PPP in Sindh

پیپلزپارٹی کی اندرونی کشیدگی کیا رنگ لائے گی؟

پیپلزپارٹی کی شدیدخواہش ہے کہ کسی طرح پانامہ ہنگامہ کے بعد والے اثرات صرف مسلم لیگ(ن) کی قیادت تک ہی محدود رہیں اورپی پی کی اعلیٰ قیادت تک نہ پہنچ سکیں اس کے لیے وہ ہر اقدام اُٹھانے کو تیار نظر آرہی ہے،لیکن درست قدم کونسا اُٹھایا جائے یہ کسی کو سمجھ نہیں آرہا۔پریشانی کا یہ عالم ہے کہ نیب کے قانون کے خاتمہ کے بعد اب پی پی کے رہنما نجی محفلوں میں سندھ میں رینجر کے قیام کے حوالے سے نئی قانون سازی کر نے پر بھی سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں حالانکہ ان کے اکثر رہنما اس کام کو آسان خیال نہیں کرتے مگر پھر بھی اُن کا اصرار ہے کہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح اس سیاسی کوہ ِہمالیہ کو بھی سر کر لیں توشاید اُن کے سیاسی مستقبل پر چھائے ہوئے خوف کے بھیانک سائے ختم ہوجائیں۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: کیا جی ڈی اے پیپلزپارٹی کے لیئے بڑا چیلنج ہے؟

پیپلزپارٹی کی قیادت سندھ میں اپنے سیاسی قلعے کومضبوط بنانے کے باوجود بھی نادیدہ قوتوں سے شدید خوفزدہ دکھائی دیتی ہے جبکہ نادیدہ قوتیں بھی غیر محسوس انداز میں پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک کے لیئے اندرونِ خانہ سرگرم دکھائی دے رہی ہیں۔شریف خاندان جیسے عبرت ناک انجام سے بچنے کے لیئے پیپلزپارٹی کی قیادت باربار ”مفاہمت“ کا اعلان کر رہی ہے مگر دوسری طرف سے کوئی حوصلہ افزاء جواب موصول نہیں ہورہا جس پر پیپلزپارٹی کی قیادت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید عدم تحفظ کا شکار ہوتی جارہی ہے۔دوسری طرف پی پی کی کچھ اندرونِ خانہ غیر مقبول پالیسوں کی وجہ سے بھی سندھ کے کئی بااثر خاندان پیپلزپارٹی سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں جس کے اشارے اب نجی محفلوں سے عوامی اجتماعات یا اجلاسوں میں بھی نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ بظاہر سندھ میں سجاول سے لے تھرپارکر تک پیرپگارا،شیرازی یا ارباب خاندان کے سوا کوئی خاندان ایسا نہیں بچا ہے جس نے اس وقت سیاسی میدان میں سابق صدر آصف علی زرداری کی اطاعت قبول نہ کر لی ہو اس کے باوجود بھی ایک انجانا سا سیاسی عدم تحفظ کا خوف ہے جو پی پی کے ہر رہنما کے چہرے اور گفتگو سے اظہر من الشمس ہے۔

اس خوف کے دو بنیادی سبب ہیں پہلا سبب یہ ہی ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے واضح اشارے مل رہے ہیں کہ اب معاملہ شریف خاندان یا اُس کی جماعت کے بعد مزید آگے بھی چلے گا بلکہ اب نیا نعرہ ”احتساب کی اگلی باری ایک بار پھر زردار ی“ہے اورسیاسی پنڈتوں کی طرف سے اس بارنواز شریف کے انجام کے بعد احتساب کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا جار ہا ہے کہ اُسے دیکھ کر جیالوں کا دل دہل جاتا ہے اور دوسرا سبب پیپلزپارٹی کے اندرونی اختلافات ہیں ذرائع کا دعوی ہے کہ پیپلزپارٹی کے بے شمار رہنما اور اہم ترین سیاسی خاندان پارٹی قیادت سے سخت ناراض ہیں۔ پہلے یہ ناراضگیاں بند کمروں تک یا صرف میڈیا تک محدود ہوتی تھیں لیکن اب یہ سڑکوں تک آگئی ہیں۔جس کی تازہ مثال رکن قومی اسمبلی ملک اسد سکندر اور آصف علی زرداری کے درمیان حالیہ کشیدگی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔پی پی کے بعض رہنماؤں کی طرف سے صلح کی تمام سر توڑ کوششوں کے باوجود بھی یہ کشیدگی اس وقت اپنی اخری حدوں کو چھو رہی ہے۔پیپلزپارٹی مخالف قوتیں اس سیاسی حادثہ سے بہت خوش ہیں اُن کا خیال ہے کہ اگر یہ اختلافات کچھ ہفتے اگر مزید طول پکڑ جائیں تو پھر اس واقعہ کو بنیاد بنا کر اندرون سندھ میں پیپلزپارٹی کے ووٹر وں کو پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت سے بد ظن کرنا سہل ہوجائے گا۔

پی پی مخالف قوتوں کے عزائم اپنی جگہ لیکن شاید پی پی کی اعلیٰ قیادت بھی اس مسئلے کی سنگینی کا درست ادراک نہیں کر پارہی،اطلاعات ہیں کہ اب پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے فیصلہ کیا ہے ملک اسد سکندر کو سبق سکھانے کے لیئے ملک چنگیز خان کو استعمال کیا جائے۔ملک چنگیز خان ملک اسد سکندر کا سخت سیاسی حریف اور علاقہ کی بااثر شخصیت ہونے کے ساتھ اس کی اصل شہرت یہ ہے کہ یہ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ عذرا افضل پیچوہو پر حملہ کیس کا مرکزی ملزم ہے۔اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ ملک چنگیز خان اور پی پی کی مرکزی رہنما فریال تالپور کے درمیان رابطہ ہوا ہے جس میں تمام امور خوش اسلوبی سے طے بھی پاگئے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ملک چنگیز خان کی باقاعدہ شمولیت کے اعلان سے پہلے ہی اُس کی خواہش پر ضلع بھر میں اس کے حسب منشاء افسران کے تبادلے اور تقرریاں کی جارہی ہیں اور انتظامیہ کو واضح احکامات دیئے جار ہے ہیں کہ وہ آئندہ سے صرف اور صرف ملک چنگیز خان کی ہدایات پر ہی عمل کریں۔ملک چنگیز خان جو کل تک پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کاسیاسی حریف تصور کیا جاتا تھا آج ملک اسد سکندر کے خلاف لڑنے والے سیاسی دستے کا نیا سپہ سالار بننے جارہا ہے۔اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اندرون خانہ اختلافات کی وجہ سے اندرون ِ سندھ میں پیپلزپارٹی کے لیئے آئندہ سیاسی حالات کتنے بد سے بدتر ہونے جا رہے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 3 اگست 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں