپ اِسے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اِس مختصر لنک پر کلک کریں۔https://bit.ly/3chgWvq

حوالہ: یہ خصوصی مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 03 مئی 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں