PSL Final in Karachi

پی ایس ایل تھری فائنل کا کراچی میں انعقاد

پاکستانیوں کو کرکٹ کے ساتھ کتنی دلچسپی ہے،یہ وہ بات ہے جو ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے اور جب بات پاکستان میں کئی سالوں سے ویران کرکٹ میدانوں میں کرکٹ کی واپسی کی ہو تو کرکٹ کے دلدادہ پاکستانیوں کے جذبات و احساسات کی درست منظر کشی کرنا اتنا آسان کام نہیں۔کچھ ایسی ہی صورت احوال اس وقت پورے سندھ اور بالخصوص کراچی کے عوام کی ہے۔جہاں سب کی نظر یں اُس دن کے آنے پر لگی ہوئی ہیں، جب اُن کے سامنے دنیا بھر کے نامور کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں گے اور وہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں بیٹھ کر اپنی آنکھوں سے چھکے،چوکے اور وکٹیں گرتیں دیکھیں گے۔ اب آپ سمجھ ہی گئے ہوں کہ ہمار ا اشارہ پی ایس ایل تھری کے فائنل کی طرف ہے، جس کا انعقاد اس بار کراچی میں ہونے کی قوی اُمید ہے۔جس کے کامیاب انعقاد کو ممکن بنان نے کے لیئے سندھ حکومت اور یگر سیکورٹی ادارے دن رات مصروف عمل بھی ہیں کیونکہ پی ایس ایل تھری کے فائنل کے انعقاد کا تمام تر دارمدار ”سیکورٹی کلیئرنس“ سے مشروط ہے۔جس کے لیئے آئی سی سی کے وفد کے ہمراہ غیر ملکی سیکیورٹی کنسلٹنٹ ریگ ڈکسن نے کراچی کا دورہ کیا اور فل ڈریس ریہرسل اور سیکورٹی کے دیگر انتظامات کا جائزہ بھی لیا اورپی ایس ایل 3کے فائنل کے لیے سیکیورٹی انتظامات کواطمینان بخش قرار دینے کے ساتھ ساتھ بعض معاملات پراپنے تحفظات کا اظہارکردیا۔ریگ ڈکسن ان کا کہنا تھا کہ”اداروں کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ اور پریزینٹیشن بہت مفصل اوربھر پور رہی جس سے میں بہت مطمئن ہوں اور یہ میری رپورٹ کی تیاری کے لیے سود مند رہیں گی لیکن کچھ معاملات پر تبادلہ خیالات کرنا ابھی باقی ہے لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ سب مثبت توقعات رکھیں۔ 25 مارچ کو فائنل کراچی میں منعقد کرانے کا فیصلہ کرنا میرا کام نہیں ہے، میرا کام سیکورٹی کی رپورٹ پیش کرنا ہے،میں اپنی رپورٹ7 دن میں پیش کردوں گا“۔

پی ایس ایل فائنل کی ریہرسل کے لیے سیکیورٹی قافلہ ایرپورٹ سے ہوٹل اور پھر ہوٹل سے نیشنل اسٹیڈیم پہنچا جس میں غیر ملکی سیکیورٹی ماہرین بھی موجود تھے، ہیلی کاپٹرز سے بھی فل ڈریس سیکیورٹی ریہرسل کی نگرانی کی گئی جب کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے موبائل اسپتال بھی موجود رہے، فائر بریگیڈ اور ایمبولینس بھی نیشنل اسٹیڈیم کے باہر موجود تھیں۔ اس موقع پر پولیس اور رینجرز کے ہزاروں اہلکار نیشنل اسٹیڈیم کے اطراف تعینات تھے۔ سوک سینٹر، ڈالمیا، کارساز اور نیو ٹاؤن سے اسٹیڈیم آنے والے تمام راستے مکمل طور پر بند کردئیے گئے تھے۔سیکورٹی ٹیم نے نیشنل اسٹیڈیم کے مختلف حصوں اورگراؤنڈ کے اطراف کا معائنہ کیا، اس کے بعد اعلیٰ سطحی اجلاس میں انہیں انتظامیہ اورقانون نافذکرنے والے اداروں کی جانب سے تفیصلی بریفنگ دی گئی۔ جس میں بتا یا گیا کہ پی ایس ایل فائنل کے روز سیکیورٹی کے لیے 8 ہزاراہلکارتعینات کیے جائیں گے جبکہ اسٹیڈیم کے اطراف کسی قسم کی پارکنگ نہ رکھنے کی تجویززیرغورہے جبکہ اس سلسلے میں شٹل سروس بھی چلائی جاسکتی ہے۔

پاکستان سپرلیگ کا تیسرا ایڈیشن 22 فروری سے شروع ہوگا اور فیصلہ کن معرکہ 25 مارچ کو کراچی میں منعقد کرانے کا منصوبہ ہے، ابتدائی دو ایڈیشنز کے برعکس اس بار ایونٹ میں ملتان سلطانز کا ایک اچھا اضافہ بھی کیاگیا ہے، اس ٹیم کے آنے کے بعد ایونٹ میں شریک ٹیموں کی تعداد بڑھ کر 6 ہوگئی ہے۔ افتتاحی میچ دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں دفاعی چیمپئن پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کے درمیان ہوگا، ایونٹ میں اسلام آباد یونائیٹڈ، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز، کراچی کنگز اور لاہور قلندرز بھی ایکشن میں دکھائی دیں گی، دو پلے آف میچز لاہور میں بھی منعقد کرانے کا پروگرام طے کیاگیا ہے۔ اس وقت پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن کی تیاریاں عروج پر پہنچ چکی ہیں،اس بار ایونٹ طویل ہونے کے ساتھ ساتھ شائقین ِ کرکٹ کی خوشیوں میں مزید اضافہ کا باعث بھی ہوگا۔ پی ایس ایل تھری کی دبئی میں ہونے والی افتتاحی تقریب کو رنگارنگ بنانے کے لیے امریکی پاپ سنگر جیسن ڈرولو، پاکستان گلوکارہ عابدہ پروین،علی ظفر اور شہزاد رائے بھی آواز کا جادو جگائیں گے،آتش بازی بھی شائقین کی توجہ حاصل کرے گی،اسی روز ایونٹ کا پہلا میچ پشاور زلمی اور ملتان سلطانز کے مابین ہوگا،ایونٹ میں مجموعی طور پر34 میچ کھیلے جائیں گے،بیٹ اور بال کی جنگ میں باجے گاجے اور ہلہ گلہ کا بھی خوب انتظام ہوگا۔پاکستانی کرکٹ شائقین کے لیے دلچسپی اور خوشی کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پی ایس ایل کے میچوں میں سے 3 میچ پاکستان میں بھی ہوں گے،اس خوشی کا اہم ترین پہلو کراچی میں فائنل کا انعقاد ہے،پلے آف میچز کا میزبان لاہور اس سے قبل دوسرے ایڈیشن کے فائنل،ورلڈ الیون کے خلاف سیریز اور پھر سری لنکا کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی میچ کے دوران سکیورٹی اور دیگر انتظامات کے امتحان میں سرخرو ہوچکا لیکن کراچی کا یہ پہلا اور ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ گرچہ ماضی میں پاکستانی سرزمیں پر میچز کے کامیاب انعقاد نے سکیورٹی اداروں کے اعتماد اور عزم میں بھی اضافہ کیا ہے لیکن کراچی میں فائنل کا انعقاد یہاں کے پیچیدہ سیاسی حالات کی وجہ سے ایک نیا چیلنج ہے جس کے لیے نئے سرے سے تیاری اور ذمہ داری کی ضرورت ہوگی۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے بھی اس کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ایک عرصہ سے انٹرنیشنل کرکٹرز کو اپنی نظروں کے سامنے نہ دیکھ پانے والے کراچی کے شائقین 25مارچ کو شیڈول فائنل کے انعقاد کے لیے بیتاب ہیں لیکن حکومت اور سندھ کے سکیورٹی اداروں کے لیے شہر میں اس نوعیت کا میگا ایونٹ کروانے کا پہلا تجربہ ہے، لاہور کی طرح شہر قائد میں بھی اگر سندھ حکومت، پاک فوج، رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے یکجان ہوکر پلاننگ اور کام کریں گے تو جیت پاکستان میں کرکٹ کی ہوگی۔کراچی میں پی ایس ایل کا فائنل سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ پی سی بی کے لیے بھی ایک بڑا اور مشکل چیلنج ہے کیونکہ اس بار میچز زیادہ اور 3کے بجائے 4شہروں میں ہیں، میچز ایک یا دو وینیوز پر ہوں تو کافی آسانی رہتی ہے، اخراجات بھی کم ہوتے ہیں اور سیکورٹی انتظامات کوحتمی صورت دینا بھی سہل ہوتا ہے۔ دبئی اور شارجہ کے بعد لاہور اور پھر کراچی تک انتظامی امور کی نگرانی ایک مشکل مہم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

پاکستان میں کھیلے جانے والے تینوں میچز کے مقاصد بہتر انداز میں تبھی پورے ہوں گے کہ لاہور اور کراچی میں کھیلنے والی ٹیموں میں دنیا بھر کے تمام سٹارکرکٹرز بھی شامل ہوں، ہم نے دیکھا تھا کہ گزشتہ پی ایس ایل کے فائنل میں اچانک اہم کھلاڑیوں کے پاکستان آنے سے انکار کی وجہ سے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم کمزور پڑ گئی تھی جس کی وجہ سے شائقین ِ کرکٹ کو فائنل میں توقع کے مطابق دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو نہیں مل سکا۔لیکن اس بار پاکستان کرکٹ بورڈکی انتظامیہ،پاکستانی کرکٹرز اور فرنچائز مالکان پر بطور خاص یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھر پور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کھلاڑی پاکستانی میدانوں میں اپنے کھیل کے جوہر دکھانے کے لیئے آسکیں تاکہ ہمیں اپنے ملک کا مثبت چہرہ دنیا بھر کو دکھانے کا ایک شاندار موقع میسر آسکے۔اس لیئے ہر صورت غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاہور اور کراچی میں کھیلنے کے لیے قائل کیا جائے چاہے اس کے لیئے کیسی ہی قیمت اُن کو ادا کیوں نہ کرنی پڑے۔گو کہ چند فرنچائزز کے مالکان نے دعویٰ بھی کیا ہے کہ ان کی ٹیم میں شامل بیشتر غیر ملکی کھلاڑی پاکستان آنے کو تیار ہیں لیکن پاکستان میں کرکٹ کی مکمل بحالی کے لیئے اس دعوی کو حقیقت میں بدلنے کی سخت ضرورت ہے۔لاہور میں کئی ایک کامیاب ایونٹس کے انعقاد کے بعد شاید غیر ملکی کھلاڑیوں کو لاہور میں کھیلنے کے لیئے قائل کرنا آسان ہوگا لیکن کراچی میں چونکہ ایک عرصہ بعد اتنے بڑے فائنل میچ کے انعقاد کا پہلا تجربہ ہورہا ہے،اس لئے غیر ملکی کھلاڑیوں کے مطمئن کرکے لیئے سندھ حکومت کو بہت زیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوگی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت میں 01 مارچ 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں