Punjab Police

پنجاب پولیس کو پنجاب پولیس ہی ٹھیک کرسکتی ہے

سانحہ ساہیوال نے ہر آنکھ کو اشکبار کردیا،صدر پاکستان جناب عارف علوی چہرے بشرے سے حالتِ سکتہ میں نظر آئے،وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے ٹویٹ بھی پوری طرح افسردگی میں ڈوب گئے،وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اِس واقعہ کے زیرِ اثر پشیمانی کے آخری مقام پر کھڑے دکھائی دیئے،اپوزیشن جماعتیں بھی اِس حادثہ پر دل گرفتہ اور دلگیر نظر آئیں،اقتدار ِ سیاست کے ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں بھی کم و بیش مکمل سوگ کی کیفیت میں ہیں اور ملک کے میڈیا کا تو صدمہ سے اِتنا بُرا حال ہے کہ اُس کی آواز ہی نہیں نکل رہی،بس چیخیں سنائیں دے رہی ہیں اور وہ بھی اتنی دبی دبی کہ اُن پر ”داعی اَجل“ کا گمان ہو رہا ہے جبکہ پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح اِس اندوہناک و دلخراش سانحہ پر بس خون کے آنسو اپنے بچوں سے چھپ چھپ کر بہا رہے ہیں لیکن اِن سب ”مقاماتِ کر ب وبَلا“ سے بھی بڑھ کر افسوس کا مقام یہ ہے کہ سانحہ ساہیوال پر فقط ”پنجاب پولیس“ ہی واحد ایسا ادارہ ہے جس کے نزدیک یہ حادثہ ایک معمول کی معمولی سی کارروائی ہے جیسا کہ چند سال پہلے ”سانحہ ماڈل ٹاؤن“تھا۔ پنجاب پولیس سانحہ ساہیوال پر انتہائی پُر اعتماد دکھائی دے رہی ہے اور لگ ایسا رہا ہے کہ ”سانحہ ماڈل ٹاؤن“ کا تمغہ اپنے سینے پر سجانے کے بعد ”سانحہ ساہیوال“ کا میڈل کسی داغ کی طرح اپنے ماتھے پر سجنے کا ذرہ برابر رنج بھی ”پنجاب پولیس“کے افسرانِ بالا کو لاحق نہیں۔شاید اِن کے خواب و خیال میں ”داغ تو اچھے ہوتے ہیں“ چاہے کتنے ہی بدبودار اور گندے کیوں نہ ہوں۔

پنجاب پولیس سانحہ ساہیوال پر اگر ذرہ برابر بھی غمزدہ ہوتی ہے تو اُس کے ترجمانوں کی طرف سے پے درپے جاری ہونے والے ”الف لیلوی داستان“ قسم کے وہ”تیکنیکی وضاحت نامے“ سامنے نہ آتے جن کو سننے کے بعد ایک عام آدمی یک لخت پکار اُٹھا کہ کیا کسی نادم کے ”حرفِ شرمندگی“ اتنے بے باک اور سفاک بھی ہوسکتے ہیں۔سانحہ ساہیوال سے بڑھ کر قابلِ مذمت تو وہ وضاحتیں ہیں جو پنجاب پولیس عوام کو مطمئن کرنے کے لیئے بطورِ”فرمانِ شاہی“ میڈیا پر پیش کرتی رہی اور وہ بھی اِس یقین کامل کے ساتھ کہ ”سب سے مستند ہے ہمارا فرمایا ہوا“۔مگر بُرا ہو اُن لفظوں کا جواِن وضاحتوں میں کسی قیدی کی طرح قید کرکے جوق در جوق لکھے تو جارہے تھے لیکن کسی کے”سوختہ دل“ کو متاثر کرنے میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہو پارہے تھے۔اب یہ بدنصیبی اِن مجبور و لاچار لفظوں کی تھی یا اِن کو تخلیق کرنے والوں کی، اِس کا فیصلہ تو شاید اَب مستقبل کی تاریخ ہی کرے کیونکہ حال تو اتنا بے حال بلکہ پائمال ہوچکا ہے کہ اِب کوئی کسی کا حال پوچھنے کا بھی روادار نظر نہیں آتا اس ڈر سے کہ کہیں سامنے والا جواباًسانحہ ساہیوال کا تذکرہ ہی نہ لے کر بیٹھ جائے۔

تحریک انصاف کی حکومت کو بہرحال اِس بات کی تو داد دینا ہی بنتی ہے کہ کم ازکم سانحہ ساہیوال کی ایف آئی آر واقعہ کے اگلے ہی روز کٹ گئی وگرنہ ”خادم ِ اعلیٰ“ کے پچھلے تاریک ترین دورِ حکومت میں تو ”سانحہ ماڈل ؤن“ کے متاثرین کا پرچا بھی اُس وقت تک کاٹنے سے صرفِ نظر کیا گیا تھا جب تک کہ اُس وقت تک کے آرمی چیف نے ایف آئی آر کاٹنے کا حکم نہیں دے دیا تھا۔اَب وہ الگ بات کہ ”سانحہ ماڈل ٹاؤن“ کے جملہ متاثرین واقعہ کے آج چار سال بعد بھی ہنوز انصاف کے ویسے ہی منتظر ہیں جیسے اُن کے منتظر رہنے کا حق ہے۔تحریک انصاف کی چھ ماہ کی نوزائیدہ حکومت نے اتنی اشک شوئی تو بہرحال قوم کی ضرور فرمائی کہ سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار وں کو اعلیٰ عہدوں پر ترقیاں دے کر اُنہیں ملکوں ملکوں گھومنے کا ”سیاسی ٹکٹ“ جاری کرنے کے بجائے اُنہیں فی الفور حوالہ زنداں کردیا۔سانحہ ساہیوال کے واقعہ میں ملوث تمام اہلکار فی الحال ”پنجاب پولیس“ کی حراست میں ہی ہیں اور اب لوگ تحریک انصاف کی حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ”پنجاب پولیس“ کو اپنی انقلابی اصلاحات سے تبدیل کردے۔لیکن کیا ایسا ممکن ہوسکے گا،میرا خیال ہے کہ ایسا سوچنا ایک دیوانے کے خواب کے سوا کچھ بھی نہیں کیونکہ ”پنجاب پولیس“ کو ٹھیک کرنا نہ تو وفاق کے بس کی بات ہے،نہ ہی پنجاب حکومت یہ کام کرسکتی ہے اگر دنیا میں ”پنجاب پویس‘ کو راہِ راست پر لانے کا ناممکن کام کوئی انجام دے سکتاہے تو وہ خود ”پنجاب پولیس“ ہی ہے۔مگر اس کے لیئے ”پنجاب پولیس“ میں کسی ”واجد ضیاء“ کو پیدا ہونا ہوگا یاکسی ”ثاقب نثار“ جیسے فرشتہ صفت کوآسمان سے اُتار کر”پنجاب پولیس“ میں بھرتی کروانا ہوگا اگر ایسا بھی نہ ہوسکے تو کم ازکم پھر بارگاہِ ایزدی میں ہم لاچاروں کودعا گو ہونا پڑے گا وہ ”پنجاب پولیس“ کے کسی پولیس آفیسر کو ”جسٹس ریٹائر جاوید اقبال“ جیسا نڈر شخص بنا دے جو اپنے سیاسی آقاؤں کے آگے سجدہ ریز ہونے کے بجائے اپنے ”حرف ِ انکار“ کے بل بوتے پر پورے قد کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتا ہو۔

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن پنجاب پولیس کے اپنے”سیاسی آقاؤ ں“ کے سامنے صرف چند”حرفِ انکار“ ہی پولیس فور س کی جیون کتھا بدل سکتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پنجاب پولیس میں کوئی ایسا ایک بھی دلاور موجود ہے جو”سابق چیف جسٹس ثاقب نثار“کی طرح بڑے بڑوں کو اپنے پاس طلب کرسکے،جو واجد ضیاء کی طرح فرعون ِ صفت لوگوں کا کچھا چٹھا ایف آئی آر میں درج کرنے کی ہمت کر سکے اور جو جسٹس ریٹائر جاوید اقبال کی طرح بادشاہ گروں کو اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باور کرواسکے کے ”پولیس فورس“ قانون نافذ کرنے والے سپاہیوں کا ایک معتبر ادارہ ہے ناکہ کسی ”پروٹوکول کے دلداہ“ شخص کی زر خرید لونڈی۔مجھے پوری اُ مید ہے کہ جس دن ”پنجاب پولیس“ میں ایسے دلاور آفیسر آجائیں گے۔”پنجاب پولیس“ یک سر بدل جائے گی کیونکہ پنجاب پولیس کو صرف ”پنجاب پولیس“ ہی ٹھیک کرسکتی ہے کوئی اور دوسرا نہیں۔
پتا ہے کہ وہاں پانی نہیں ہے
مگر اُمید صحرا چھانتی ہے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 24 جنوری 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں