Politics-in-Pakistan-after-coronavirus

کورونا کا پھیلاؤ اور دباؤ کی سیاست

دباؤ میں کیا گیا فیصلہ کبھی بھی اپنی مرضی سے کیئے گئے فیصلہ کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتا۔یہ اُصول انفرادی زندگی پر بھی لاگو ہوتا ہے اورکسی قوم کی اجتماعی زندگی پر بھی۔ذہن نشین رہے کہ دباؤ میں کیئے گئے فیصلے جہاں انفرادی زندگی میں کسی شخص کی کمزور نفسیات کی چغلی کھاتے ہیں تو دوسری جانب اگر ایسے ہی کمزور فیصلے معروضی حالات کے جبر سے مجبور ہوکر حکومت ِ وقت کرنا شروع کردے تویہ اِس بات کی واضح دلیل ہے برسرِ اقتدار افراد کس درجہ ذہنی افلاس و بدحالی کا شکارہیں۔ سندھ میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا فیصلہ بھی سندھ حکومت کا ایک ایسا ہی کمزور ترین فیصلہ قرار دیا جاسکتاہے جو معاشرے کے مختلف طبقات کے دباؤ میں آکر کیا گیاہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سندھ میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ ایک یا دو ہفتہ قبل،اُس وقت ہی لے لیا جاتاکہ جب سندھ کے تمام سماجی، تجارتی و مذہبی حلقوں سمیت وفاقِ پاکستان بھی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے دست بدست عرض گذاشت کررہے تھے کہ ”خدارا! لاک ڈاؤن میں تھوڑی سی ”انتظامی نرمی“ دکھادی جائے“۔تو اُس مشکل وقت میں تو سوال نما عرضی کے جواب میں وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے ہر بار ہی ”حرفِ انکار“ کا راگ سُنا تے ہوئے تاکید و تنبیہ فرمادی جاتی تھی کہ ”جب تک سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے کسی بھی صورت لاک ڈاؤن میں نرمی نہیں کی جائے گی“۔ مگر شومئی قسمت کے جیسے ہی وفاقِ پاکستان نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا اعلان کیا اور سندھ کی تمام تاجر تنظیموں نے وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی اقتدامیں سندھ بھر میں اپنے تمام تجارتی مراکز کھولنے کا اعلان کردیا۔اُس کے بعد تو گویاسندھ میں لاک ڈاؤن کے ”انتظامی پتلے“ سے روح ہی نکل گئی۔ یعنی بالآخرسندھ حکومت نے بھی صوبے میں لاک ڈاؤن نرم کرنے کا اعلان کرکے حاتم طائی کی قبر پر لات ہی مارڈالی، حالانکہ سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بدستور اضافہ جاری ہے لیکن اِس کے باوجود وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنی دیرینہ سیاسی خواہش کے برخلاف لاک ڈاؤن کی سختیوں میں مزید اضافہ نہ فرمانے پر مجبور ہو ہی گئے ہیں تو بقول علامہ اقبال۔یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیئے۔

اَب دیکھنایہ ہے کہ سندھ کی غریب عوام کی یہ خوشی مزید کتنے روز تک زندہ و پائندہ رہ پاتی ہے۔ کیونکہ دباؤ میں کیئے گئے فیصلے،دباؤ ختم ہونے کے فوراً بعد یکسر تبدیل بھی کردیئے جاتے ہیں۔ ویسے بھی سندھ میں لاک ڈاؤن میں کی گئی نرمی مختلف طرح کے عوامی و سیاسی دباؤ کے ساتھ براہِ راست منسلک ہے۔ خاص طور پر اٹھارویں ترمیم کے بعض نکات میں تغیر و تبدیلی کی اعلیٰ ادارہ جاتی خبروں نے سندھ حکومت اور پاکستان پیپلزپارٹی پر ایسا سخت ”سیاسی دباؤ“ ڈالا تھا کہ جس کے بار کی تاب نہ لاتے ہوئے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کورونا وائرس کے معاملے پر پہلی بار اپنے اُصولی موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے ”قومی ہم آہنگی“ قائم کرنے پر پورے خلوص دل کے ساتھ متفق ہوگئی ہے۔ گزشتہ دوماہ میں جب سے کورونا وائرس پاکستان میں وارد ہوا ہے، وفاقی حکومت کا یہ پہلا اقدام ہے،جس پر قومی اتفاقِ راہ کی فضا بنتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اِس سمت ایک اشارہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری اپنی تقریر کے دوران بھی یہ کہتے ہوئے دے گئے ہیں کہ ”ہم آپ کے ساتھ بیک ڈور بیٹھنے کو بھی تیار ہیں،آپ اپنی بیٹنگ لائن کو بھی تبدیل کریں،اِن لوگوں کوفرنٹ پر لائیں جو سمجھ دار اور تجربہ کار ہوں،جنہیں تمیز ہو“۔اگر بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو اپنے اِس بیان میں بلاول بھٹو زرداری وفاقی حکومت سمیت مقتدر حلقوں کو بہت کچھ بطور پیغام خاموشی کے ساتھ کہہ گئے ہیں۔ یاد رہے کہ بیک ڈور کے لفظ میں ملفوف یہ”سیاسی پیغام“ کورونا وائرس کے انسداد سے متعلق تو ہرگز نہیں ہوسکتاکیونکہ کورونا وائرس پر بیک ڈور بات چیت یا مذاکرت تو پاکستان پیپلزپارٹی کے لیئے کسی بھی طور سیاسی فائدہ کے باعث نہیں ہوسکتے۔البتہ! اٹھارویں ترمیم ضرور ایک ایسا معاملہ ہو سکتا ہے جسے ”بیک ڈور“ بات چیت میں کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے حل کیا جاسکتاہے۔



درحقیقت پاکستان کی ساری سیاست”سیاسی دباؤ“کے یک نکاتی اُصول کے تحت ہی چلتی آئی ہے،چلتی ہے اور شاید آئندہ بھی یوں ہی چلتی رہے گی۔ اَب جو سیاسی جماعت جتنا زیادہ ملکی سیاست کے اُفق پر سیاسی دباؤ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے وہ اُتنی ہی زیادہ تیزی کے ساتھ کامیابی کی منازل طے کرنے لگتی ہے۔قطع نظر اِس کے کہ اُس سیاسی جماعت کا تعلق اپوزیشن سے ہے یا حکومتی حلقوں سے۔یعنی اگر ایک اپوزیشن جماعت کے پاس ”سیاسی دباؤ“ وافر مقدار میں موجود ہے تو وہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بھی اٹھارویں ترمیم کو باآسانی متفقہ طوپر پارلیمان سے منظور کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن دوسری جانب اگر ایک حکومتی جماعت کے پاس ”سیاسی دباؤ“ کا قحط ہو تو وہ اپناجاری کردہ ایک چھوٹا سا آرڈیننس بھی پارلیمان کی سادہ اکثریت سے منظور کروانے کی قوت نہیں رکھتی۔چہ جائیکہ کورونا وائرس جیسی عالمگیر وبا کا سامنا ہو اور تحریک انصاف کی حکومت بغیر ”سیاسی دباؤ“ بنائے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اِس وبائی مرض کے خلاف ایک صفحہ پر یکجا کردے۔ایں خیال اَست و محال اَست و جنوں اَست۔ہمارا خیال ہے کہ ”سیاسی دباؤ“کی اہمیت و افادیت آہستہ آہستہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان پر منکشف ہونا شروع ہوگئی ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اَب انہوں نے بھی ”سیاسی دباؤ“ کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیاہے۔جس کے مثبت اثرات ابتدائی طور پر ملک گیر لاک ڈاؤن میں نرمی کی صورت میں برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ہماری دُعا ہے کہ یہ ”سیاسی دباؤ“ یوں ہی بنا رہے اور غریب کے گھر کا چولہا جلتارہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 مئی 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

کورونا کا پھیلاؤ اور دباؤ کی سیاست” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں