Shaikh-Rasheed-rail-minister

ریل گاڑی کو چلاؤ شیخ جی! ذرا ہلکے ہلکے

دنیا بھر میں ریل گاڑی کا سفر سب سے محفوظ اور آرام دہ خیال کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ریل گاڑی کا سفر نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی اِسے کسی بھی حوالے سے آرام دہ قرار دیا جاسکتاہے۔گزشتہ چالیس برسوں سے ہمارے ملک میں ریلوے کا نظام بدترین ابتری کا شکار رہا ہے، ہر عوامی و جمہوری حکومت اقتدار میں آنے کے بعد ریلوے نظام میں بہتری کے بلند بانگ دعوے تو ضرور کرتی ہے مگر چونکہ حکومتی زعماء اور وزرا ء کا براہِ راست واسطہ کبھی بھی ریل گاڑی سے سفر کرنے کا نہیں پڑتا اِس لیئے چھوٹے موٹے دل بہلانے والی اصلاحات کر کے وہ اپنی دانست میں یہ فرض کرلیتے ہیں کہ اُنہوں نے ریلوے کا نظام ٹھیک کر کے ریل گاڑی کو بہتری کی پٹری پر ڈال دیا ہے۔حقیقت تو تب آشکار ہوتی ہے جب کچھ ہی دن بعد ریل گاڑی اپنے سینکڑوں معصوم مسافر وں کے ہمراہ کسی المناک حادثہ کا شکار ہوجاتی ہے۔عموماً ریل گاڑی کے پٹری کے اُترنے کے بعد ہی ریلوے کے وزیر کی عقل، اُس کے اصل ٹھکانے پر واپس آتی ہے۔جیسا کہ جناح ایکسپریس اور مال گاڑی میں ہونے والے خوفناک تصادم کے بعد وفاقی وزیر ریلوے جناب شیخ رشید صاحب کو شدت سے یہ احساس ہو رہا ہے کہ اُن سے واقعی ریلوے کے نظام کو چلانے میں کوئی غلطی ہوگئی ہے۔اَ ب شیخ رشید صاحب ریل گاڑی کے حادثہ کے نتیجہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر پوری پاکستانی قوم سے معافی کے خواستگار ہیں۔اُمید ہے کہ قوم بھی انہیں ضرور معاف کردے گی کیونکہ کم از کم شیخ رشید نے بطور وزیر ریلوے،ریل گاڑی کے حادثے پر عوام کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ تو سمجھا ورنہ بدقسمت پاکستان ریلوے کے نصیب میں تو ماضی میں ایک ایسے وزیر باتدبیر بھی آئے تھے جو ریل گاڑی کا حادثہ ہوجانے کے بعد عوام کو نصیحت کرتے تھے کہ ”اگرریل گاڑی کے سفر میں آپ کو حادثہ کا خوف محسوس ہوتا ہے تو پھر لگژری بسوں میں سفر کیا کریں“۔موصوف نے تو ایک بار ترنگ میں آکر یہ بھی فرمادیا تھا کہ”ریل گاڑی کے حادثے میں ساری غلطی ریل گاڑی سے ٹکرانے والے کی ہوتی کیونکہ ریل گاڑی تو کسی کو اُس کے گھر میں جاکر ٹکر نہیں مارتی“۔وہ تو اچھا ہوا کہ موصوف خود بھی جلد ہی کسی الیکشن میں المناک ”حادثاتی شکست“ سے دوچار ہوگئے وگرنہ معلوم نہیں اُن کے دستِ شفقت تلے آج پاکستان ریلوے زندہ موجود بھی ہوتا یا نہیں۔

یاد رہے کہ حیدر آباد میں جناح ایکسپریس اور مال گاڑی میں ہونے والا تصادم صرف پچھلے دس مہینوں میں ہونے والے کے تین درجن سے زائد افسوسناک حادثات میں سے ایک ہے، جس میں تین افراد جاں بحق اور کئی معصوم زخمی ہوگئے۔ میڈیا میں آنے والی تفصیلات کے مطابق کوئلے سے لدی ایک مال گاڑی سگنل نہ ملنے کے باعث پہلے ہی سے حیدرآباد ریلوے ٹریک پر کھڑی تھی کہ جناح ایکسپریس کو بھی روانگی کا سگنل دے دیا گیا۔ یوں جناح ایکسپریس مال گاڑی سے زور دار دھماکیساتھ ٹکرا گئی۔جس سے جناح ایکسپریس کا ڈرائیور اور دو اسسٹنٹ ڈرائیور موقع پرہی جاں بحق ہوگئے۔ اِس اندوہناک حادثے کے بعد مین ریلوے لائن ہر قسم کی ٹریفک کے لیئے بند ہوگئی اور ریلوے حکام کو درجنوں ریل گاڑیوں کوحیدر آبا،د کوٹری اور دوسرے سٹیشنوں پر 12 گھنٹے تک روکنا پڑا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں برس جناح ایکسپریس دوسری مرتبہ حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھی سندھ سے گزرتے اس ریل گاڑی کی ایک بوگی میں آگ لگ گئی تھی،جبکہ خوشحال خان خٹک ایکسپریس بھی اٹک اور پشاور کے قریب دو مرتبہ حادثات سے دو چار ہو چکی ہے۔ اِس کے علاوہ گزشتہ ماہ راولپنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس بھی گوجر خان کے قریب پٹری سے اترگئی تھی۔ جس کی وجہ سے رمضان المبارک میں 15گھنٹے تک ریلوے ٹریک پر ریل گاڑیوں کی آمد و رفت معطل رہی تھی اور بیچارے مسافر روزہ کی حالت میں حال سے بے ہوگئے تھے۔دور کیوں جائیں پچھلے ہفتے کی ہی بات ہے کہ کوئٹہ میں ایک مال گاڑی بھی حادثے کا شکار ہوگئی تھی، کراچی سے آنے والی اِس مال گاڑی میں سامان سے بھرے ہوئے کنٹینر لدے ہوئے تھے مگر چونکہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران ہونے والے اِن تمام حادثوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا اِس لیئے پاکستان ریلوے کے حکام نے کوئی خاص پرواہ نہ کی اور وزیرِ ریلوے شیخ رشید کے حکم پر آئے روز نئے نئے ناموں سے نئی نئی ریل گاڑیاں چلاتے رہے،بلا یہ سوچے سمجھے کہ آیا برسوں پرانا ریلوے ٹریک اتنی زیادہ ریل گاڑیاں چلانے کی سکت بھی رکھتا ہے یا نہیں۔



بہرحال اَب کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ہمارے دوست فیض احمد صدیقی تو چند ماہ پہلے ہی ایک نجی محفل میں پیشن گوئی فرما چکے تھے کہ اتنی زیادہ ریل گاڑیاں چلا کر کسی نہ کسی دن شیخ رشید خود بھی مرے گا اور بیچارے معصوم مسافروں کو بھی مروائے گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ پرانے اور فرسودہ ریلوے ٹریک پر بھانت بھانت کی ریل گاڑیاں چلتے دیکھ کر ہول تو سب ہی کے دل میں اُٹھتا ہوگا کہ آیا یہ ریل گاڑیاں بحفاظت اپنی منزلِ مقصود پر پہنچیں گی بھی یا نہیں۔ مگرکتنے افسوس کی بات ہے کہ شیخ رشید گزشتہ دس ماہ کے دوران پے درپے ہونے والے حادثات کی وجوہات جاننے،انہیں دور کرنے اور ریلوے ٹریک کی مرمت کے بجائے۔ ریل گاڑی کے ڈبوں کی فقط باہر سے تزئین و آرائش پر کثیر رقوم خرچ کر کے نئی نئی گاڑیاں چلانے کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش ہی کرتے ر ہے۔ جس کا آخری نتیجہ جناح ایکسپریس کے تازہ حادثہ کی صورت میں برآمد ہواہے۔ہمارے خیال میں یہ حادثہ وفاقی وزیرِ ریلوے جناب شیخ رشید صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی و شافی ہونا چاہئے اور اُنہیں آئے روز نت نئی ریل گاڑیاں چلانے کے خبط سے نکل کر پہلے سے چلنے والی ریل گاڑیوں کے سفر کو محفوظ اور آرام دہ بنانے کے لیئے فوری طور پر ایسے موثر اقدامات کا آغاز کردینا چاہئے۔جن کی بدولت آئندہ سے ریل گاڑیاں المناک حادثات کا شکار ہونے سے بچ سکیں،کیونکہ جب تک پاکستان ریلوے کی طرف سے ریل گاڑی کے محفوظ اور آرام دہ سفر کو یقینی نہیں بنایا جائے گا،اُس وقت تک کسی بھی صورت ریلوے کی بحالی اور قوم کی خوشحالی ممکن نہیں ہوگی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 24 جون 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں