Whisky Bottle

شراب کی بوتل یا پھر۔۔۔۔

استاد نے شاگرد سے کہا اندر کمرے سے بوتل اٹھا کے لاؤ، شاگرد کو اپنے بھینگے پن کی وجہ سے کمرے کے اندر دو بوتلیں نظر آئیں، استاد نے کہا، ارے وہ ایک ہی ہے تم اٹھا کے جلد ی سے لے آؤ بس، شاگرد پھر خالی ہاتھ واپس آیا اور جھنجھلایا ہوا بھی تھا کیونکہ وہ اپنے بھینگے پن کی وجہ سے ایک بوتل کو ہر بار دو ہی دیکھ رہا تھا۔ استاد نے کہا اچھا بیٹا تو جیت گیا میں ہار گیا، اب ایسا کرو ان دو میں سے ایک بوتل کو توڑ دو جو باقی بچے وہ لے آنا، شاگرد نے جب ایک بوتل توڑ دی تو دوسری خودبخود غائب ہوگئی یعنی اُستاد،شاگرد دونوں کی ٹینشن دور ہوگئی اور کہانی بھی اپنے منطقی اختتام کو پہنچی لیکن یہ کہانی ذرا پرانے وقتوں کی تھی لہذا اُستاد، شاگرد بھی پرانے خیالات کے ہی تھے، اس لیئے انہوں نے صرف ایک بوتل کے معاملے کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھا اور بوتل کا قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے پاک کردیا۔ مگر ہمارے پیارے شرجیل میمن صاحب نہ تو پرانے خیالات کے ہیں اور نہ ہی پرانے زمانے کے وہ تو الا ماشاء اللہ 2018 ء کی بالکل نئی نکور سیاست کے پروردہ ہیں۔جب ہی تو وہ حکام ِ بالا کو کبھی شراب کی بوتل کہ یہ کہہ کر پیش کردیتے ہیں کہ ہے تو یہ شراب کی بوتل مگر میری نہیں ہے اور کبھی شراب کو بوتل کے بجائے شہد کی بوتل حاضر خدمت کردیتے ہیں کہ شاید شہد دیکھ کر حکام ِ بالا کو ان کی بیمار سی صورت پر کچھ میٹھا سا رحم آجائے۔اب آپ خود فیصلہ کریں کیا کسی کو آج تک کسی کی بیمار صورت پر رحم آیا ہے۔بیمارصورت پر تو ہمارے دردِ دل رکھنے والے ڈاکٹر حضرات بھی رحم نہیں کھاتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے رحم کھانا شروع کردیا تو اُن کے گھر والے کیا کھائیں گے۔ قصہ کوتاہ، بوتل کے حالیہ معاملہ میں تنا ا قصور بیچارے شرجیل میمن کا نہیں ہے جتنا اُن کے”سیاسی شاگرد ں“کا ہے اگر اُن کے شاگردوں میں ذراسی بھی عقل ہوتی تو شرجیل میمن کو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ شرجیل میمن کے شاگر د وں کو کرنا بھی کیا تھا بس شراب کی بوتل کو توڑنا ہی تو تھا، مگر یہ کیا کہ وہ کبھی شراب کی بوتل میں شہد بھر کے لے آتے ہیں اور کبھی تیل۔اب کوئی اِن بے وقوفوں سے دریافت کرے کہ بھائی اگر آپ لوگ اپنے گھر میں شراب کی بوتل میں شہد اور تیل رکھتے ہوتو پھر یہ تو بتاؤ کہ تیل اور شہد کی بوتل میں کیا چیز رکھتے ہو؟اگر صرف اتنا بھی بتادیا جائے تو مجھے یقین ہے کہ شرجیل میمن کی گلو خلاصی ہوسکتی ہے۔سادہ سی بات ہے کہ اگر شراب کی بوتل میں سے نکلنے والی چیز شہد کی بوتل میں سے برآمد ہوجائے تو ڈھونڈنے والوں کو اپنی مطلوبہ چیز مل جائے گی اور شرجیل میمن کے کمرے سے مبینہ طور پر ملنے والی شراب کی بوتل کے شہد کو خالص شہد سمجھ کر قبولیت کی سند فراہم کر دی جائے گی لیکن اگر شرجیل میمن کے شاگردوں نے شراب کو شہد میں بدلنے کے ”سائنسی تجربے“ کرنا نہ چھوڑے تو شراب کی بوتل سے کسی جن کے نکلنے کے امکان کو بھی خارج از امکان نہیں قرار دیا جاسکتا اور ”بوتل کا جن“ بوتل سے باہر آنے کے بعد کیا کیا حکم چلاتا ہے اس کا اندازہ تو آپ کو حال ہی میں ریلیز ہونے والی بلاک باسٹر پاکستانی فلم ”سات دن محبت ان“ کو دیکھ کر ہو ہی گیا ہوگا۔ویسے راز کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی حلقوں میں ’’شراب کی بوتل میں شہد اِن“ نامی فلم بھی کچھ کم ہٹ نہیں ہوئی ہے وہ تو بس کسی شیطان کا کرنا ایسا ہوا کہ ”شراب کی بوتل میں شہد اِن“ نامی فلم کو کسی عاصم نام کے اپنے ہی کی نظر لگ گئی اور مخبری ہونے کی وجہ سے فلم کا پرڈیوسر اپنی پوری کاسٹ سمیت عین بیچ چوراہے میں پکڑا گیا۔ اس ساری صورتحال پر سیاسی ڈرامے و فلمیں بنانے والے اکثر ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ ”اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے،بہت کچھ سنوارا جاسکتاہے لیکن سب کچھ سنورانے کے لیئے پہلے اپنی کچھ غلطیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ آئندہ ایسی سیاسی فلمیں ریلیزنہیں کی جائیں گی جس میں کسی ہسپتال میں ”سب جیل“ کا سیٹ لگانا پڑے کیونکہ ہسپتال مریضوں کی ہی راس آتے ہیں جبکہ صحت مند افراد اگر ہسپتال میں طویل عرصہ تک رہائش اختیار کرلیں تو اُنہیں عجیب و غریب قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔اِن لاحق ہونے والی بیماریوں کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اِن کا علاج ہسپتال میں نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے مریض کو فوری طور پر ”جیل“ منتقل کرنا پڑتا ہے“۔ماہرین کی آراء کے عین مطابق شرجیل میمن صاحب کو بھی دوبارہ سے جیل منتقل کردیا گیا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اُ ن کی جسمانی صحت پہلے سے کافی بہتر ہے مگر شراب اور شہد کی بوتل کا معاملہ اُن کی ذہنی صحت کے لیئے ابھی بھی وبال جاں بنا ہوا ہے۔اس لیئے شرجیل میمن صاحب سے گذارش ہے کہ جلد ازجلدآپ شراب اور شہد کی دو بوتلوں میں سے کسی ایک بوتل کو اپنے ہاتھوں سے توڑ دیں،جیسے ہی ایک بوتل ٹوٹے گی تو دوسری بوتل خودبخود ٹوٹ جائے گی، لیکن اگر ایک بھی بوتل بچاؤ گے تو دوسری خودبخود سلامت رہے گی اورصرف آپ کے ہی نہیں بلکہ پوری پاکستان پیپلزپارٹی کے سینے پر مونگ بھی دلتی رہے گی، توڑیئے کونسی بوتل توڑتے ہیں؟شراب کی بوتل یا پھر۔۔۔۔۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 13 ستمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں