World-Ozone-Day

ہماری زمین کی محافظ اوزون کی تہہ

آج صبح سے آنے والی یہ گیارہویں فون کال تھی جس میں گاہک نے حاجی عبدالرزاق کو انورٹرز اے۔سی واپس اُٹھاکر لے جانے کو کہا تھا،حاجی عبدالرزاق کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آج آخر ایسا کیا ہوگیا ہے کہ اُس کے فروخت کیئے گئے مہنگے و اعلیٰ درجے کے برانڈڈ انورٹر اے۔سی ایک ایک کر کے اچانک کام کرنا چھوڑتے جارہے ہیں،اگر انورٹرز اے۔سی واپسی کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو وہ تو بالکل دیوالیہ ہو جائے گا۔اسی پریشانی کے عالم میں حاجی عبدالرزاق نے انورٹرز اے۔سی بنانے والی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو فون کیا اور اُسے اپنی ساری رام کہانی سنائی۔منیجنگ ڈائریکٹر نے حاجی عبدالرزاق کو دلاسا دیتے ہوئے کہاکہ ”انورٹرز اے۔سی کے بڑی تعداد میں اچانک خراب ہونے کی نہ تو کمپنی ذمہ دار ہے اور نہ اس میں آپ کی بد قسمتی کا کوئی عمل دخل ہے بلکہ یہ سب کچھ آپ کے شہر نواب شاہ کے موسم کا کیا دھرا ہے کیونکہ آج نواب شاہ کا درجہ حرارت 52.2 ڈگری تک جاپہنچا ہے جو کہ اپریل کے مہینے میں کرہ ارض پر اب تک ریکارڈ کیا جانے والاسب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔چونکہ دنیا کے ہر اچھے سے اچھا اے۔سی کو 50 ڈگری درجہ حرارت پر کام کرنے کے لیئے بنایا جاتاہے،اس لیئے کم ازکم آج کے دن تو نواب شاہ شہر میں کسی بھی انورٹراے۔سی کے لیئے کام کرنا شاید ممکن نہ ہوسکے“۔
”نواب شاہ میں اتنے زیادہ درجہ حرارت کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے“۔حاجی رزاق نے استفسار کیا۔
”اس بار ے میں زیادہ بہتر تو کوئی ماہر موسمیات یا ماحولیات ہی بتا سکتا ہے لیکن جن ماہرین کی آراء اب تک میری نظر سے گزری ہیں اُن کے مطابق نواب شاہ میں ریکارڈ ساز درجہ حرارت کی مختلف وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ”اوزون کی تہہ“ میں ہونے والے سوراخ کو بھی قرار دیا جارہاہے“۔منیجنگ ڈائریکٹرنے کے اس جواب نے حاجی عبدالرزاق کو”اوزون“ سے متعلق بے شمار سوالات کے بھنور کے عین بیچوں،بیچ لا کھڑا کیاکیونکہ حاجی صاحب نے ”اوزون“ کانام پہلی بار سُنا تھا۔

اوزون کیا ہے؟
زمین کی سطح کے قریب اوزون ایک فضائی غلاف ہے۔ اس غلاف یا پٹی کا کام زمین کو سورج کی اُن ضرر رساں شعاعوں سے بچانا ہے، جو انسان کے لیے نقصان دہ ہیں۔اس لحاظ سے آپ اوزون کو زمین کا حفاظتی غلاف،حفاظتی چادر یا اسے ایک قدرتی چھلنی بھی سمجھ سکتے ہیں جو سورج سے آنے والی نقصان دہ الٹر وائلٹ یعنی بالائے بنفشی شعاعوں کو زمین کی سطح تک پہنچنے سے روکتی ہے۔ زمین کی سطح سے تقریباً 19 کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک اوزون کی تہہ پائی جاتی ہے۔ اوزون میں آکسیجن کے تین ایٹم ہوتے ہیں، یعنی کیمیائی اصطلاح میں (O3) آکسیجن کا ایک آسمانی روپ ہے، اوزون کی تہہ یا پرت کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے زمینی کے ارد گرد موجود فضائی ما حول کو سمجھنا از حد ضروری ہے۔ہماری زمین کے ارد گرد موجود فضائی ماحول بہت سی پرتوں یا تہوں پر مشتمل ہے اور ہر ایک پرت زمین کو تحفط فراہم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔زمین کی سطح سے 10 کلومیٹر اوپر موجود پہلی پرت کو Troposphere کے طور پر جانا جاتا ہے۔بہت سی انسانی سرگرمیاں جیسے گیس کے غبارے، ہائکنگ یعنی پہاڑچڑھنے اور چھوٹے طیاروں کی پروازیں اسیTroposphere نامی فضائی پرت کی حدود میں ہوتی ہیں۔Troposphereسے عین اُوپراگلی پرت Stratosphereشروع ہوجاتی ہے،جو سطح زمین سے 15 سے 60 کلومیٹر علاقے تک پھیلی ہوتی ہے۔ اوزون کی پرت زمیں کی سطح سے تقریبا 20تا30 کلومیٹر کے قریب Stratosphereکے نچلے علاقے میں ہوتی ہے۔اوزون تہہ کی موٹائی تقریبا 3 سے 5 ملی میٹر تک ہوسکتی ہے، لیکن اس کا زیادہ تر انحصار موسم اور جغرافیائی حالات پر بھی منحصر ہوتاہے کہ اگر موسم اور فضائی ماحول بہترین ہو تو اس کی موٹائی کچھ زیادہ بھی ہوسکتی ہے،جبکہ خراب موسم اور مکدر فضائی ماحول اس کی موٹائی کو بہت زیادہ کم یا بالکل ختم بھی کرسکتاہے۔ 1913 میں فرانسیسی ماہر طبعیات چارلس فیبری (Charles Fabry) اور ہنری بوئسن(Henri Buisson) نے اوزون کی تہہ کو دریافت کیا تھااور ساتھ ہی یہ بھی بتایاتھا کہ 97تا99 فیصد تک الٹراوائلٹ شعاعوں کی مضرررساں تاب کاری اثرات کو اپنے اندر جذب کر کے سورج کی صاف روشنی زمین تک پہنچنے مدد دیتی ہے۔بعد ازاں 1970 ء کی ابتدائی دہائی میں مختلف سائنسی تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ انسان کی ماحول دشمن سرگرمیاں اوزون کی اس تہہ کو تباہ کر رہی ہیں۔ اوزون کی تباہی سے مراد اس کی موٹائی میں کمی ہونا یا اس میں شگاف پڑنا ہے۔ امریکی ماہرین ماحولیات نے1974ء میں اوزون کی تہہ کے تحفظ سے متعلق آگاہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے واضح کیا کہ صنعتی کارخانوں سے کئی طرح کی اوزون دشمن زہریلی گیسیں جیسے کاربن مونو آکسائیڈ وغیرہ خارج ہوتی ہیں۔یہ زہریلے اجزااوزون کی تہہ کے بنیادی اور اہم ترین جز اوکسیجن کے ساتھ مل کرکاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اوزون کی تہہ میں ایک شگاف انٹارکٹیکا میں پیدا ہوچکا ہے اور اگر اس کا بروقت سدباب نہ کیا گیا تو اگلے 75 برسوں میں اوزون کی اس تہہ کا مکمل طور پر خاتمہ بھی ہوسکتاہے۔ جس سے انتہائی خطرناک سمندری طوفان اور سیلابوں کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ نیز اوزون کی تہہ کے خاتمے کی صورت میں نہ صرف دنیا بھر کا درجہ حرارت انتہائی حد تک بڑھ جائے گا،بلکہ قطب جنوبی میں برف پگھلنے سے چند سالوں میں دنیا کے اکثر ساحلی شہر صفحہ ہستی سے بھی مٹ سکتے ہیں۔زمین کو لاحق ہونے والے ان سب خطرات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے زیر نگرانی16 ستمبر 1987 کو دنیا کے کئی ممالک نے اوزون کے تحفظ کے لیئے ایک عالمی معاہدے پر دستخط کیے ہیں جسے مونٹریال پروٹوکول کہا جاتا ہے جبکہ اسی دن کی مناسبت سے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994 میں 16 ستمبر کو اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن منانے کی قرارد بھی منظور کی۔ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا بنیادی مقصد دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں کو اوزون کے اس حفاظتی غلاف کے تحفظ سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔کیونکہ اگر اوزون کی تہہ سور ج سے خارج ہونے والے الٹراوائلٹ شعاعوں کو تابکاری اثرات کو اپنے اندر جذب کرنے کے قابل نہ رہی تو کرہ ارض پر ہر طرح کی زندگی کو شدید ترین خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ جیسے انسانوں میں جلد کا کینسر،کور چشمی،قوتِ مدافعت میں کمی،آبی ذخائر کی تیزی سے تلفی،آبی حیات کی موت اور کرہ ارض پر درجہ حرارت کا بہت زیادہ اور بہت عرصہ تک بڑھ جانے والے مسائل زندگی کو زمین مشکل بناسکتے ہیں۔اب تک اوزون تہہ کی مختصر سی تباہی کی صورت میں ہونے والے نقصانات کی اجمالی تفصیل درج ذیل ہے۔



درجہ حرارت میں شدید اضافہ
اوزون تہہ کے کمزور ہونے کے باعث ہمارے سیارے کا موسم انتہائی تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہا ہے۔ گزشتہ سو برسوں کے درمیان زمین کی سطح کا درجہ حرارت 0.85 سینٹی گریڈ بڑھا ہے۔نیز21 ویں صدی کے 17 میں سے 15 سال اب تک ریکارڈ ہونے والے سب سے گرم سال قرار پائے ہیں جبکہ 2018 بھی بڑھتے درجہ حرارت کے حوالے سے ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کے قریب ہے۔صنعتی انقلاب کے بعد سے دنیا کے موسم میں تیزی سے اور ڈرامائی تبدیلیاں شروع ہوگئیں اور 21ویں صدی تک آ کر یہ صورتحال خطرہ کے انتہائی حدوں کو چھونے کے قریب ہے۔ آلودگی، جنگلات کی کٹائی اور ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ مثلاً امریکا کے مشرقی حصوں میں سیلاب کا سبب بننے والی بارشیں ہونا، جاپان میں درجہ حرارت کا 41 ڈگری تک پہنچنا، امریکی ریاست ماساچیوسیٹس، مین، وایومنگ، کولراڈو، اوریگن، نیو میکسیکو اور ٹیکساس میں گرمی کے آئے روز نئے ریکارڈ قائم ہونا اور یورپ میں اتنی گرمی پڑنا کہ جس کی ماضی سے بھی کوئی مثال نہ پیش کی جاسکے، یہ سب زمین کی حفاظتی چادر یعنی اوزون پر حضرتِ انسان کی طرف سے کی گئی دست درازی کے اندوہناک نتائج ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے موسم میں تبدیلی کو کسی صورت قدرتی نہیں کہا جاسکتا۔ امریکی ادارے نیشنل اوشنک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کے مطابق مجموعی طور پر دنیا بھر میں شدید ترین گرمی کے 118 مختلف ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہر ماحولیات نوہا ڈیفن باگ کا کہنا ہے کہ اب ہمیں سمجھ جانا چاہئے کہ عالمی حدت بڑھ رہی ہے اور کرہ ارض کا80 فیصد حصہ اضافی درجہ حرارت کا سامنا کر رہا ہے،جبکہ شمالی نصف کرہ کے موسم کا تعین کرنے والی ہوا کی لہر (جسے Jet Stream کہا جاتا ہے) عجیب رویہ رکھے ہوئے ہے اور اس کی بے ترتیب چال کے نتیجے میں یورپ، جاپان اور مغربی امریکا میں گرمی قید ہو کر رہ گئی ہے۔ جیٹ اسٹریم کے اسی بے ترتیب رویے کی وجہ سے 2003ء میں یورپ، 2010ء میں روس، 2011ء میں ٹیکساس اور اوکلوہاما اور 2016ء میں کینیڈا کے جنگلات میں آگ لگ گئی تھی جبکہ ٹیکساس اور اوکلوہاما کو جیسے ترقی یافتہ شہروں کو قحط کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سمندروں کی سطح میں اضافہ
پگھلتی برف اور سمندروں کی توسیع کے نتیجے میں عالمی سطح پر سمندروں کی سطح 1880 کے مقابلے میں اب تک آٹھ انچ بڑھ چکی ہے جو 2100 ء تک ایک سے چار فٹ تک بڑھ جائے گی۔قابل غور بات یہ ہے کہ زمین کے اس حصہ پر جو سمندر کی سطح میں ایک میٹر اضافہ کی وجہ سے غرق ہوجائے گا 150 ملین افراد رہتے ہیں۔ ناسا کے ماہرین سمندر کی سطح میں اضافہ کے اعداد و شمار کے مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کے تمام ساحلوں کی ہیئت میں اچانک تبدیلی آسکتی ہے۔چونکہ زمین کی سطح پر گرم حالات پر ردعمل ظاہر کرنے میں سمندروں کو طویل وقت لگتا ہے، لہٰذا سمندری سطح اسی طرح یا اس سے بھی زیادہ تیزی سے اگلی کئی صدیوں تک بلند ہوتی رہے گی۔ جس کے باعث سمندری طوفان پہلے سے زیادہ طاقتور اور شدید ہو جائیں گے۔ 1980 کی دہائی کی ابتداء سے شمالی بحرِ اوقیانوس میں طوفانوں کی تعداد اور دورانیے میں واضح شدت دیکھی گئی ہے اور طاقتور طوفانوں (کٹیگری 4 اور 5) میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق آرکٹک اوشین رواں صدی کے وسط تک برف سے لگ بھگ پاک ہوجائے گا۔ اسی طرح گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کی برفانی تہیں بھی آئندہ چند دہائیوں میں پتلی ہوجائیں گی۔ خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے مطابق دنیا بھر میں گلیشیئرز انتہائی سرعت سے پگھل رہے ہیں۔ اب چاہے وہ ہمالیہ، الاسکا، افریقہ یا کوہ الپس ہوں، کوئی مقام اس سے بچا ہوا نہیں یعنی دنیا بھر میں ہر جگہ برف پگھل رہی ہے۔

آسمان سے بیماریوں کا نزول
بچپن میں دیو مالائی قصوں، کہانیوں میں پڑھا اور سُنا تھا کہ آسمان سے مختلف طرح کی بیماریوں اور وباؤں کا نزول ہوتاہے۔لیکن آج کی دنیا میں اوزون تہہ کے کمزور ہونے کے باعث خواب و خیال سمجھے جانے والے قصے بھی ناقابلِ تردید حقیقت کا روپ دھارن کرنے لگے ہیں،سائنسدان خبردار کررہے ہیں کہ سورج کی تابکار شعاعوں کا زمین پر براہ راست آنے سے انسانوں و جانوروں میں جلدی بیماریوں اور مختلف اقسام کے کینسر میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت کی وجہ سے زمین پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت پانی کی کمی،ہیپاٹائٹس اور گردوں کے شدید امراض میں مبتلاء ہو رہی ہے۔امریکا کی کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسر رچرڈ جانسن کا کہنا ہے کہ گرم علاقوں میں کلائمٹ چینج کے اثرات اور گرمی میں اضافہ مختلف نوعیت کے شدید امراض پیدا کررہا ہے اور خدشہ ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ امراض کہیں وبائی صورت نہ اختیار کرجائیں۔سب سے پریشان کن اور تشویشناک بات تو یہ ہے کہ ان امراض سے کاشت کاراور مزدورزیادہ متاثر ہورہے ہیں جو سخت گرمی کے دنوں میں بھی کھلے آسمان تلے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ
ماہرین حیاتیات نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 ء تک معدوم ہوجائے گی۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے اور کچھ ناکام ہوجائیں گے یوں آہستہ آہستہ ان کی نسل معدوم ہونے لگے گی۔یہ بات کچھ قرین قیاس اس لیئے بھی لگتی ہے کہ 1999 ء میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث سینٹرل امریکا کا آخری سنہری مینڈک بھی مرچکا ہے جسے موسمیاتی تغیر کے باعث ہونے والی پہلی معدومیت قرار دی گیا ہے،جبکہ گزشتہ سال پاکستان میں بھی مہاجرین پرندوں کی آمد میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

اوزون کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟
٭…… جہاں تک ممکن ہوسکے ماحول دوست گیسوں کے حامل برقی آلات اور مشینری کے استعمال کیا جائے مثلاً عام اے۔سی کی جگہ انورٹرز اے سی اور عام ریفریجریٹر کی جگہ انورٹرز ریفریجریٹرزکو گھر میں لے آنے سے کافی حد تک اوزون دشمن گیسوں کے اخراج کو روکا جاسکتا ہے۔
٭…… رہائش کے لیئے کھلے، ہوادار گھر بنائے جائیں اور ان میں جتنا زیادہ سے زیادہ ممکن ہوسکے سبزہ اگایا جائے تاکہ تاکہ گھر ٹھنڈے رہیں اور ان میں رہائش پذیر افراد کم سے کم توانائی کا استعمال کریں۔
٭……روایتی ایندھن جیسے قدرتی گیس، کوئلہ، خام تیل اور پٹرول کو جلانے سے ہمیشہ پرہیز کیا جائے کیونکہ انہیں جلانے سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھتی ہے، جو اوزون کی تہہ کے لیئے انتہائی مہلک ہے۔
ئ٭…… ہمیشہ ایسی مصنوعات کو خریداری کو ترجیح دیں جنہیں ری سائیکل یا تلف کرنا ممکن ہو۔جیسے پلاسٹک بنے شاپنگ بیگز کو تلف کرنا کم و بیش ناممکن ہے،اس لیئے دُکاندار سے کاغذ یا کپڑے کے بیگز میں سامان دینے کا مطالبہ کریں۔آپ کا یہ چھوٹا سا مطالبہ مستقبل میں کاغذ کے بیگز کے فروغ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
٭……چھتوں اور دیواروں کو انسولیٹ کریں، آپ کے اس اقدام سے آپ کا گھرماحول دوست گھر بن جائے گا جبکہ اسے ٹھنڈا یا گرم کرنے کے لیے بھی کم توانائی کی ضرورت ہوگی جس سے آپ کے پیسوں کی بھی خوب بچت ہوگی۔
٭……عام لائٹ بلبوں اور انرجی سیورز کو فلورسنٹ لائٹ بلبوں یا ایل۔ای۔ڈی بلبوں سے بدل دیں۔ ان کو کم نہ صرف یہ کہ کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ یہ زیادہ عرصے تک چلنے کے ساتھ ساتھ روشنی بھی خوب دیتے ہیں۔
٭……کار اور موٹر سائیکل کو ہمیشہ ضرورت پر استعمال پر کریں،کم فاصلے پر جانے کے لیئے پیدل چلنے کی عادت اپنائیں اس سے ناصرف آپ کی صحت اچھی رہے گی بلکہ روایتی ایندھن کے غیر ضروری خرچ کو بھی کم کیا جاسکے گا۔ ایک گیلن ایندھن کو بچا کرباآسانی 20 پونڈ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو فضاء میں پھیلنے سے روکا جاسکتا ہے۔
٭……گھر میں صرف وہی لائٹس جلائیں جائیں جن کی ضرورت ہو اور کمرے سے نکلنے سے قبل انہیں بند کرنا نہ بھولیں۔ نیز دیگر برقی آلات جیسے ٹی وی، اے سی، کمپیوٹر وغیرہ کو بھی استعمال نہ کرنے پر لازمی بند کرنے کی عادت کو اپنائیں۔
٭……اوزون کے لیئے درخت آبِ حیات کی مثل ہیں کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب اور آکسیجن پیدا کرنی کی خودکار فیکٹریاں ہیں، اس لیئے ہم زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر قدرتی طریقے سے ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ میں کمی لاسکتے ہیں۔ ایک درخت اپنی پوری زندگی میں ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اوزون ہیرو بنیں
اوزون ہماری زمین کی سب سے قریبی اور بہترین دوست ہے،کیا اس ناطے سے آپ اوزون کے دوست بننا چاہیں گے۔اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو پھر دیر کس بات کی،ابھی#OzoneHero ویب سائیٹ کو وزٹ کریں اور خود کو بطور”اوزون ہیرو“کے رجسٹرد کروالیں۔ #OzoneHero نامی یہ ویب سائیٹ اقوام متحدہ کی آفیشل ویب سائیٹ کے زیرِ انتظام بنائی گئی ہے۔جس کا بنیادی مقصد کرہ ارض پر بسنے والے نوجوانوں کو اوزون کے بارے میں ہرطرح کی آگاہی فراہم کرناہے۔اس ویب سائیٹ پر اوزون کے بارے میں ایک انتہائی دلچسپ ”کامک اسٹوری بُک“ بھی موجود ہے جسے بالکل مفت میں ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے،یہ ”کامک اسٹور ی بُک“ کہانی کی صورت میں اوزون سے متعلق اہم ترین معلومات فراہم کرتی ہے جس کی مدد سے آپ اسی ویب سائیٹ پر آن لائن”اوزون کوئز“ میں حصہ لے کر #OzoneHero بننے کا اعزاز بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ویب سائیٹ کا آفیشل ویب ایڈریس درج ذیل ہے۔ https://www.ozoneheroes.org/

اوزون لیول کو اپنے اسمارٹ فون سے ٹریک کریں
کیا آپ جانتے ہیں کہ اوزون کو اور اس کے کمزور ہونے کے نتیجے میں سورج سے نکلنے والی الٹراوئلٹ یعنی بالائے بنفشی شعاعوں کو اب آپ اپنے اسمارٹ فون کی مدد سے بھی ٹریک کیا جاسکتاہے۔گوگل پلے اسٹور پر اس حوالے دو انتہائی منفرد موبائل اپلی کیشن موجود ہیں۔پہلی ارتھ ناؤ(Earth Now) نامی ایپ دنیا کے معروف خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کی بنائی ہوئی ہے۔جس میں اوزان کے حوالے سے تازہ ترین معلومات تھری ڈی ماڈلز اور مختلف ویڈیوز کی صورت میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں،اس موبائل ایپ کو اب تک دس لاکھ سے بھی زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جاچکا ہے جس سے اس کی مقبولیت و افادیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس ایپ کا مختصر لنک یہ ہے۔http://bit.ly/2C0gxAc جبکہ ایسی ہی ایک اور دوسری انتہائی کارآمد موبائل ایپلی کیش کا نام یو وی انڈیکس ناؤ(UV Index Now) ہے۔جو اوزون لیول،الٹراوائلٹ لیول اور سورج سے ملنے والی وٹامن ڈی کے لائیو اعدادو شمار مہیا کرنے کے ساتھ کچھ اضافی خصوصیات سے بھی لیس ہے جن سے صحیح معنوں میں فائدہ تو اسمارٹ فون میں انسٹال کر کے ہی اُٹھایا جاسکتا ہے۔اس ایپ سے مستفید ہونے کے لیئے ایپ کا مختصر لنک نوٹ فرمالیں۔ http://bit.ly/2ohJ22O

آخری اہم ترین بات
پاکستان نے 1992 میں مونٹریال پروٹوکول میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور 1996 میں اوزون کے تحفظ کے لیئے ”نیشنل اوزون یونٹ“ قائم کیا۔جس کی انٹرنیٹ پر ایک عدد سرکاری ویب سائیٹ بھی موجود ہے۔جس کا لنک یہ ہے https://nou.gov.pk/۔بدقسمتی سے اس ویب سائیٹ کو 2014 میں آخری بار اَپ ڈیٹ کیا گیا تھایعنی گزشتہ چار برسوں سے کسی سرکاری اہلکار نے اس ویب سائیٹ پر ایک لفظ کا بھی اضافہ کرنا ضروری نہ سمجھا۔ حالانکہ ہمارے ملک میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک وزارت الگ سے موجود ہے،جسے منسٹری آف کلائمٹ چینج کہا جاتاہے۔ہماری اس وزارت عالیہ سے دست بستہ التماس ہے کہ اگر درج بالا ویب سائیٹ کو اَپ ڈیٹ کرنا اُس کے دائرہ اختیار میں نہ آتا ہو تو کم ازکم اسے بند تو کیا ہی جاسکتا تاکہ غلطی سے یہاں آنے والے کسی شخص کا ویب سائیٹ کی حالتِ زار دیکھ کر دل تو نہ جلے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 16 ستمبر 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

ہماری زمین کی محافظ اوزون کی تہہ” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں