oxford-university-unbeliveable-world

آکسفورڈ یونیورسٹی کی انوکھی دنیا

آکسفورڈ یونیورسٹی، دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے جو 2017، 2018، 2019 اور 2020 میں معیاری یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی میں سرفہرست ہونے کا منفرد اعزاز بھی اپنے نام پر رکھتی ہے۔ نیز یہ ایک مقبول ترین تعلیمی درس گاہ بھی ہے،جس کی شہرت کا مقابلہ کسی دوسری درس گاہ سے نہیں کیا جاسکتا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کو ہر سال دنیا کے کونے کونے سے طلباء و طالبات کی جانب سے داخلہ کے لیئے ہزاروں درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔تاہم،آکسفورڈ یونیورسٹی کی عالمگیر شہر ت و مقبولیت کے باوجود، ہم میں سے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ یہ یونیورسٹی کس طرح کام کرتی ہے؟۔جبکہ اس عالمی مادر علمی کی تاریخ،روایات اور کارنامے اب بھی بے شمار لوگوں کے لیئے ایک معمہ ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی سے متعلق اکثر افراد کے اذہان نے کئی ایسے خود ساختہ ابہام اور مغالطے بھی تراش لیئے ہیں،جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن دوسری جانب آکسفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ کئی عجیب و غریب روایات اور انوکھے واقعات ایسے بھی ہیں جو بالکل سچ اور مبنی بر حقیقت ہیں مگر عام لوگ اُن سے بے خبر ہیں۔ زیر نظر مضمون میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی سربستہ روایات،دلچسپ واقعات،منفرد حقائق اور چند محیرالعقول رازوں سے پردہ اُٹھانے کی ایک چھوٹی سی کاوش کی جارہی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: یونیورسٹیز کٹہرے میں کیوں؟

آکسفورڈ یونیورسی کی اپنی پولیس فورس
عام طور پر ہمارے ہاں تعلیمی درس گاہوں میں پولیس کا داخلہ سختی سے ممنوع ہوتاہے۔کیونکہ ہمارے معاشرے کی اجتماعی فکر کے مطابق کسی تعلیمی ادارے میں پولیس کی آمدعلمی روایات کی پامالی کا سبب بن سکتی ہے۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسے غیر معمولی حالات بھی پیدا ہوجاتے ہیں کہ درس گاہ کی انتظامیہ کے لیئے تعلیم کا تسلسل برقرار رکھنے اور ادارہ جاتی نظم و نسق کی بحالی کے لیئے پولیس کی امداد طلب کرنا از حد ضروری ہوجاتاہے۔ایسے مشکل حالات میں اگر پولیس، درس گاہ میں داخل بھی ہوجائے تو طلباء و طالبات اور اُ ن کے والدین کو فوری طورپر پولیس کے تعلیمی ادارہ سے واپس جانے کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ پولیس کا درس گاہ میں موجود ہونے کا تصور ہمارے لیئے قطعی ناقابل قبول ہے۔لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس طرح کے خیالات کو کبھی درخو اعتنا نہیں سمجھا۔شاید آپ کویہ جان کر حیرانگی ہو کہ آکسفورڈ میں جرائم کی روک تھام اور نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیئے آکسفورڈ یونیورسٹی کی باقاعدہ اپنی پولیس فور س ہے۔ یہ پولیس فور س 1829 میں تشکیل دی گئی تھی اور آکسفورڈ پولیس کو کو برطانیہ کی قدیم ترین پولیس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ واضح رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کے اہلکاروں و افسران کو پیار سے ”بُل ڈوگ“(Bulldogs) کے نام سے بھی پکارا جاتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے 1940 میں آکسفورڈ پولیس کا تمام انتظام و انصرام اقوام متحدہ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور آکسفورڈ پولیس کے اہلکاروں کو جرائم کی روک تھام کے علاوہ،یونیورسٹی میں نظم و ضبط کے قیام کو یقینی بنانے کے لیئے طلباء و طالبات سمیت اُن کے والدین کی گرفتاری کے قانونی اختیار بھی تفویض کردیئے گئے تھے۔مگر2003 میں آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کے رویہ کے خلاف ایک عوامی نمائندے نے تحریری شکایت درج کروائی۔ جس کی تفصیلی تفتیش اور جائزے کے لیئے ایک تحقیقاتی کمیٹی کا تقرر کیا گیا۔کئی ماہ کی تحقیق و تفتیش کے بعد اس تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تجویز پیش کی کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کے اہلکاروں کے رویے کے خلاف درج شکایت بالکل درست ہے اور انہیں جدید خطوط پر تربیت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن اقوام متحدہ نے جدید معیار کی تربیت پر بہت زیادہ لاگت آنے کے پیش نظر مستقبل میں آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کی مزید سرپرستی کرنے سے معذرت کرلی۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کا خاتمہ کردیا گیا بلکہ آج بھی یہ اہلکار ”پراکٹر آفیسرز“ نام سے آکسفورڈ میں طلباء کے نظم و ضبط قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔لیکن اُن کے انتظامی اختیارات میں خاطر خواہ کمی کردی گئی ہے اور اَب یہ لوگوں کو گرفتار نہیں کرسکتے،بس زیادہ سے زیادہ کسی بدنظمی کی شکایت یونیورسٹی انتظامیہ کے روبرو پیش کرسکتے ہیں۔کیونکہ آکسفورڈ یونیورسٹی پولیس کا انتظام یونیورسٹی کی انتظامیہ کے پاس چلاگیا ہے۔

بوڈلیئن لائبریری میں داخلہ کے عجیب قوائد
آکسفورڈ میں سو سے زیادہ لائبریریاں ہیں، لیکن سب سے مشہور بوڈلیان لائبریری (Bodleian Library)ہے۔ اس لائبریری کا قیام 1602 میں عمل میں آیا تھا۔ یہ یورپ کی قدیم ترین لائبریریوں میں سے ایک ہے۔جبکہ بوڈلیئن لائبریری اپنی عجیب و غریب روایات کی وجہ سے بھی مشہور و معروف ہے۔خاص طور پر بوڈلیئن لائبریری میں داخل ہونے کے قوائد۔یعنی اس لائبریری میں آنے والوں کے لیئے سینکڑوں برس قبل ایک اعلامیہ ترتیب دیا گیا تھا،جس سے مکمل اتفاق کرنے والوں کو ہی لائبریری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔بوڈلیئن لائبریری کی قدیم روایت کے مطابق لائبریری آنے والے ہر شخص کے لیئے اس اعلامیہ کو بلند آواز میں پڑھنا ضروری تھا۔لیکن آج کل لائبریری کے مستقل اراکین سے ایک کاغذ پر لکھے گئے اعلامیہ کے نیچے دستخط لینے پر ہی اکتفا کرلیا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو افراد بوڈلیئن لائبریری کے رکن نہیں ہیں،اُن کے لیئے آج بھی یہ لازم ہے کہ وہ لائبریری میں داخل ہونے سے پہلے اس اعلامیہ میں درج قوائد و ضوابط کو بلند آواز میں دہرائیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس اعلامیہ کو سو سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا ہوا ہے۔تاکہ بوڈلیئن لائبریری میں آنے والا شخص بخوبی جان سکے کہ اُسے پڑھے گئے اعلامیہ کے کس کس وعدہ پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ بوڈلیئن لائبریری کے اعلامیہ کی کچھ شرائط یہ ہیں کہ وہ کسی کتاب کو نقصان نہیں پہنچائیں گے،نہ کسی کتاب کو چوری کریں گے، نہ ہی کسی کتاب کو اُس کی پرانی جگہ سے اُٹھا کر نئی جگہ پر رکھیں گے۔نیز دوران مطالعہ سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں گے اور کوئی بھی جلنے والی شئے اپنے ساتھ لائبریری میں نہیں لائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ بوڈلیئن لائبریری کی انتظامیہ اپنے روایتی اعلامیہ پر عمل درآمد کے حوالے سے ہمیشہ سنجیدہ رہتی ہے اور کسی بھی شرط کی خلاف ورزی پر بوڈلیئن لائبریری کی رکنیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے منسوخ کردی جاتی ہے۔

کیا آکسفورڈ دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے؟
دنیا کے اکثر افراد یہ مغالطہ رکھتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کے قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ یہ ابہام اس لیئے پیدا ہوا کہ کرہ ارض کے ہر ملک کے صاحب ثروت اور قابل افراد کے ہونہار بچے باقاعدگی کے ساتھ اس مادر علمی میں تحصیل علم کے لیئے آتے رہے ہیں اور جب یہ طلباء تحصیل علم کے بعد اپنے ملک میں واپس لوٹتے ہیں تو وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی قدیم روایات،علمی ماحول اورمعیارِ تعلیم کی اتنی زیادہ تعریف کرتے ہیں کہ سننے والے اپنی دانست میں یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید آکسفورڈ یونیورسٹی دنیاکی معیاری ہی نہیں بلکہ قدیم ترین تعلیمی درس گاہ بھی ہے۔ حالانکہ آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کی دوسری قدیم ترین یونیورسٹی ہے اور دنیا کی اولین قدیم ترین یونیورسٹی کا اعزاز ایک انتہائی غیر معروف مادر علمی یونیورسٹی آف بولونہ (University of Bologna) کے پاس ہے جو کہ اٹلی میں واقع ہے۔ یونیورسٹی آف بولونہ ہی وہ پہلامقام تھا کہ جس کے اساتذہ اور طلباء کے لیئے لفظ یونیورسٹی کا استعمال کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سیاسی ناٹک، پارلیمانی ڈرامے

یاد رہے کہ ایسی ہی ایک غلط فہمی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے۔ حالانکہ شاید ہی ہماری زمین پر کوئی ایسا دوسرا پریس ہو جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس جتنی عالمگیر شہرت اور مقبولیت رکھتاہو۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے 15 وائس چانسلر ہیں،جن میں سے ایک بھی کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہا۔کیونکہ یہ دنیا کا واحد کاروباری پریس ہے جو فقط منتخب کردہ ماہرین تعلیم کے ذریعہ ہی چلایا جاتاہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس میں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں۔نیز یہ پریس دنیا کی کئی زبانوں میں کتابیں چھاپ کر فروخت کے لیے پیش کرتاہے اور پچاس سے زائد ممالک میں اس کے باقاعدہ دفاتر بھی قائم ہیں۔ برطانیہ سے باہر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا سب سے پہلا دفتر 1800 میں نیویارک میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا یونیورسٹی پریس ہے، اور بلا شبہ سب سے مشہور بھی لیکن بہرحال یہ سب سے قدیم نہیں ہے۔کیونکہ قدیم ترین یونیورسٹی پریس کا اعزاز کیمبرج یونیورسٹی پریس کے پاس ہے۔ حالانکہ بعض لوگ ابھی بھی دعوی کرتے ہیں کہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اپنی پہلی کتاب 1478 میں چھاپی تھی۔ یعنی برطانیہ میں پرنٹنگ پریس آنے کے چند سال بعد ہی۔لیکن چونکہ برطانیہ کی شاہی حکومت کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو 1586 میں شاہی منظور ی ملی تھی۔جبکہ کیمبرج یونیورسٹی کو چند سال قبل 1534 بطور یونیورسٹی پریس شاہی منظوری حاصل ہوچکی تھی۔ لہٰذا اُصولی طور پر سب سے قدیم یونیورسٹی پریس ہونے کی دوڑ میں جیت کیمبرج یونیورسٹی پریس کے نام رہی۔

دنیا کا پہلا عوامی میوزیم
آکسفورڈ یونیورسٹی کا اشمولین میوزیم 1683 میں تعمیر کیا گیا تھا۔یہ میوزیم ایک ر وشن خیال،برطانوی مفکر جناب الیاس اشمول کی کاوش کا مظہر ہے۔جس نے اپنے تمام نوادرات،مصوری کے نمونے،کتابیں اور دیگر تمام اہم اشیاء آکسفورڈ یونیورسٹی کے اشمولین میوزیم قائم کرنے کے لیئے عطیہ کردیں تھیں۔ واضح رہے کہ اشمولین کے میوزیم کو دیئے گئے عطیات میں انتہائی نادر و نایاب اور قیمتی ڈائناسور کی پہلی دریافت شدہ سینے کی ہڈی بھی شامل تھی۔ یوں یہ میوزیم دنیا کا پہلا عوامی میوزیم بن گیا۔الیاس اشمول اس میوزیم کا پہلا منتظم اعلیٰ بھی تھا۔صرف یہ ہی نے اشمول نے میوزیم کو نظم و ضبط کے ساتھ چلانے اور اس کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیئے 18 قوانین پر مشتمل ایک خصوصی مسودہ بھی تیار کیا تھا۔ جس کے مطابق میوزیم کا ہربرس سالانہ آڈٹ لازمی تھا،نیز میوزیم میں موجود تمام نوادرات کی تفصیلی فہرست میں درج معلومات کا ماہانہ جائزہ بھی ضرور ی تھی۔ علاوہ ازیں میوزیم کی دیکھ بھال اور چلانے کے لیئے ایک بورڈ آف گورنر بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں موجود تمام میوزیم الیاس اشمول کے بنائے گئے 18 نکاتی قوانین کی روشنی میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ حالانکہ میوزیم کے منتظم اعلیٰ کی احیثیت سے الیاس اشمول کا تجربہ انتہائی مایوس کن ثابت ہوا اور اُس نے صرف تین سال بعد ہی میوزیم میں اپنے عہدے سے استعفا دے دیا تھا۔ کیونکہ الیاس اشمول اپنی ماہانہ تنخواہ سے خوش نہیں تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ تھوڑی سی تنخواہ کے لیئے،قوانین کی پابندی کرنا اُس کے لیئے بہت مشکل ہے۔ اَب چاہے وہ قوانین خود اس کے ہی بنائے ہوئے کیوں نہ ہوں۔بہرکیف الیاس اشمول نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں پہلا عوامی میوزیم قائم کرکے جو کارنامہ انجام دیا اُسے بلاشبہ کبھی فراموش نہ کیا جاسکے گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلباء کم اور ملازمین زیادہ
آکسفورڈ میں 30 سے زائد کالجز ہیں۔ جن میں سے ہر کالج اپنے طلبا ء کے جملہ انتظام و انصرام کا خود ذمہ دار ہے۔ ہر کالج کے دفاتر، کلاسیں،لائبریریاں،میوزیم،اشاعت گھر اور طلباء و اساتذہ کے لیئے رہائشی مکانات علحیدہ علحیدہ ہیں۔ نیز ہر کالج کی انتظامیہ طلباء کی دیکھ بھال،مکانات اور دفاتر کی صفائی ستھرائی اور بود باش سمیت دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیئے الگ سے ملازمین کا بندوبست کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آکسفورڈ شائر میں 30,000 سے زائد ملازمین کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیرتعلیم کل طلباء کی تعداد کم وبیش 24,000 تک محدود ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے آپ کہہ سکتے ہیں آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلباء سے زیادہ ملازمین موجود ہوتے ہیں۔شاید اسی لیئے کہا جاتاہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے دو معروف طریقے ہیں۔پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ آپ بطورِ طالب علم آکسفورڈ یونیورسٹی کا حصہ بن کر اپنا نام تاریخ میں ہمیشہ کے لیئے امر کروالیں،لیکن اس کے لیئے سخت محنت،اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور ڈھیرسارے پیسوں کی ضرورت ہوگی۔جبکہ دوسرے طریقہ کار کے مطابق آپ آکسفورڈ میں اپنی صلاحیت کے حساب سے کوئی بھی چھوٹی موٹی ملازمت اختیار کرلیں۔یہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لیئے سب سے آسان اور سہل طریقہ ہے۔ مگر دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ آکسفورڈ شائر میں ملازمین کی بہتات سے برطانیہ کی معیشت میں ہربرس 2.3 بلین ڈالر کا اضافہ ہوتاہے۔ جس سے برطانوی معیشت کو اپنا استحکام برقرار رکھنے میں خاطر خواہ مدد حاصل ہوتی ہے۔ شاید اسی لیئے بعض ماہرین معاشیات کا مانناہے کہ برطانیہ کو معاشی لحاظ سے مضبوط بنانے میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا بھی بڑا کلیدی کردار رہاہے۔

ایک کالج، جو سزا کے طور پر تعمیر کیا گیا
ویسے تو آکسفورڈ یونیورسٹی کا ہر کالج ہی اپنی ایک منفرد شناخت اور تاریخ رکھتاہے لیکن آکسفورڈ کے کالجز میں بیلیول کالج اس لحاظ سے کچھ زیادہ ہی منفرد ہے کہ یہ کالج ایک مجرم نے اپنے جرم پر سنائی گئی سزا کے عوض تعمیر کروایا تھا۔جی ہاں! اُس مجرم کا نام جان بالیوئل تھا،اُس پر الزام تھا کہ اُس نے اپنی تقریر اور تحریر سے کئی مواقع پر دہرہم کے بشپ کی دانستہ توہین کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان الزامات پر جان بالیوئل کے خلاف باقاعدہ عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور جرم ثابت ہونے پر اُسے بطور سزا آکسفورڈ میں ایک کالج تعمیر کرنے کو کہا گیا۔ تاکہ جان بالیوئل کے پھیلائے گئے مبینہ فاسد نظریات کا ازالہ،اُس کا تعمیر کردہ کالج طلباء میں علم کی روشنی بکھیر کر کرسکے۔ اچھی بات یہ ہے کہ جان بالیوئل کو سنائی گئی یہ سزا ترویج علم کے لیئے انتہائی نفع بخش ثابت ہوئی اور بیلیول کالج،جس کا قیام 1263 میں ہوا،بلاشبہ آکسفورڈ کا ایک بہترین کالج ثابت ہوا۔ اپنے قیام سے لے کر اَب تک بیلیول کالج نے کئی نامور ادیب، شاعر،اداکارسمیت 3 برطانوی وزیراعظم بھی تیارکیئے ہیں۔ در حقیقت، تمام، آکسفورڈ یونیورسٹی نے 27 برطانوی وزیر اعظم تیار کیے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کالج سے 13، تثلیث کالج سے 3، برسنز کالج سے 2 اور ہارٹ فورڈ، جیسس، سینٹ ہیوگس، سینٹ جانس، سومر ویل اور یونیورسٹی کالج سے ایک،ایک وزیراعظم برطانوی عوام کو مل چکا ہے۔

طلبا نچلی میزوں پر کھانا کھاتے ہیں
آکسفورڈ یونیورسٹی عجیب و غریب روایات کا ایک ایسا انوکھا مقام ہے،جہاں یونیورسٹی کے منتظمین جتنی توجہ معیار ِ تعلیم کو برقرار رکھنے پر دیتے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ خیال قدیم ترین روایات کی پاس داری کا بھی رکھتے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی ایک منفرد اور انوکھی روایت یہ بھی ہے کہ یہاں زیرتعلیم طلباء کے لیئے پروفیسرز اور دیگر ماہرین تعلیم کی بہ نسبت نچلی میزوں پر کھانے کا اہتمام کیا جاتاہے۔جبکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیئے کھانے کے ہال میں بلند مقام پر میزیں سجائی جاتی ہیں۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ اساتذہ کے کھانے کا مینو بھی طلباء کے لیئے ترتیب دیئے گئے کھانے کی مینو سے یکسر مختلف اور انتہائی نفیس ہوتاہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اس قدیمی روایت کی پاسداری آکسفورڈ میں میں موجود تمام کالجز کرتے ہیں، سوائے ایک لناکری کالج(Linacre College) کے۔جی ہاں! لناکری کالج کی پہچان آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک روایت شکن کالج کی ہے۔اس کالج کے منتظمین اپنے ہاں منعقد ہونے والی تقریبات میں طلباء و اساتذہ کے مابین کھانے کی میز پر کسی بھی قسم کی تفریق کے قائل نہیں ہیں اور طلباء اور اساتذہ ایک جیسی میزوں پر بیٹھ کر ایک ہی مینو کے مطابق کھانا تناول کرتے ہیں۔لیکن جب کبھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے مرکزی ڈائننگ ہال میں کھانے کی کوئی تقریب مثلاً،ظہرانہ یا عشائیہ منعقد ہوتا ہے تو پھر لناکری کالج کے طلباء کو بھی اپنے اساتذہ کے مقابلہ میں کھانے کی نچلی میزوں پر بیٹھنے کی روایت کی پابندی کرنا ہوتی ہے۔

آکسفورڈ ٹائم
ماضی میں برطانیہ کے ہر شہر اور اس کے آس پاس کے ہر قصبے کا اپنا مقامی وقت ہوا کرتا تھا۔ جس کے مطابق معمولات زندگی کی ادئیگی کی جاتی تھی۔ لیکن برقی مواصلات اور ذرائع نقل و حمل کی ترقی، خاص طور پر تیز رفتار ریلوے کی آمد کے بعد برطانوی عوام کے لیئے مختلف طرح کے اوقاتِ کار پر عمل پیرا ہونا مشکل سے مشکل تر ہوتاگیا۔یوں آہستہ آہستہ برطانوی عوام کی اکثریت نے 1840 کی دہائی کے اوائل میں ہی لندن میں رائج وقت کا استعمال کرنا شروع کردیا۔ لندن ٹائم کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر 1880 میں حکومتِ برطانیہ نے فیصلہ کیا ملک بھر کے اوقاتِ کار لندن کے وقت کے مطابق تبدیل کردیئے جائیں گے۔ لیکن اس حکومتی فیصلہ کو آکسفورڈ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف تھا کہ چونکہ یہ درس گاہ اپنی روایات کے تحفظ کے معاملہ پر حددرجہ حساس ہے۔لہٰذا آکسفورڈ یونیورسٹی کو لندن ٹائم کی پیروی سے استثنا دیا جائے۔ برطانوی حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی روایات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے اپنا آکسفورڈ ٹائم برقرار رکھنے کی اجازت دے دی۔ یاد رہے کہ آکسفورڈ ٹائم، ملک بھر میں رائج لندن ٹائم سے پانچ منٹ پیچھے ہے اور آج بھی آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبا ء کو درس گاہ کا مرکزی دروازہ بند اور کھلنے کی اطلاع فراہم کرنے کے لیئے کرائسٹ چرچ کی گھنٹی آکسفورڈ ٹائم کے عین مطابق ہی بجائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ میں موجود تمام کالجز میں بھی لیکچرز اور دیگر تقریبات کے لیئے آکسفورڈ ٹائم کے اوقات کار پر ہی عمل کیا جاتاہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں سزائیں
آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کی اُن چند گنی چنی تعلیمی درسگاہوں میں سے ایک ہے، جہاں اَب بھی مختلف اہم مواقعوں پر ”رسمی عشائیوں“ کا باقاعدگی کے ساتھ اہتمام کیا جاتاہے۔مگر یہ عشائیے اس لحاظ سے منفرد اور انوکھے ہوتے ہیں کہ ان میں شریک ہونے والے طلباء کو،کھانے کی میز پر کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے،اس کے بارے میں بہت سخت اُصول موجود ہیں۔مثلاً کھانا کھاتے وقت سیاست پر بات نہیں کی جاسکتی، انگریزی اور لاطینی زبان کا کوئی لفظ غلط نہیں بولا جاسکتا،بہت زیادہ بلند آواز سے قہقہہ لگانا ممنوع ہے اور اپنے ساتھی کے ساتھ بدگوئی یا تحقیر آمیز رویہ کا اظہار نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ کسی بھی اُصول کی خلاف ورزی پر بلاکسی تفریق موقع پرہی سخت سزا بھی دے دی جاتی ہے۔یہ سزا کم یا پھر بہت زیادہ جرمانے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔جبکہ بعض اوقات طلباء کو ہتک آمیز قسم کی غیر معمولی سزا ئیں بھی سنا دی جاتی ہیں۔ جیسے شراب پینے کی سزا وغیرہ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ہر کالج کا طلباء کو سزادینے کا اپنا قاعدہ ہے۔ بعض اوقات طلباء کو گلاس میں شراب پینے کے لیئے کہہ دیا جاتاہے۔نیز کئی بار طلبا ء کو اُن کے اپنے ہی جوتوں میں شراب پینے کی سزا بھی دی گئی ہے۔ جبکہ کچھ طلباء کو اُصول کی خلاف ورزی کی صورت میں دوسروں کے جوتوں میں شراب پینے کی سزا پر بھی عمل کرنا پڑاہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں خواتین کا داخلہ ممنوع تھا
بظاہر آکسفورڈ یونیورسٹی کا نام سن کر بین الاقوامی تعلیمی مساوات اور صنفی برابر کا تصور ہی ہم سب کے ذہن میں آتا ہے،لیکن ماضی میں آکسفورڈ یونیورسٹی ایک انتہائی قدامت پرست اور صنفی تقسیم پر ایمان کی حد تک عمل پیرا ہونے والی یونیورسٹی کی شناخت کی حامل رہی ہے۔ کیونکہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں خواتین کو آنے اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت 1878 تک بالکل بھی نہیں تھی۔حیران کن بات یہ ہے کہ جب پہلی بار آکسفورڈ یونیورسٹی میں خواتین طلباء اور اساتذہ کو شامل کرنے کی بابت بحث کا آغاز ہوا تو صرف یونیورسٹی کی انتظامیہ ہی نہیں بلکہ زیرتعلیم طلباء نے بھی اس رائے کی شدید مخالفت کی۔کئی سال کی جدوجہد اور تحریک کے بعد آخر کار1920 میں آکسفورڈ یونیورسٹی نے طالبات کو بھی ڈگری دینے کی اجازت دی۔لیکن آکسفورڈ یونیورسٹی صرف چند ہی کالج تھے جہاں طالبات کو پڑھنے کے لیئے داخلہ مل سکتا تھااور 1974 میں آکسفورڈ کے تمام کالجوں کو خواتین کو داخلے اور قیام کی اجازت دے دی گئی،مگر محدود نشستوں پر۔ بہرکیف اَب صورت حال کافی حد تک تبدیل ہوچکی ہے اور حالیہ وقت میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طلباء و طالبات انڈر گریجویٹس کی تعداد کم وبیش برابر ہے۔

یہ بھی ضرور پڑھیں: کیو آر کوڈ سے بہتر کچھ نہیں

جہاں داخلہ مشکل ہی نہیں۔۔۔بلکہ ناممکن بھی ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی میں موجود آل سول کالج (All Souls College) اب تک دنیا کا سب سے پُر وقار تعلیمی ادارہ ہے۔کیونکہ اس کالج میں کسی طالب علم کا داخلہ ہوجانا انتہائی مشکل اَمر ہے۔آل سول کالج ہر سال صرف 80 درخواستیں وصول کرتاہے اور جن میں سے فقط 2 طلباء کو کالج میں داخلہ دیا جاتا ہے۔آل سول کالج کا داخلہ امتحان دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں سے ایک شمار کیا جاتاہے۔ یہ امتحان طلباء سے ایک کاغذ پر ہاں یا نہیں کے جوابات کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ اس امتحان میں درخواست دہندگان کو کالج میں داخلہ کے لیئے اپنی تخلیقی، تحقیقی اورمنفرد اندازِ فکر کا زبردست مظاہرہ پیش کرنا ہوتاہے اور ممتحن کے ایک چھوٹے سے سوال کے جواب میں گھنٹوں بحث کرنے کے بعد بھی کسی درخواست گزار کو آل سول کالج میں داخلہ کے لیئے مسترد کردیا جانا ایک عام سی بات ہے۔ اگر خوش قسمتی سے آپ کو آل سول کالج میں داخلہ مل جائے تو پھر آپ جب تک چاہیں اس کالج میں رہ سکتے ہیں۔یہاں داخلہ کا اعزاز حاصل کرنے والے خوش قسمت طالب علم کو بہترین تعلیم،رہائش اور کھانے کے ساتھ ساتھ ہر ماہ 1400 برطانوی پاؤنڈ بھی دیئے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ آل سول کالج آکسفورڈ یونیورسٹی کا سب سے امیر ترین کالج بھی ہے،جس کے اثاثوں کی مالیت 420.2ملین پاؤنڈ ہے۔کہاجاتاہے کہ معروف برطانوی جاسوس لارنس آف عربیہ، اُن خوش قسمت ترین درخواست دہندگان میں ایک تھا،جس نے آل سول کالج میں نمایاں ترین مقام حاصل کیا تھا اور اس نے اپنی زندگی میں جوکچھ بھی حاصل اُسے اسی کالج کے نام سے منسوب کردیا۔ لارنس آف عربیہ کی قبر کے کتبہ پر یہ جملہ آج بھی درج ہے کہ ”فیلو آف آل سول کالج“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں یکم نومبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں