Bilawal-Bhutto-and-PTM

سیاسی وضاحت نامہ۔۔۔!

پاک و ہند کے معروف شاعر جناب بشیر بدر ؔ صاحب نے ایک بار غزل کے دو اشعار میں لفظ ”وضاحت“ کی ایسی بر محل، برجستہ اور شعری وضاحت فرمائی کی کہ اُن کے کہے گئے دو مصرعے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ضرب المثل بن گئے، یقینا آپ نے بھی یہ اشعار ضرور سُن رکھے ہوں گے،اگر نہیں سُنے تو کوئی بات نہیں،ہم وہ شہرہ آفاق اشعار ذیل میں درج کیئے دیتے ہیں کہ

خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطا وار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے



یہ اشعار اِس لیئے یاد نہیں آئے کہ زیرِ نظر تحریر میں ہمیں بھی کوئی صفائی یا وضاحت پیش کرنی ہے بلکہ اِن اشعار کی یاددہانی کا واحد سبب بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے پی ٹی ایم کے دفاع میں دی جانے والی وضاحت اور صفائی بنی ہے۔چند روز قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری نے شمالی وزیرستان میں پاکستان آرمی کی چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کی طرف سے کیئے جانے والے حملے کی وضاحت اور صفائی پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”میں نہیں سمجھتا کہ محسن داوڑ یا کسی بھی سیاسی جماعت کا کوئی منتخب نمائندہ پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ کر سکتا ہے“۔ معلوم نہیں کہ اِس بیان میں پنہاں ”غیر معمولی سادگی“ بلاول کے کسی مشیر باتدبیر کی مرہون ِ منت ہے یا پھر بلاول بھٹو زرداری کے اپنے ذہن رسا کا کرشمہ ہے۔بہر حال حقیقت یہ ہے کہ اِس بیان سے پاکستانی عوام کی اکثریت شدید مایوسی سے دوچار ہوئی ہے کیونکہ کم ازکم بلاول بھٹو زرداری سے ہر گز اِس بات کی اُمید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ایک قومی جماعت کے سربراہ ہوکر بھی پاک فوج کی چیک پوسٹ پر ہونے والے بہیمانہ حملہ کی مذمت کرنے کے بجائے حملہ کرنے والے شر پسندعناصر کا اپنے بیان سے ناکام دفاع کرنے کی کوشش کریں گے۔جبکہ اُن کا اپنے بیان میں پورے شد و مد کے ساتھ یہ تاثر دینا کہ سیاسی جماعت یا اُس کے نمائندے ریاستی اداروں کے خلاف کسی بھی صورت ہتھیار نہیں اُٹھاسکتے۔ در حقیقت پاکستان کی سیاسی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے کیونکہ ماضی گواہ ہے کہ ریاستِ پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان سیاسی جماعتوں کی لے پالک عسکری تنظیموں نے ہی پہنچایا ہے۔

پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سانحہ مشرقی پاکستان کی پشت پر بھی اُس وقت کی ایک بڑی سیاسی جماعت عوامی لیگ کے بغل بچہ عسکری تنظیم ”مکتی باہنی“ کا ہی ہاتھ تھا۔1960 کے اوائل میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ اوربھارتی خفیہ ایجنسی را کے درمیان رابطے قائم ہوچکے تھے۔ یہ رابطے 1967میں مشہور زمانہ”اگرتلہ سازش کیس“ کے دوران منظر عام پر آئے۔عوامی لیگ اور بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“نے مشترکہ طور پر 21 ستمبر 1968 کو”مکتی باہنی“کے نام سے ایک عسکری تنظیم بنائی۔جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی آڑ لے کر قدم قدم پر پاکستان کے ریاستی اداروں سے اُلجھے اور جب ریاستی ادارے اِس کے خلاف کچھ کرنے کا ارادہ کریں تو عوامی لیگ سیاست،جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے خوش کُن نعروں کا سہارا لے کر اِس کی حمایت میں کھل کر سامنے آجائے تاکہ عوامی لیگ کی سیاسی چھتر چھایہ تلے ”مکتی باہنی“ کو کھل کر اپنا مذموم کھیل کھیلنے کا موقع مل سکے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہوا بھی کچھ ایسا ہی یعنی پاکستان کے ریاستی ادارے جب تک عوامی لیگ اور”مکتی باہنی“ کے باہمی تال میل کی اصل تہہ تک پہنچتے اُس وقت تک ”مکتی باہنی“ اپنا کھیل ختم کرچکی تھی۔اس کے علاوہ کیا ایم کیوایم کے بارے میں بھی کسی کو رتی برابر شک ہے کہ اِس نے ریاستی اداروں کے خلاف اپنے منتخب اور غیر منتخب نمائندوں کو کس بے دردی سے استعمال کیا۔کیا ایم کیو ایم ایک سیاسی جماعت نہیں تھی مگر کیا کریں اپنے زمانے میں پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی و پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود قتل و غارت گردی وہ کونسی قسم ہے جو اِس جماعت نے سیاست کے مقدس پرچم تلے ایجاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔

اگر بقول بلاول بھٹو زرداری ایک سیاسی جماعت یا اُس کا منتخب نمائندہ ریاستی اداروں کے خلاف کھڑا نہیں ہوسکتا تو پھر آخر اُن کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کیوں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے خلا ف نصیر اللہ بابر کو آپریشن کلین اَپ کرنے کا اختیار دیا تھا۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ خود بلاول بھٹو زرداری اور اِن کی سندھ حکومت بھی آئے روز میڈیا پر آکر اِس بات کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی رہتی ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کے ساتھ مل کرایم کیو ایم کے پنجہ استبداد سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو نجات دلوائی۔جبکہ خوش اُمیدی ہے کہ بلاول بھٹو زردای یہ بات بھی اچھی طرح سے جانتے ہی ہوں گے کہ پیپلزاَمن کمیٹی اگر پیپلزپارٹی نے نہیں بنوائی تو پھر کس نے بنوائی ہوگی۔گو کہ پیپلزاَمن کمیٹی کی تشکیل کا واقعہ بلاول کی پاکستانی سیاست میں آمد سے پہلے کا ہے بہر حال پھر بھی اِس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ پیپلز اَمن کمیٹی اور اِس کے سربراہ عزیر بلوچ کو پاکستان کی کئی ایک بڑی سیاسی جماعتوں کی بھرپور معاونت حاصل تھی۔جبکہ عزیر بلوچ نے پیپلزاَمن کمیٹی کے سیاسی پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کے ساتھ مل کر پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف کیا کچھڑی پکارہا تھا،اُس کے لیئے عزیر بلوچ پر بننے والی کسی بھی جے آئی رپورٹ کے چند ابتدائی صفحات ہی پڑھ لینا سب کے لیئے کافی و شافی ہوں گے۔

اِن ایک دو مثالوں سے ہی ہمارے ذہین قارئین بخوبی جان گئے ہوں کہ پاکستان میں قدم قدم پر سیاست ہی کو بطور ہتھیار، ریاستِ پاکستان اور اُس کے تحفظ کے ضامن اداروں کے خلاف مسلسل استعمال کیا جاتا رہا ہے۔مگر اچھی چیز یہ ہے کہ عوامی لیگ اور مکتی باہنی سے ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھانے کے بعد ریاستِ پاکستان نے بہت کچھ ایسا سیکھ لیا ہے،جسے سیکھنے کے بعد اَب کسی ملک دشمن جماعت یا گروہ کے لیئے ممکن نہیں رہا کہ و ہ سیاست کا لبادہ اوڑھ کر پاکستان کی سالمیت پر ایک بار پھر سے کوئی کاری وارکر سکے۔مگر ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اَب ایم کیو ایم کے انجام سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت بھلے ہی ووٹ سیاسی جماعتوں کو دیتے ہوں لیکن جب بھی مشکل حالات یا فیصلہ کُن لمحات ہوں گے تو وہ ہمیشہ کھڑے پاکستانی افواج کے ساتھ ہی ہوں گے۔یعنی جب بھی کوئی جماعت پاک افواج کے خلاف جانے کی کوشش کرے گی،پھر یقینااُس جماعت کی قیادت 22 کروڑ آبادی والے ملک میں بالکل تنہا اور اکیلی کھڑی رہ جائے گی۔ اگر کسی سیاسی جماعت کے منتخب یا غیر منتخب رہنما کو میری اِس بات پر ذرہ برابر بھی شک ہو تو وہ اپنے آپ کو جب چاہے آزمائش میں ڈال سکتا ہے۔صلحائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیئے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 مئی 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں