Education System in Sindh

تعلیمی نظام کی ازسرِ نو بحالی اور سندھ حکومت

سندھ کا تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے جس زبوں حالی کا شکار رہا ہے اُس کا تذکرہ اکثر و بیشتر ہم ان صفحات پر کرتے رہے ہیں۔جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ سندھ حکومت کے اربابِ اختیار سندھ کے تیزی کے ساتھ زوال پذیر ہوتے ہوئے تعلیمی نظام کی طرف اپنی توجہ مبذول کریں تاکہ اس میں بہتری کی کچھ گنجائش پیدا ہوسکے۔صد شکر کہ ندائے ملت کی ”ندا“ بروقت سندھ حکومت کے ایوانوں تک جاپہنچی، ہمارا کہا سنا کچھ کام آگیا اور یوں بالآخر سندھ حکومت نے سندھ کی تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیئے زبانی کلامی بلند بانگ دعووں کے بجائے عملی اقدامات کا آغاز کردیا۔ جس سے اُمید ہوچلی ہے کہ اگر وزیرِ اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سندھ کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں اسی چابکدستی و سرعت سے کام کرتے رہے، تو بہت جلد سندھ کے مردہ نظام ِ تعلیم میں زندگی کی نئی رمق پیدا ہوجائیگی۔جس طرح سندھ میں ہونے والی ہر حکومتی کوتاہی کا براہِ راست ذمہ دار وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی کو قرار دیا جاتا ہے بالکل اسی طرح تعلیمی نظام کی بہتری کے لیئے کیئے جانے والے مستحسن اقدامات پر تمام تر ستائش کا مستحق بلاشبہ سید مراد علی شاہ کے علاوہ کسی اور کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حالیہ چند دنوں میں سندھ حکومت کی طرف سے سندھ کے تعلیمی نظام میں بہتری کے لیئے جن انقلابی اقدامات کا آغاز کیا گیا ہے اُ ن میں سے پہلا انتہائی اہم ترین قدم یہ ہے کہ آئندہ سے سندھ کے تعلیمی امتحانات میں صرف پوزیشن ہولڈرز ہی نہیں بلکہ وہ تمام طالب علم جو بھی اے ون گریڈ حاصل کریں گے انہیں سندھ حکومت کی طرف سے حوصلہ افزائی کی غرض سے نقدرقم بطور انعام دی جائے گی۔سندھ میں 2017ء میں 6 تعلیمی بورڈز کے انٹر اور میٹرک کے 36 ہزار 157 طلبہ نے اے ون گریڈ حاصل کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ صوبائی حکومت نے ان اے ون گریڈ اور پوزیشن ہولڈر طلبہ کی حوصلہ افزائی کیلئے انہیں مالی انعام دینے کی خاطر مجموعی طور پر 94 کروڑ 8 لاکھ روپے کی رقم مختص کی ہے۔ سب سے زیادہ اے ون گریڈ میٹرک بورڈ کراچی کے طلبہ نے حاصل کیے جن کی تعداد 19 ہزار 654 ہے۔ انٹر بورڈ کراچی کے 2 ہزار 456 طلبہ نے اے ون گریڈ حاصل کیا۔ حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے 3 ہزار 514 طلبہ نے اے ون گریڈ میں کامیابی حاصل کی۔ سکھر بورڈز کے 3 ہزار 711 طلبہ اے ون گریڈ لائے۔ میرپورخاص تعلیمی بورڈ کے 2 ہزار 740 طلبہ نے اے ون گریڈ حاصل کیا جبکہ لاڑکانہ کے 4 ہزار 203 طلبہ نے اے ون گریڈ میں کامیابی حاصل کی۔ تمام بورڈز کے پوزیشن ہولڈرز کی مجموعی تعداد 121 ہے۔ پوزیشن ہولڈر میں پہلی پوزیشن لانے والے طلبہ کی تعداد 38 ہے جنہیں حکومت کی جانب سے 3 لاکھ روپے فی کس ملیں گے اور ان کی مجموعی رقم ایک کروڑ 14 لاکھ روپے ہوگی۔ سیکنڈ پوزیشن ہولڈرز کی تعداد 40 ہے جنہیں فی کس دو لاکھ روپے ملیں گے اور مجموعی رقم 80 لاکھ روپے ہوگی، تھرڈ پوزیشن ہولڈرز کی تعداد 43 ہے جنہیں ایک لاکھ روپے فی کس ملیں گے یعنی انہیں مجموعی طور پر 43 لاکھ روپے ملیں گے۔ اے ون گریڈ لانے والوں طلباء و طالبات کو 25 ہزار روپے فی کس ملیں گے اور مجموعی رقم 92 کروڑ 70 لاکھ روپے ہوگی۔ پوزیشن ہولڈرز کو رقم کے چیک دینے کی تقریب وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہوگی جبکہ اے ون گریڈ کو متعلقہ بورڈز میں 25 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ طلباء و طالبات کی اتنی بڑی تعداد کو انعامی رقم بطور حوصلہ افزائی دینے کا اہتمام سندھ کی تعلیمی تاریخ میں پہلی بار کیا جارہا ہے۔ جس سے بلاشبہ طلباء و طالبات میں تعلیمی مسابقت کا ایک نیا جذبہ متعارف ہوگا جو اُن کی تعلیمی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ کا باعث بنے گا۔ اس کے علاوہ جو دوسرا انقلابی قدم سندھ کے تعلیمی نظام کی بہتری کے لیئے ہنگامی بنیادوں پر اُٹھایا گیا ہے اُس کے تحت وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ ایجوکیشن فاونڈیشن کا اینڈرائیڈ بیسڈ ای لرننگ سافٹ ویئر انٹرو ڈیواسنگ اسمارٹ ٹیچنگ اینڈ لرننگ کا آغاز کر دیاہے جس میں اسکول کی سطح پر ایس ای ایف کے تعاون سے 700 سرکاری اسکولوں میں 21 ہزار ٹیبلیٹ سافٹ ویئر کے ساتھ فراہم کیے جائیں گے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ فاؤنڈیشن کے پاس صوبے بھر میں معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے کم از کم 1000 پوسٹ پرائمری اسکول ہونگے اور خاص طور پر آئندہ چند سالوں میں صوبے کے پسماندہ علاقوں میں پوسٹ پرائمری اسکول کے ذریعے معیاری تعلیم فراہم کی جائے گی۔ حکومت سندھ ٹھٹھہ، بدین، جامشورو، سجاول اور دادو کے بند اسکولوں کو سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو دے رہی ہے تاکہ انھیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت انہیں فعال بنایا جاسکے۔اس کے علاوہ اس پروگرام کے تحت نئے اساتذہ کو پانچ سال کی ٹریننگ دی بھی دی جائے گی اور اس تڑیننگ اور تربیت کے بعد اساتذہ کے ٹیسٹ لیے جائیں گے، جو ٹیسٹ پاس کریں گے ترقی بھی انہی کی ہوگی۔جس سے گھوسٹ اساتذہ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
اس کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے فوری طور پر محکمہ تعلیم کو این ٹی ایس پاس کرنے والے 21 ہزار اساتذہ کو مستقل کرنے اور 1992 میں تعینات ہونے والے اساتذہ کو ترقی دینے کا حکم بھی دیدیا۔واضح رہے کہ عرصہ دراز سے خواتین اور مرد اساتذہ کی بڑی تعداد ملازمت مستقل کرنے کے مطالبے کے حق میں احتجاج کررہی تھی اور اس حوالے سے گزشتہ دنوں اُن کی طرف سے دھرنا بھی دیا گیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے درجنوں اساتذہ کو گرفتار کرلیا تھا۔جس پر پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری نے اساتذہ کی گرفتاری کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی وزیرداخلہ سہیل انور سیال کو ان کی جلد رہائی کی ہدایت کے ساتھ ساتھ 1992 میں گریڈ 17 پر تعینات ہونے والے 12 ہزار اساتذہ کو ترقی نہ دینے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سیکریٹری تعلیم اور سیکریٹری خزانہ کو 24 گھنٹے کے اندر معاملے کو حل کرنے کا حکم دیا۔اساتذہ کو مستقل کرنے کا تنازعہ 25 سالوں سے التوا ء کا شکار تھا اس کے خوش اسلوبی سے حل ہونے کے بعد ایک طویل مدت کے بعد سندھ کے اساتذہ کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا ہے۔اب یہ اساتذہ آئے دن کے احتجاجی مظاہروں کا ایندھن بننے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ طالب علموں کو علم کی روشنی فراہم کرنے میں لگائیں گے۔
ان تاریخ ساز اقدامات کے علاوہ ایک اور اقدام جس کا تذکرہ کرناانتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ حکومت سندھ نے غیر ملکی امدادی اداروں کی مدد سے ایک بار پھر تعلیم بالغاں پروگرام باقاعدہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس منصوبے کے لیے جاپان انٹرنیشنل کارپوریشن ایجنسی، یو ایس ایڈ اور یونیسف فنڈ فراہم کرے گی، تعلیم بالغاں پروگرام کے تحت سندھ کے 5اضلاع حیدرآباد، میر پور خاص، ٹنڈو الہ یار، جام شورو، ٹھٹھہ میں 300 سینٹرکھولے جائیں گے جن کے لیے ابتدائی طور پر 300 اساتذہ تعینات ہوں گے۔تعلیم بالغاں پروگرام کا دورانیہ 6 ماہ پر مشتمل ہوگا لیکن وہ لوگ جو اپنی تعلیم مزید جاری رکھنا چاہیں وہ نان فارمل ایجوکیشن پروگرام کے تحت ڈھائی سے 3 سال کے عرصے میں پانچویں جماعت کے برابر تعلیم حاصل کرکے ایلی مینٹری اور دیگر اسکولوں میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔گو کہ اس سے پہلے بھی سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں تعلیم بالغاں پروگرام شروع کیا گیا تھا جو مختلف مراحل میں چلتا رہا اور مستقل طور پر فنڈز نہ ملنے اور نصاب، پالیسی، سینٹرز، اساتذہ بھرتی کرنے کا طریقہ کار، پروگرام کے دورانیہ اور پڑھائے جانے والے مضامین سمیت ہر چیز مبہم اور غیر واضح ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ ماضی کے تعلیم بالغاں پروگرام کے برعکس اب کی بار سندھ حکومت کی طرف سے تعلیم بالغاں پروگرام کے لیے نہ صرف باقاعدہ ایک مستند نظام ترتیب دیا گیا ہے بلکہ اس پروگرام کے تحت صرف حکومت سے منظور شدہ نصاب ہی پڑھایا جائے گا۔ اس پروگرام میں داخلہ لینے والے مرد و خواتین کوابتدائی طور پر نہ صرف لکھنے پڑھنے اور بنیادی ہندسوں کی پہچان سکھائی جائے گی بلکہ خواتین کو گھریلو زندگی کو چلانے کے لیے حساب کتاب اور بجٹ بنانا سکھانا بھی اس غیر رسمی تعلیمی پروگرام کا حصہ ہوگا۔ اس کے علاوہ اس پروگرام میں اندراج شدہ لوگوں کو ہاتھ دھونا، صحت صفائی، گھریلو زندگی کی خوشحالی، بڑوں کے ساتھ بات کرنا اور چھوٹوں کے سات برتاؤ کے علاہ سلائی کڑھائی، بیوٹیشن کورسز، پلمبر کے کورسز بھی سکھائے جائیں گے۔اُمید کی جاسکتی ہے کہ سندھ حکومت آئندہ بھی سندھ کے تعلیمی نظام کی بہتری و ترقی کے لیئے مزید ضروری اور مؤثر اقدامات کرنے میں پس وپیش سے کام نہیں لے گی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 18 جنوری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں