Parvaiz Musharaf

فیصلہ کی بھی ایک زبان ہوتی ہے۔۔۔!

آئی سی سی نے اپنے اپنے تازہ ترین فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ شارجہ میں کھیلے جانے والاپاک بھارت میچ، جس میں جاوید میاں داد نے آخری بال پر چھکا مار ا تھا،اُس میچ کا اصل فاتح آئندہ سے پاکستان کے بجائے بھارت کو تسلیم کیا جائے۔
مگر آئی سی سی نے یہ فیصلہ کس قانون اور اُصول کے تحت کیا ہے؟
آئی سی سی نے کرکٹ کی بہتری اور ترقی کے لیئے ایک نیاقانون بنایا ہے کہ جو چھکا 70 میٹر سے زیادہ طویل ہوگا،اُسے آئندہ سے کرکٹ میں باؤنڈری تسلیم نہیں کیا جائے گا۔چونکہ جاوید میانداد کا لگایاگیا چھکا 70 میٹر سے زیادہ طویل تھا،اُس لیئے نئے قانون کی رو اُسے باؤنڈری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
مگر یہ قانون کب بنا یا گیا؟
آئی سی سی نے 18 نومبر 2019 کو اپنے اعلیٰ سطح کے سالانہ اجلاس میں اکثریتی رائے سے متفقہ قرارداد کے ذریعے یہ نیاقانون بنایا ہے۔
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ جاوید میاں داد نے جس میچ میں بھارتی بالر چیتن شرما کی آخری بال پر چھکا مار کر پاکستان کو فتح دلوائی تھی وہ میچ تو 1986 میں کھیلا گیا تھا جبکہ آئی سی سی نے یہ قانون آج بنایا ہے تو پھر اِس قانون کا اطلاق 43 برس پہلے کھیلے گئے پرانے میچ کے نتیجہ پر کیونکر کیا جاسکتا ہے؟
بالکل ویسے ہی کیا جاسکتاہے جیسے پاکستان کی ایک خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کیس میں کیاہے۔ یعنی پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگائی تھی،2007 کو،اُس وقت آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 6 میں لفظ”آئین کی معطلی“شامل ہی نہیں تھا۔یہ لفظ تو آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے 2010 میں شامل کیاگیا تھا۔لیکن اس کے باوجود خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حال میں بنائے گئے فوجداری قانون کا اطلاق ماضی میں صادر ہوئے جرم پر ایسی کمال مہارت سے کردیا ہے کہ وطنِ عزیز میں بسنے والے اچھے خاصے بندے کی عقل بھی گھاس چرنے چلی گئی ہے۔

اتنی لمبی چوڑی ”مثالیہ تمہید“باندھنے کا مقصد وحید بس اتنا سا ہے کہ جس طرح کسی پاکستانی کے لیئے یہ بات ہضم کرنا سخت مشکل ہے کہ شارجہ میں 43 برس قبل کھیلے جانے والے پاک بھارت میچ کا اصل فاتح پاکستان نہیں بلکہ بھارت تھا،اَب چاہے اِس بات کو ثابت کرنے کے لیئے آئی سی سی کرکٹ کے قوانین میں جتنی چاہے اٹھارویں ترمیمیں کرلے۔ بالکل ایسے ہی ایک عام پاکستانی کے لیئے یہ بات بھی سمجھ پانا کم و بیش ناممکن ہی ہے کہ پرویز مشرف کوآئین پاکستان میں حاصل ایمرجنسی نافذ کرنے کے اختیار کو استعمال کرنے کی پاداش میں غدار قرار دے دیا جائے۔جبکہ پرویز مشرف کے اصل جرم12 اکتوبر 1999 کو آئین معطل کرنے پر فقط اِس لیئے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا کیونکہ اُس وقت کئی نامور معزز جج صاحبان نے چیف ایگزیکٹیو کے دستِ قدرت پر پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر پرویز مشرف کے اقدام کو عین آئین و قانون کے مطابق قرار دے دیا تھا۔لیکن جب وہی پرویز مشرف 2007 میں اُس وقت کے وزیراعظم پاکستان اور کابینہ کی ایڈوائس پر پاکستان کے آئین کی روشنی میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتا ہے تو اُسے قابل ِ گردن زنی قرار دے کر ملک و قوم کا غدار قرار دے دیا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خصوصی عدالت کے 2 معزز جج صاحبان اپنی بالکل بغل میں بیٹھے ہوئے تیسرے جج کو تو اِس بات پر تو قائل نہیں کرسکے کہ پرویز مشرف کے خلاف لکھے گئے فیصلہ کا ہر حرف قانون و آئین کے عین مطابق ہے لیکن پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو ”توہین ِ عدالت“کی تلوار دکھا کر یہ کہا جارہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آنے والے فیصلہ کو بسرو چشم قبول کرلیا جائے۔



ارے پاکستانی عوام تو ”رول آف لاء“ کی سربلندی کے لیئے یہ کڑوا گھونٹ بھی خوشی خوشی اپنے حلق میں اُتار لیتی اگر اُسے فقط اِتنی سی بات ہی سمجھا دی جاتی کہ بھئی جس ایمرجنسی کی سفارش اُس وقت کے وزیراعظم نے کی ہو اور جس کی پوری کابینہ نے توثیق کی ہو۔ آخر اُس ایمرجنسی کے نفاذ کی سزا صرف ایک شخص کو ہی کیوں دی جارہی ہے۔جس نے وزیراعظم اور کابینہ کے لکھے ہوئے آرڈر پر آخر میں فقط اپنے دستخط ثبت کیئے ہوں۔ کیا ایمرجنسی نافذ کرنے کے جرم کی باقاعدہ منصوبہ بندی کرنے والے اور اُس کا ڈرافٹ تیار کر کے اپنی ایگزیکٹیو طاقت سے اُسے پورے ملک میں نافذ کرنے کا عندیہ دینے والے،قانون کی نظر میں پرویز مشرف کے جرم میں اتنی سی بھی شراکت نہیں رکھتے تھے کہ خصوصی عدالت ایک بار بار فرداً فرداً اِن سب عقل کے مادھوں کو بلا کر بس یہ ہی پوچھ لیتی کہ”اے معصوم حکمرانو! کیا ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیئے اُس وقت کے صدر پرویز مشرف نے کہیں تم سب کی کنپٹی پر پستول تو نہیں تان لی تھی کہ جو تم سب نے ایمرجنسی کا حکمنامہ ہنستے مسکراتے کابینہ سے متفقہ طور پر منظور کرلیا تھا“۔ اگر یہ سب مل کر خصوصی عدالت عالیہ کے سامنے حلف اُٹھا کر اپنے ضمیر کی آواز پر ایک بار بھی یہ بیان دے دیتے کہ ”ہمیں اِس غیر آئینی کام پر پرویز مشرف نے زبردستی مجبور کیا تھا“ تو یقینا خصوصی عدالت کے سامنے اِن ”سیاسی معصومین“کا اتنا سا ”حرفِ انکار“ بھی ہم پاکستانیوں کے لیئے یہ ماننے کے لیئے کافی ”بڑاجواز“ بن جاتا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کا گناہ پرویز مشرف نے تن تنہا اپنی لامحدود طاقت کی بنیاد پر کیا ہوگا۔

مگر بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ پرویزمشرف کی زیرِ صدارت حکومت اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے ”سیاسی معصومین“کو خصوصی عدالت میں بلائے بغیر ہی قانون نے یہ فرض کر لیا کہ ہزار ہاتھوں سے ہو کر گزرنے والا ایمرجنسی کے نفاذ کا حکمنامہ میں کسی کا ذرہ برابر بھی کوئی کردار نہیں تھا سوائے پرویز مشرف کے، اور اِس کے لیئے پرویز مشرف کو اتنی سخت سزا سنائی گئی ہے کہ جس کا ذکر آئین و قانون کی کتابوں میں تو کیا بلکہ مہذب انسان کی پانچ ہزار سالہ پوری تاریخ میں بھی ڈھونڈے سے نہ مل سکے گا کہ ”پرویز مشرف کو 5 مرتبہ الگ الگ سزائے موت دی جائے اور اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملیں تو اِن کی لاش کو ڈی چوک میں گھسیٹا جائے اور تین دن تک سرعام لٹکائی جائے“۔ہم اپنے بزرگوں سے ہمیشہ سنتے آئے تھے کہ عدالت سے سنائے جانے والے فیصلہ کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور اُسے صرف ”قانون کی زبان“ کہتے ہیں لیکن خصوصی عدالت کا پرویز مشرف کے خلاف دیئے جانے والے فیصلہ کو پڑھنے اور سننے کے بعد توڈر لگ رہا ہے کہ ہماری آئندہ نسلیں عدالت سے جاری ہونے والے فیصلہ کی زبان کو غصہ کی زبان،نفرت کی زبان اور جذبات کی زبان یا پھر خدا جانے اورکیا کیا کہا کریں گی۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 23 دسمبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں