saudi-arab-and-iran

سعودی عرب اور ایران کے درمیان امن مشن

کیا وزیراعظم پاکستان عمران خان ایران اور سعودی عرب کے مابین صلح کرواسکیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا فی الحال کوئی حتمی جواب تو نہیں دیا جاسکتا لیکن بہرحال ایک بات حتمی طور پرضرور کہی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے اپنے دیرینہ مخاصمت کے خاتمہ کے لیئے عمران خان کو بطور ثالث پورے خلوص دل کے ساتھ تسلیم کرلیا ہے۔ جس کے بے شمار شواہد منظر عام پر آچکے ہیں جبکہ مزید آنے والے ایام میں آجائیں گے۔ بلاشبہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورہ ایران و سعودی عرب بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جو لوگ بھی سعودی عرب اور ایران کے مابین برسوں پرانی سیاسی و مذہبی کشیدگی سے اچھی طرح باخبر ہیں یقینااُن سب کے لیئے یہ بہت بڑی مثبت خبر ہے۔ حالانکہ بہت سے ناعاقبت اندیش تجزیہ کاراِس اچھی خبر میں سے بھی شر کے بہت سے پہلو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں اورعمران خان کی اِس ثالثی کی کوشش کو اپنے رواں تبصروں اور کالموں میں پاکستان کے لیئے زہرِ قاتل ثابت کرنے میں اپنا تمام زورِ قلم صرف کر رہے ہیں۔ اِن کا بنیادی موقف یہ ہے کہ عمران خان کشمیر کا مسئلہ حل کرنے سے پہلے سعودی عرب اور ایران کا تنازعہ کیوں حل کرنے کے درپے ہیں؟۔ایسے خیالات رکھنے والوں سے تو بس اتنا ہی عرض کیا جاسکتا کہ کیا بہت ضرور ی ہے کہ اگر ایک مسئلہ حل نہ ہو رہاہو تو پھر جو مسئلہ حل ہوتا دکھائی دے رہا ہو،انسان اُسے بھی فقط اِس لیئے حل کرنے کی کوشش نہ کرے کہ جب تک پہلا مسئلہ حل نہیں ہوگا وہ کسی صورت دوسرے مسئلہ کو حل نہیں کرے گا۔نہ ایسی بے وقوفی کرنے کی گنجائش انفرادی زندگی میں ہوتی ہے اور نہ ہی ایسی جاہلانہ خطاؤں کی اجازت قومی معاملات میں دی جاسکتی ہے۔ اِس لیئے اگر وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان صلح کی کوششوں کو آغاز کرہی دیا تو یقینا ہمیں اِس کی ہر سطح پر حمایت کرنی چاہیئے۔

اگر نہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان کوئی ایسا سنجیدہ نوعت کا مسئلہ ہے بھی نہیں جو باہمی بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جا سکے۔ بس ضرورت تھی تو اِس اَمر کی کہ اِن دونوں ملکوں کو آپس میں مذاکرات کے لیئے کیسے آمادہ کیا جائے؟۔بے چارے پاکستان کی تو اِسی کوشش میں کئی دہائیاں بیت گئی لیکن دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیئے راضی نہ ہوسکے۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اسلام دشمن قوتوں نے دونوں ملکوں کی اِن ہی سیاسی رنجشوں کو اپنے حق میں اور خطے کے استحکام کو پارہ پارہ کرنے کے لیئے پوری طاقت سے استعمال کیا۔ اِن قوتوں نے اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلیئے ہمیشہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے لیئے کی جانے والی ہر کوشش اور ہر اقدام کو سبوتاژ کیا مگر آپس میں مذاکرات کرنے سے انکار کے فیصلے نے اپنی اپنی جگہ پر دونوں ملکوں کو ہی مفادات کو خطے میں زبردست اندازمیں کمزور کیا اور آج اِس کمزوری کے احساس نے ہی بالآخر دونوں ملکوں کو مذاکرت کی میز تک آنے پر مجبور کیا ہے۔ اِس تناظر میں وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بس اِتنا سا کام کرنا ہے کہ کسی طرح ایران اور سعودی عرب کی قیادت کو براہ راست باہمی بات چیت پر آمادہ کردیں۔ اگر عمران خان فقط یہ ہدف حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیجئے گا کہ پاکستان نے دو برادر اسلامی ملکوں کے درمیان صلح کے لیئے اپنی بنیادی ذمہ داری بہ احسن و خوبی پوری کردی۔ کیونکہ سعودی عرب کے پاس ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ایران کے پاس حسن روحانی کی شکل میں ایسی باصلاحیت اور قابل قیادت موجود ہے جو اپنے دیرینہ مسائل کا نہ صرف بہت اچھی طرح سے ادراک رکھتی ہے بلکہ اگر چاہے تو اُنہیں چٹکیوں میں نمٹانے کی پوری پوری سیاسی قوت و حمایت بھی رکھتی ہے۔



وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہئ ایران وسعودی عرب کے اختتام پر دونوں ملکوں کی قیادت کی طرف سے جس طرح کے مشترکہ اعلامیے جاری کیئے گئے ہیں۔ اُن سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدائی مرحلے پر عمران خان کی ثالثی کی کوشش توقع کی عین مطابق انتہائی نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے۔ خاص طور جس طرح سے روسی صدر ولادمیر پیوٹن اچانک سعودی عرب کے ہنگامی دورے پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے لیئے پہنچے ہیں،اُس سے تو یہ ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ برسہابرس سے امریکی کیمپ میں رہنے والے ممالک بھی اپنے سیاسی و معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیئے روس اور چین کے کیمپ میں جانے کے لیئے پوری سنجیدگی سے پر تول رہے ہیں۔ یقینا نئے کیمپ میں دوست بھی نئے ہوں گے۔اس لیئے اگر چین،روس، پاکستان،ایران،سعودی عرب اور ترکی پر مشتمل ممالک کا ایک نیا اتحاد بننے جارہاہے تو اِس پر کسی کو حیران ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہر ملک کا داخلی مفاد واحد ایک ایسی شئے جو اُس ملک کی سمجھدار قیادت کو اپنے کل کے دشمن کو تمام تر اختلافات بھلا کر آج کا دوست بنانے کے لیئے گلے لگانے پر مجبور کرسکتی ہے۔

خطے میں بننے والے اِس متوقع نئے اتحاد سے جہاں پاکستان کو اپنے خارجی اور داخلی مسائل حل کرنے میں زبردست مدد میسر آئے گی وہیں دوسری جانب اگر چین،روس، پاکستان،ترکی،ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک براعظم ایشیا میں ایک نیا معاشی و دفاعی بلاک بنانے کے حسین خواب کی عملی تعبیر پانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھ لیجئے گا کہ سپر پاور کے منصب سے امریکہ کی تنزلی یقینی ہے اور پھر اِس بات میں تو کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی کہ امریکہ کی پسپائی بھارت کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے سفارتی تنہائی کے بلیک ہول میں دھکیل دے گی۔ یعنی دوسری صورت میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوستی مشن کی کامیابی مسئلہ کشمیر کے حل کی جانب پہلا قدم بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 24 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں