Drought in Sindh

سندھ کی زرعی زمینیں قحط سالی کی زد میں

پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس کی بقاء کا ضامن بھی ہے۔انسان کو پانی کی حاجت صرف پیاس بجھانے کے لیئے ہی نہیں بلکہ اپنی غذا کے حصول میں بھی پانی کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔سندھ میں پینے کے پانی کا مسئلہ اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے سامنے زیرِ سماعت ہے، جس پر اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے چھ ماہ کے لیئے واٹر کمیشن بنا دیا گیا ہے جو شبانہ روز انتہائی تندہی کے ساتھ اس مسئلہ کے حقیقی اسباب و علل جاننے اور پھر اُن کا سدباب کے لیئے کوشاں ہے۔لیکن اب سندھ میں بات پینے کے پانی سے بھی آگے جا پہنچی ہے یعنی المیہ تو یہ ہے کہ سند ھ میں جاری یہ پانی کی بحرانی کیفیت صرف پینے کے صاف پانی تک ہی محدود نہیں رہی ہے بلکہ سندھ کے بیشتر زرعی علاقے بھی پانی کی شدید ترین کمی کی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔سندھ کی آبادی کی اکثریت کا انحصار چونکہ زراعت پر اس لیئے شنید یہ ہی ہے کہ اس بحران کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا تو سندھ کی آباد زرعی زمینیں قحط سالی کا شکار ہوسکتی ہیں۔

اس وقت اندرونِ سندھ کے مختلف علاقوں چاہے وہ شہری علاقے ہوں یا زرعی علاقے پانی کے بحران کا شکار ہیں،ہزاروں ایکٹر زمین بنجر ہو گئی ہے کاشتکاروں نے اپنے آبائی علاقوں اور زرعی زمینوں سے نقل مکانی شروع کردی ہے اس وقت جمڑاؤ کینال میں پانی کی قلت کی وجہ سے 15 ہزار ایکٹر سے زائد زرعی زمینیں بنجر ہو گئی ہیں،تعلقہ جھڈو میں ہزاروں کسان اپنی زمینوں پر پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں کاشت نہیں کرسکے بلکہ اکثر علاقوں میں تو پینے کے لیئے بھی پانی میسر نہیں جبکہ متعدد کسانوں نے روز روز کے فاقوں سے تنگ آکراپنے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیئے اپنی آبائی زرعی زمینوں کو چھوڑ کر شہری علاقوں کی طرف عازمِ ہجرت ہیں۔محکمہ آپ پاشی کی مجرمانہ غفلت اور سندھ حکومت کی بے حسی کے باعث پانی کی کمی کے شکار علاقوں میں بے روز گاری کا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔محکمہ آب پاشی کے جانب سے وارہ بندی ختم ہونے کے باوجود شادی اسمال واہ میں پانی فراہم نہ کرنے اور اس نہر کا پانی قریبی نہر میں چھوڑنے پر شادی اسمال واہ کے کاشت کاروں میں شدید غم و غصہ پھیل گیا۔جس پر کاشت کاروں کی بڑی تعدادنے 76 ریگیولیٹر پر دھرنا دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ آب پاشی کے بدعنوان افسران نے شادی اسمال واہ کے حصے کا پانی بھاری رشوت لے کر بااثر وڈیرے کی زمینوں میں چھوڑ دیاہے، پانی کی شدید قلت کے باعث اس نہر سے متصل 30 ہزار ایکٹر سے زائد زرعی زمین بنجر ہو گئی ہے۔

پانی کی قلت کے خلاف مٹھراؤ کینال ساماروسب ڈویژن کی قبول شاخ،چھتہ شاخ،چھچھ شاخ،بھڑگڑی شاخ اور سامارو شاخ کے کاشت کاروں نے سامارو پریس کلب اور آب پاشی کے دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ”مٹھراو کینال میں پانی کی سطح بلند ہے مگر محکمہ آب پاشی کا عملہ جان بوجھ کر چھوٹی نہروں کے حصے کا پانی ڈائریکٹ واٹر کورسز کے زمینداروں کو بھاری رشوت کے عوض فروخت کر رہاہے،اگر سامارو شاخ میں پانی نہیں چھوڑا گیا تو سندھ بھر میں احتجاجی تحریک کا دائرہ وسیع کیا جائے گا“۔دبنی مائینرکے ٹیل کے سینکڑوں کاشت کاروں نے بااثر زمیندار کے خلاف مظاہرہ کیا جس پر بااثر زمیندار آگ بگولا ہوگیا اور اس نے آب پاشی کے عملے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔گڈو بیراج سے بھل صفائی کے بعد نصیر آباد کی پٹ فیڈر کینال، کیر تھر کینال سمیت دیگر ذیلی شاخوں میں پانی شروع ہونے کے باوجود اب تک ٹیل میں پانی نہیں پہنچ سکاجس کی وجہ سے 500 سے زائد دیہات خشک سالی کا شکار ہوگئے ہیں اوریہاں بھی لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔

جبکہ میہڑ میں یہ صورت حال ہے کہ رائس کینال، جس سے میہڑ تحصیل کی لاکھوں ایکٹر زرعی زمینیں سالہا سال سے آباد ہوتی تھی اور یہاں چاول کی شاندار فصل کی بوائی کی جاتی تھی مگر اس سال رائس کینال اور اس سے نکلنے والی چھوٹی بڑی 50 سے زائد شاخوں گل محمد واہ،ککول واہ،راج واہ، کھوندی شاخ سمیت دیگر شاخوں میں زرعی پانی کی شدید قلت ہے۔اکثر شاخوں میں تو پانی نہ ہونے کی وجہ سے مٹی اُڑ رہی ہے۔شاخوں میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے اس سال ہزاروں ایکٹر زرعی زمینیں آباد نہیں ہوسکیں جس کی وجہ سے آباد گاروں اور کسانوں کو چاول کی فصل کاشت نہ کرنے سے کروڑوں روپے کے نقصان کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔
سب سے مستحسن بات تو یہ ہے کہ سندھ حکومت زراعت میں پانی کی کمی کے مسئلہ پر سپریم کورٹ کے ایک اور سو موٹو ایکشن یا لوگوں کے شدید احتجاج کا انتظار کیئے بغیر پانی کے بحران کے خاتمہ کا کچھ تدارک کرے۔ وگرنہ دوسری صورت اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ یہ مسئلہ بھی سپریم کورٹ نہ چلا جائے جو یقینا پاکستان پیپلزپارٹی کے لیئے نیک شگون نہیں ہوگا۔آخر کار پاکستان پیپلز پارٹی اپنے آپ کو غریب عوام کی نمائندہ جماعت قرار دیتی ہے اور گزشتہ 8 سالوں سے سندھ کی بلا شرکتِ غیرے حکمران ہے۔آئندہ انتخابات میں جانے سے پہلے اگر سندھ حکومت پانی کی بحران پر ہی قابو پا لے تو شاید اسے لوگوں سے ووٹ مانگنے میں آسانی ہوسکے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 08 فروری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

سندھ کی زرعی زمینیں قحط سالی کی زد میں” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں