putin-says-insulting-prophet-muhammad-pbuh-is-violation-of-religious-freedom

دنیا کے لیئے پیوٹن کے بیان میں کتنے اسباق پوشیدہ ہیں؟

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے ایک بار ارشاد فرمایا تھا کہ ”انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے“۔اس جملے کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کی بات چیت سے باآسانی اور بخوبی کیا جاسکتاہے۔کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اُس کی ذہنی و اخلاقی کیفیت اور اُس کے عقائد و نظریات کی مکمل آئینہ دار ہوتی ہے۔ یعنی جب تک ایک شخص خاموش ہے،اُس کا تمام تر شخصی عیب وہنر دوسروں سے پوشیدہ رہتاہے اور جیسے ہی اُس کی زبان نے پہلا جملہ ادا کیا،اُس کا تفصیلی تعارف کلام سننے والوں کو حاصل ہوگیا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ بے ہنر،کوتاہ عقل، کج رواور درشت فطرت کے حامل افراد کو اہل دانش و بنیش اکثر یہ ہی مشورہ دیتے ہیں کہ خاموشی اُ ن کے لیئے نفع،جبکہ فضول اور بے ربط گفتگو اُن کے لیئے ضرر و پریشانی کا باعث بنے گی۔

یاد رہے کہ ایک شخص کا حلقہ ارادت جس قدر وسیع ہوگا، اُسی نسبت سے خاموشی اور گفتگو اُس کے لیئے منفعت اور خسارے کا باعث بن جاتی ہے۔ چونکہ ہماری دنیا کے تمام حکمران سوائے چند استثنائی صورتوں کے الا ماشاء اللہ عقل و دانش کے لحاظ سے بس پورے پورے ہی ہوتے ہیں،اس لیئے جب سے ہماری دنیا میں حکومتی نظم و نسق قائم ہوا ہے، تب سے لے کر آج تک ہر صاحبِ اقتدار چاہے وہ زمانہ قدیم کا بادشاہ ہو، راجا ہو،مہاراجہ یا پھر دورِ جدید کا صدر اور وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو اُن کے لیئے ایک اُصول طے کردیا گیا ہے، وہ اپنے اردگرد ہمہ وقت مشیر، وزیر باتدبیر اور ترجمانوں کی ایک فوج ظفر موج رکھنے کا لازمی التزام برتیں گے۔ تاکہ مسندِ اقتدار پر فائز حکمران کے ہلکے پھلکے اور اُلٹے سیدھے خیالات و نظریات اُن کی اپنی زبان سے اد ا ہونے کے بجائے اُن کے ترجمانوں کے ذریعے مناسب الفاط کے سانچوں میں ڈھل کر دوسروں تک پہنچ سکیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں بعض حکمرانوں نے اس اُصول کی سختی سے پابندی کی اور جاہل مطلق ہوتے ہوئے بھی اپنا مافی الضمیرخود بیان کرنے کے بجائے مشیروں اور ترجمانوں کی وساطت سے عوام تک پہنچانے کی مستحسن عادت اپنا کر تاریخ میں اپنا نام بطور ایک کامیاب اور امن پسند حکمران کے درج کروالیا، جبکہ دوسری جانب ایسے بھی حکمران کثیر تعداد میں گزر ے ہیں،جنہوں نے اپنے کھوکھلے دعووں اور وقت بے وقت کی جملہ بازی سے اپنا ملک اور ریاست بھی گنوا دی۔ دورِ جدید میں ایسے ہی ایک بڑبولا حکمران، فرانس کا صدر ایمانویل میکرون بھی ہے،جس نے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کو آزادی اظہار رائے قرار دینے کا مذموم بیان دے کر جہاں دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے دلی جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی،وہیں مسلم اُمہ کی جانب سے ہونے والے فرانسیسی مصنوعات کے عالمگیر بائیکاٹ سے اپنے ملک کی معیشت کو زبردست خطرات سے دوچار کیا۔ نیز ایمانویل میکرون کی دریدہ دہنی کے بعد عالمی سطح پراُس کی جو رسوائی حاصل ہوئی، اُس کی کہانیاں بھی کافی شرم ناک ہیں۔ جیسے بعض عالمی تقریبات کے اسٹیج پر مسلم رہنماؤں نے اُن سے ہاتھ ملانے سے انکار کردیااور کبھی مجمع عام میں ذرائع ابلاغ کے سامنے کسی من چلے نے اُن کے چہرے پر اپنے جوتے کا نشان ثبت کراُن کی جگ ہنسائی کا بندوبست کردیا۔

اگرچہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے موقف کی کسی عالمی رہنما نے بھی درست قرار نہیں دیا، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم ممالک کے رہنماؤں کے کسی بڑے عالمی رہنما نے فرانسیسی صدر کے بیان کی اُس طرح سے کھل کر اور واضح انداز میں مذمت بھی نہیں کی،جیسا کہ اس طرح کے معاندانہ اور متعصبانہ بیانات کی مذمت کرنے کا حق بنتاتھا۔عالمی رہنماؤں کے اِس سفارتی رویے اکثر مسلم آباد ی اذہان میں یہ وسوے، اندیشے اور اشکالات پنپنے لگے کہ ”کیا دیگر مذاہب و عقائد سے تعلق رکھنے والے تمام ممالک کے حکمران آزادی اظہار رائے کی وہ ہی تعریف درست سمجھتے،جس کی تشریح و وضاحت فرانسیسی صدر میکرون کرتے پھرتے ہیں؟“۔ یہ ایک ایسا اہم ترین سوال ہے، جس کا تسلی بخش جواب حاصل کیئے بغیر مسلمانوں کا عالمی رہنماؤں پر کسی بھی سطح کا اعتماد کرنا کم و بیش ناممکن تھا۔ اچھی بات یہ ہوئی کافی عرصے ٹہرے ہوئے اس پانی میں پہلا پتھر پھینک کر روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے ایک خوش کن قسم کا اتعاش پیدا کردیاہے اور اپنے ایک حالیہ بیان سے مسلم اُمہ کو یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کے تمام غیر مسلم حکمران فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کی مانند اظہار رائے کی متعصبانہ تعبیر کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے رواں ہفتے ایک خصوصی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ”پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی آزادی اظہار رائے ہر گزنہیں ہے،کیونکہ شان رسالت ﷺ میں گستاخی اکثر لوگوں کو ناراض کرنے اور انہیں اشتعال دلانے کا باعث بنتی ہے۔اس لیئے میرے نزدیک شان رسالت ﷺ میں گستاخی ہر قسم کی مذہبی اور اظہار رائے کی آزادی کے یکسر خلاف ہے اور بعض عالمی رہنما اسے جان بوجھ کر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں“۔نیز متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو پر حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی صدر کا مزید کہنا تھاکہ ”ایسی حرکتیں انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہیں۔ایک بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ آزادی آپ کے اردگرد لوگوں کو عزت دینے کا نام ہے نہ اُن کی محبوب شخصیت کی اعلانیہ توہین کر کے اُنہیں دُکھ دینے کا کوئی کام ہے“۔روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے اس بیان کے عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے کے بعد جہاں فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون جیسے خیالات و نظریات کے حامل افراد کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے، وہیں روسی صدر کے اس بیان پر دنیا بھر کے مسلمانوں کے چہرے مسرت سے کھل اُٹھیں۔جبکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور سرکردہ رہنماؤں کی جانب سے ولادیمیر پیوٹن کی مذکورہ بیان کو خوب سراہا جارہا ہے۔

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ”صدر پیوٹن کا بیان میرے پیغام کی تصدیق کرتا ہے کہ، نبی پاک ﷺ کی توہین ”آزادی اظہار” نہیں ہے۔ہم مسلمانوں کو خصوصاً مسلم رہنماؤں کو اسلامو فوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے اس پیغام کو غیر مسلم دنیا کے رہنماؤں تک پہنچانا چاہیے“۔ وسری طرف امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ”روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کا یہ بیان کہ نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی اظہارِ رائے کی آزادی یا فن کا اظہار نہیں ہے، عالم اسلام کے اس موقف کی تائید ہے کہ حضو ر ﷺ کی حرمت و تقدس آفاقی ہے جس پر ہم ان کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہیں“۔ جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے مولانا فضل الرحمٰن کے ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ”کھلے دل کے ساتھ مسلم اُمّہ کے اس لیڈر کا بھی شکریہ ادا کریں جس نے نبی کریم ﷺ کی شان اقدس کی حرمت کا مدعا پوری دنیا کے سامنے رکھا اور آج روسی صدرولادی میر پیوٹن جیسے عالمی رہنما عمران خان کی ان کاوشوں کے نتیجے میں اس مسئلے پر دو ٹوک رائے دے رہے ہیں“۔علاوہ ازیں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر عام صارفین کی جانب بھی روسی صدر ولادی میر پیوٹن کی خوب ستائش کی جاری ہے اور اُ ن کا بیان ٹاپ ٹرینڈ کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں باز پرس کرنے والا صرف ایک بیان دینے کے بعد بطور ایک عالمی رہنما گوگل سرچ کی درجہ بندی میں بھی پیوٹن تیزی سے مقبولیت کی نئی منازل طے کرتے جارہے ہیں اور وہ لوگ جو کل تک روس کے صدر کا درست نام بھی نہیں جانتے تھے،اَب اُن کی شخصیت کے متعلق ایک ایک بات کو جاننے کے مشتاق دکھائی دیتے ہیں۔ یاد رہے ولادی میر پیوٹن روس کی تاریخ میں سب سے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے روسی عوام کی نگاہوں میں یہ قدر و منزلت اپنی اُن کی انتظامی، سیاسی اور سفارتی پالیسیوں کی بدولت حاصل کی ہے، جن کی وجہ سے چند دہائی قبل شکست خوردگی کا شکار ہونے والا سویت یونین ایک بار پھر سے عالمی منظرنامہ اہمیت اختیار کرتا جارہاہے۔ ہم اکثر یہ خبریں تو بہت سنتے ہیں کہ روس اور پاکستان بڑی تیزی کے ساتھ معاشی،دفاعی اور سیاسی معاملات میں ایک دوسرے کے قریب آتے جارہے ہیں لیکن شاید یہ بات بہت کم قارئین جانتے ہوں گے کہ روس اور پاکستان کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط سفارتی و دفاعی بندھن میں پیوست کرنے کا بنیادی آئیڈیا ہی ولادی میر پیوٹن کاتھا۔ یعنی ایک ایسا ملک جس نے صرف تین دہائی قبل روس کو شکست فاش سے دوچا رکیا ہو، اُس ملک کے ساتھ اپنی عوام کو معاشی و دفاعی تعلقات کے لیئے آمادہ کرنا، کسی بھی رہنما کے لیئے کس قدر مشکل کام ہوگا، اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

مگر ولادی میر پیوٹن کی سب سے بڑی خوبی ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیئے غیر مقبول فیصلے کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے اور اُن کی یہ ہی عادت اُنہیں ایک مضبوط عالمی رہنمابناتی ہے۔ وگر نہ بڑے بڑے ممالک کے نام نہاد عظیم سیاسی لیڈر تھوڑے سے فائدے اور مصلحت کی خاطر سچ اور حق بات کہنے حتی المقدور اجتناب ہی برتتے ہیں۔ بہرکیف روسی صدر ولادی میر پیوٹن کا حالیہ بیان عالمی آزادی رائے کو جھنجھوڑنے کے لیئے بارش کا پہلا قطرہ ضرور کہا جاسکتاہے۔ اَب آنے والے ایام میں دیکھنا یہ ہوگا کہ روسی صدر کے مثبت بیان کے بعد اُن کے نقش قدم کے مزید کون کون سے عالمی رہنما چلنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ ایک بات تو طے ہی اگر ہماری دنیا کو امن و آتشی کا گہوراہ بنا ہے تو پھر آزادی رائے کی تشریح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے نظریات میں طے کرنے بجائے روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خیالات و افکار کی روشی میں ترتیب دیناہوگی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 06 جنوری 2022 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں