Tik Tok and 100 Problem

ایک “ٹک ٹاک” سو افسانے

ٹیکنالوجی کی تیزی سے بدلتی ہوئی جدید دنیا میں ٹک ٹاک سماجی رابطوں کی ویب سائٹس میں ایک نمایاں ترین مقام کی حامل اپلی کیشن ہے۔ جسے گزشتہ دہائی کی 7 مقبول تیرین ایپس کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ستمبر 2016ء میں چینی کمپنی بائٹ ڈانس نے ”ڈوئن“ کے نام سے اس ویڈیو شیئرنگ ایپ کو متعارف کروایا تھا۔اس ایپ نے چین میں زبردست کامیابی حاصل کی اور صرف ایک سال میں اس کے صارفین کی تعداد 10 کروڑ سے متجاوز ہوگئی تھی۔جبکہ روزانہ ایک ارب سے زیادہ صارفین ٹِک ٹاک پر ویڈیوز کو دیکھتے تھے۔چین میں مقبولیت کی آخری حدوں کو چھونے کے بعد ستمبر 2017ء میں ”ڈوئن“ کو ٹِک ٹاک کے نام سے دنیا بھر میں متعارف کروادیا گیا۔ ابتدا میں ٹِک ٹاک عالمی صارفین کی اپنی جانب زیادہ توجہ مبذول نہ کرواسکی لیکن جب اس ایپ کے منتظمین نے معروف ترین ایپ”میوزیکلی ڈاٹ لائن“ کو ایک بلین ڈالر کی خطیر رقم میں خرید کر اسے ٹِک ٹاک کا باقاعدہ حصہ بنادیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ٹِک ٹاک دنیا بھر میں مقبولیت کے نئے سنگ میل عبور کرنے لگی۔ سال 2018 میں دنیا کے 800 ملین سے زائد صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا جبکہ اسی برس صرف امریکا میں اس ایپ کو 80 ملین سے زائد افراد اپنے موبائل فونز کا باقاعدہ حصہ بناچکے تھے۔ ”سینسر ٹاور“کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2019ء کی آخری سہ ماہی میں ایپ اسٹور اور گوگل پلے سے اس کو ڈاؤن لوڈ کیے جانے کی تعداد ڈیڑھ ارب سے متجاوز ہوچکی تھی۔ نیز یہ ایپ دنیا کی75 مختلف زبانوں میں بھی دستیاب ہے۔صرف یہ ہی نہیں ماہانہ صارفین کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے ٹِک ٹاک نے سماجی رابطوں کی معروف ترین ویب سائٹس،ٹوٹٹر،سنیپ چیٹ، فیس بک اور یوٹیوب کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: قاتل آن لائن ویڈیو گیم سے ذرا بچ کے

ٹِک ٹاک اپلی کیشن کا ویڈیو شیئرنگ کی دوسری سروسز سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس ایپ پر بنائی جانے والی ویڈیوز بہت مختصر ہوتی ہیں اور یہ ہی سہولت اسے دوسری تمام اپلی کیشن سے ممتاز بھی بناتی ہے۔یادر ہے کہ ٹِک ٹاک کے ذریعے صرف 15 سیکنڈ اور 60 سیکنڈ دورانیے کی مختصر سی ویڈیو بنائی جاسکتی ہے۔ البتہ صارفین کے پاس یہ انتخاب بھی ہوتا ہے کہ وہ 15 سیکنڈ اور 60 سیکنڈ سے کم دورانیے کی بھی ویڈیو بنا سکتے ہیں لیکن وہ ایک منٹ کی حد کوعبور نہیں کرسکتے۔ نیز ٹِک ٹاک پر بنائی جانے والی ویڈیو کلپس میں صارف کو صرف ہونٹ ہلانے ہوئے کچھ ایسی حرکتیں کرنا ہوتی ہیں جو دیکھنے والوں کو ویڈیو کی جانب متوجہ کرکے پسندیدگی کی سند دینے پر مجبور کرسکے۔یاد رہے کہ ٹک ٹاک پر پندرہ سیکنڈ کی زیادہ تر ویڈیو کلپس لپ سنک گانوں،فلمی یا ٹی وی شوز کے ڈائیلاگ، ذو معنی جملے، نیم عریاں لباس کی نمائش اور کئی بار تخلیقی مواد بھی مشتمل ہوسکتے ہیں۔ٹک ٹاک کے بار ے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابتداء میں اس اپلی کیشن کو مقبول بنانے کے لیئے جنسی جملوں کے تبادلہ اور فحش لباس و حرکتوں کے اظہار کے لیئے پیشہ ور خواتین سے ویڈیوز بنوا کر شیئر کی گئی تھیں۔بعد ازاں ان اخلاق باختہ ویڈیوز سے متاثر ہوکر عام نوجوان لڑکے،لڑکیاں بھی اس میں ملوث ہوگئے۔بہرکیف آپ ٹک ٹاک کو پسند کریں یا اس سے نفرت کریں،مگر اس اپلی کیشن کی عالمگیر مقبولیت سے انکار ہر گز نہیں کیا جاسکتاہے۔خاص طور پر ٹک ٹاک،اَب تک جتنے زیادہ تنازعات کا شکار ہوچکی ہے،اُس کی عشر عشیربدنامی بھی دنیا ئے انٹرنیٹ کی کسی دوسری اپلی کیشن کے حصہ میں نہیں آئی۔ مگر کہتے ہیں ناکہ ”بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا“۔ یہ ہی کچھ ٹک ٹاک کے ساتھ بھی ہے کہ ہر نیا تنازعہ اس اپلی کیشن کی مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کر جاتا ہے۔زیر نظر مضمون میں ٹِک ٹاک کے کچھ اہم ترین اور بدنام زمانہ تنازعات کا اجمالی سا تذکرہ پیش کیا جارہا ہے تاکہ آپ جان سکیں کہ ٹِک ٹاک کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے والے درست ہیں یا پھر اس ایپ سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے والے صحیح ہیں۔ بقول شاعر
مانیں نہ مانیں، آپ کو یہ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائیں دیتے ہیں

غریب،بدصورت اور معذور افراد کے لیئے شجرِ ممنوعہ
ٹِک ٹاک پر ویڈیوز بنا کر شیئر کرنے والوں کو ٹک ٹاکرز کہا جاتاہے اور جو ٹک ٹاکر ز اس اپلی کیشن پر زبردست مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔انہیں ”ٹک ٹاک اسٹار“ قرار دے دیا جاتاہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے ہر ٹک ٹاک اسٹار خوب صورت، کامیاب اور مضحکہ خیز امیر ہی کیوں نظر آتاہے؟۔جبکہ غریب،بدصورت اور معذور افراد ٹک ٹاک اسٹار کے منصب پر کبھی بھی نہیں پہنچ پاتے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ٹک ٹاک نے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے، اس امر کا خصوصی بندوبست فرمادیا ہے کہ ایک غریب، بدصورت اور جسمانی نقائص کے حامل شخص کی ویڈیو، از خود ہی ٹک ٹاک کے پلیٹ فارم سے ختم ہوجائے تاکہ ٹک ٹاک ہمیشہ چمکتا،دمکتا اور پرکشش ہی دکھائی دیتا رہے۔ اس بات کا انکشاف معروف نیوز سائٹ ”دی انٹر سیپٹ“میں شائع ہونے والی ایک خصوصی دستایزی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔رپورٹ میں درج مندرجات کے مطابق ٹک ٹاک کے منتظمین نہ صرف اپلی کیشن پر ڈالی جانی والی ویڈیوز کو سنسر کرتے ہیں بلکہ وہ ویڈیو بنانے والے صارفین کے پرکشش ہونے کی درجہ بندی بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر معمولی شکل و صورت، چھوٹے قد کے بونے،یا بہت زیادہ موٹا پاکی جانب مائل،یا جھریاں زدہ چہرے والے افراد کی بنائی گئی ویڈیوز کو یہ ایپ خودکار انداز میں خارج کردیتی ہے۔ نیز کچی آبادیوں اور خستہ حال مکانات میں فلمائی گئی ویڈیوز کو بھی ٹک ٹاک ایپ کی فیڈ سے فوری طور پر ہٹا دیا جاتاہے۔ جبکہ اس کے برعکس خوب صورت اور پرکشش افراد کی بنائی گئی ویڈیوز، خاص طور پر مہنگے گھروں،گاڑیوں اور پرآسائش جگہوں پر عکس بند ویڈیوز کو ٹک ٹاپ کی فیڈ میں غیر معینہ مدت تک سرفہرست رکھا جاتاہے تاکہ یہ ویڈیو زیادہ سے زیادہ صارفین تک رسائی حاصل کرسکے۔ خوب صورت اور بدصورت،امیر اور غریب کی تفریق اس لیئے ٹک ٹاک پرروا رکھی جاتی ہے کہ تاکہ نئے صارفین ”ٹک ٹاک اسٹار ز“ سے سحر میں گرفتار ہوکر زیادہ سے زیادہ اپنا وقت ٹک ٹاک پر صرف کر سکیں۔

ٹک ٹاک چیلنج
ٹک ٹاکرز کی جانب سے ایسی ویڈیوز کلپس بنا کر ٹک ٹاک پر شیئر کرنا عام سی بات ہے۔جس میں صارفین کو مشکل ترین کام مکمل کرنے کا چیلنج دیا جاتاہے۔ ویسے تو کسی اچھے کام کی ترغیب دینے یا مزاح کے لیئے چیلنج دینے کے عمل کو ہرگز معیوب عمل قرار نہیں دیا جاسکتالیکن اگر ”ٹک ٹاک چیلنج“ کے باعث کسی شخص کی جان جانے یا مستقل معذوری پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہوجائے،تو ایسی ٹک ٹاک چیلنج ویڈیوز کسی بھی معاشرہ کے لیئے قابلِ قبول نہیں ہوں گی۔واضح رہے کہ ٹک ٹاک چیلنج کے تحت بنائی جانے والی اکثر ویڈیوز کلپس صارفین کے لیئے انتہائی خطرناک ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ٹک ٹاک پر ”کھوپڑی توڑ چیلنج“ ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہا ہے۔مگر بدقسمتی سے ”کھوپڑی توڑ چیلنج“ کی وجہ سے بے شمار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ برطانیہ میں ایک نوعمر صارف ”کھوپڑی توڑ چیلنج“ قبول کرنے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی میں لگنے والی شدید چوٹ کے بعد زندگی بھر کے لیئے جسمانی معذوری کا شکار ہوچکاہے۔نیز امریکہ میں اس چیلنج کو قبول کرنے والے ایک نوعمر صارف کو دماغی چوٹیں آئی ہیں۔وائرل ہونے والی یہ”ٹک ٹاک چیلنج ویڈیو“دو افراد کی ہے جو ہدف کے دونوں جانب کھڑے ہیں اور جب وہ چھلانگ لگاتے ہیں تو اپنی ٹانگیں ایک دوسرے کے نیچے سے گھماتے ہیں جس سے ان کے سر کا پچھلا حصہ فرش کے ساتھ ٹکراتا ہے اور ایک نوجوان کی کھوپڑی واقعی ٹوٹ جاتی ہے۔

علاوہ ازیں امریکی ریاست اکلاہوما میں ایک 15 سالہ لڑکی چلوئے فلپس بھی ٹک ٹاک ویڈیو چیلنج کو پورا کرنے کے دوران موت کی وادی میں چلی گئی۔ٹک ٹاک چیلنج کو پورا کرنے کے لیے فلپس نے بلاضرورت ہی الرجی کی بے تحاشہ گولیاں کھالیں تھیں اوربعد ازاں یہی گولیاں اس کی موت کا سبب بن گئیں۔ فلپس کی ہلاکت کے بعد اُس کی خالہ جینیٹ سیسی لیزر نے فیس بک پر تنبیہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ’’اپنے بچوں پر نظر رکھیں بصورت دیگر”ٹک ٹاک چیلنج“کا حد سے زیادہ استعمال آپ کے پیاروں کے لیے خطرناک ہوسکتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ جس کرب سے ہم گزرے ہیں۔ غم و اندوہ، کا وہ پہاڑ کسی دوسرے خاندان کے اوپر نہ ٹوٹے۔ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں وہ دوسرے شخص کو جو کرتا ہوا دیکھتے ہیں اسی کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ان کے لیے صحیح کیا اور غلط کیا ہے“۔
ٹک ٹاک چیلنج کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے حوالے سے ٹک ٹاک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ”صارفین کی سلامتی ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم اپنی ایپ پر ایسے مواد کی اجازت نہیں دیتے جس سے ان خطرناک چیلنجوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو یا ان کی نقل اتاری جاتی ہو یا جن سے چوٹ لگنے کا اندیشہ ہو۔کیونکہ ہم بھی نہیں چاہیں گے کہ ہمارے صارفین،ان کے دوست و احباب وغیرہ ”ٹک ٹاک چیلنج“ کے تحت ویڈیو بناتے ہوئے یا کسی خطرناک سٹنٹ انجام دیتے ہوئے زخمی ہوجائیں۔لہٰذا اگر صارفین کی جانب سے ہمیں ایسی ویڈیوز کے بارے میں مطلع کیا جائے تو ہم ایسے مواد کو فوری طور پر ٹک ٹاک فیڈ سے ہٹا دیتے ہیں“۔

ٹک ٹاک اسٹار ز جیل میں
اکثر ٹک ٹاک اسٹار زیادہ سے زیادہ افراد کواپنا فالورز بنانے کے لیئے غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ ہی وہ نام نہاد ٹک ٹاک اسٹار ہیں جن کی غلط حرکتوں کی وجہ سے وقتا فوقتا دنیا بھر میں ٹک ٹاک پر پابندی لگتی رہتی ہے۔ لیکن مصر کی حکومت نے غیر اخلاقی اور متنازعہ ویڈیوز پر ٹک ٹاک ایپ پر پابندی لگانے کے بجائے،ایسے ٹک ٹاک اسٹار پر مقدمات قائم کرنے کا انوکھا اقدام متعارف کروایا ہے۔جس کی مطابق جو ٹک ٹاک اسٹار بھی مصر میں رائج عوامی اخلاقیات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اخلاق باختہ ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے میں ملوث پایا جاتاہے،اُس پر فی الفور مقدمہ قائم کرکے گرفتار کرلیا جاتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تک مصر میں 7 خواتین ٹک ٹاک اسٹار ز کو غیر اخلاقی ویڈیو زبنانے کے الزام میں جیل بھیجا جاچکا ہے۔

مصر کی عدالت نے جولائی 2020 میں پانچ خواتین ٹک ٹاک اسٹارز کو غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے کا الزام ثابت ہونے پر 2، 2 سال قید کی سزا بھی سنا دی تھی۔اس مقدمہ میں قاہرہ کی اقتصادی عدالت نے حنین حسام، مواضہ العظام اور تین دیگر خواتین کو مصری معاشرے میں رائج اقدار کی خلاف ورزی کرنے والی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے جرم میں نہ صرف دو سال قید کی سزا سنائی بلکہ ہر ٹک ٹاک اسٹار خاتون پر 3 لاکھ مصری پاؤنڈ (18،750 ڈالر) جرمانہ بھی عائد کردیاتھا۔خیال رہے کہ حنین حسام کو اپریل میں ایک ویڈیو کلپ ٹک ٹاک پر پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا جس میں اُس نے اپنے 13 لاکھ فالوورز کو بتایا تھا کہ لڑکیاں ٹک ٹاک پر اُن کے ساتھ شامل ہوکر اجنبیوں سے بات کرکے کیسے بھاری رقم کما سکتی ہیں۔اس ویڈیو کے منظر عام آنے کے بعد حنین حسام پر دھوکہ دہی اور انسانی اسمگلنگ کی عام لوگوں کو ترغیب دینے کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ دیگر تین خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا تھا،جن کے نام میڈیا کو نہیں بتائے گئے۔ جبکہ مئی میں مصری حکام نے مواضہ العظام کو بھی گرفتار کیا تھا۔جس نے ٹک ٹاک پر مصری تہذیب کا مذاق اُڑانے والی طنزیہ ویڈیوز شائع کی تھیں، جنہیں ان کے کم از کم 20 لاکھ فالورز نے ملاحظہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ مصر میں عوامی دباؤ پر کئی برسوں سے خواتین گلوکاروں اور رقاصاؤں کے اخلاق باختہ آن لائن ویڈیوز پر کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے۔گزشتہ برس بھی مصر کی ایک عدالت نے ٹک ٹاک پر ڈانس کی ویڈیو شائع کرنے کے بعد بیلی ڈانسر سما المصری کو سوشل میڈیا پر ”دھوکا دہی“پر اکسانے پر تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ مصری عوام کی جانب سے ٹک ٹاک اسٹارز کو عدالت کی جانب سے ملنے والی سزاؤں اور جرمانہ کے فیصلہ پر خوب پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔کیونکہ مصری عوام کی اکثریت یہ بھی سمجھتی ہے کہ ٹک ٹاک اسٹارز کو ملنے والی سزاؤں کے بعد ٹک ٹاک پر متنازعہ اور غیر اخلاقی ویڈیوز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔مصری حکومت کا یہ کامیاب تجربہ بتاتا ہے کہ اگر منفی ذہنیت رکھنے والے ٹک ٹاک اسٹار ز کی حوصلہ شکنی کے لیئے کوئی موثر قانونی نظام العمل متعارف کروادیا جائے تو ٹک ٹاک کے مضر اثرات کو ختم کرکے اسے عام صارفین کے لیئے نفع بخش بھی بنایا جاسکتاہے۔

مزید پڑھیں: آن لائن گیمز سے اپنا کیرئیر بنائیں

جنگ میں ٹک ٹاک کا کردار؟
دنیا بھر میں جنگی تنازعات میں واضح برتری حاصل کرنے کے لیئے یا اپنے حریف شکست دینے کے لیئے کسی بھی چیز کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ”جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے“۔پس! آج کل جنگ کے میدان میں برتری کے لیئے سوشل میڈیا کو بھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے۔ جون 2020 میں چینی افوج نے وادی لداخ میں لائن آف ایکچوئیل کی سرحد پرکارروائی کرتے ہوئے 20 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا تھا۔ بہتر تو یہ تھا کہ جس میدان میں چین نے بھارت کو جنگ کا چیلنج دیا تھا، اُسے مقام پر بھارت کی جانب سے چین کو جواب بھی دیا جاتا۔لیکن چونکہ بھارتی افواج،چینی افواج کے مقابلہ میں عسکری صلاحیت اور طاقت میں ابھی طفل مکتب ہے۔اس لیئے بھارت نے اپنے فوجیوں کی ہلاکت کا جواب جنگ کے میدان میں بہادری سے دینے کے بجائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں دینے کا مضحکہ خیز فیصلہ کرتے ہوئے 59 چینی فون ایپس پر پابندی عائد کردی، جس میں ٹک ٹاک بھی شامل ہے۔مودی حکومت نے بھارت میں انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی تمام ٹیک کمپنیوں کو ایک سرکاری حکم نامہ کے ذریعے پابند کردیا ہے کہ”وہ ملک بھر میں 59ایپس، خاص طور پر ٹک ٹاک تک بھارتی صارفین کی رسائی کوناممکن بنادیں اور اس حکم نامہ کی خلاف ورزی کرنے والی ٹیک کمپنیوں پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں گے“۔یہ اقدام بھارتی حکام نے چینی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیئے اُٹھایا کیونکہ ٹک ٹاک امریکا اور چین کے بعد سب سے زیادہ بھارت میں ڈاؤن لوڈ اور استعمال کی جاتی ہے۔

مسائل موسیقی اور اُن کا حل
موسیقی کو اگر ٹک ٹاک ایپ کی جان کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ کیونکہ ٹک ٹاک اپنے صارفین کو ویڈیو کلپس میں نت نئی موسیقی شامل کرنے کی جتنی زیادہ آزادی دیتاہے۔سرِ دست ایسی سہولت اور آزادی انٹرنیٹ پر موجود کسی دوسری ایپلی کیشن میں دستیاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کئی گمنا م صارفین ٹک ٹاک پر اپنی اچھوتی اور تخلیقی موسیقی کا جادو جگانے کے بعد بطور موسیقار عالمگیر شہرت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ٹک ٹاک پر موسیقی پیش کرنے والوں اور موسیقی کا استعمال کرنے والوں کی جانب سے ٹک ٹاک کو مختلف طرح کے قانونی مسائل کا سامنا بھر کرنا پڑتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اپریل 2020 نیشنل میوزک پبلشرز ایسوسی ایشن (این ایم پی اے) نے ٹک ٹاک کو بین الاقوامی موسیقی کے کاپی رائٹ قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر عدالت لے جانے کا اعلان کرکے ٹک ٹاک انتظامیہ کو شدید مشکلات اور پریشانی میں مبتلاء کردیا تھا۔این ایم پی اے کا موقف تھا کہ ”جو بھی موسیقی ٹک ٹاک پر استعمال کی جاتی،اُس موسیقی کے خالق موسیقاروں کو ٹک ٹاک کی جانب سے رائلٹی کی مد میں کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔یہ طرز عمل بین الاقوامی موسیقی کے تحفظ کے لیئے بنائے گئے کاپی رائٹ قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے“۔

عین ممکن تھا کہ یہ مقدمہ ٹک ٹاک ایپ کے سنہری مستقبل کو خطرات کے گہرے بادل میں گھیر کر مکمل طور پر تاریک کردیتا کہ ٹک ٹاک انتظامیہ نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتاہوئے نیشنل میوزک پبلشرز ایسوسی ایشن سے ایک معاہدہ کرلیا۔جس کے مطابق ٹک ٹاک ہر اُس گیت لکھنے اور موسیقی ترتیب دینے والے کو ادائیگی کرے گا جسے کی موسیقی یا گیت ٹک ٹاک پر استعمال کیئے جائیں گے۔ لیکن اس معاہدہ کی رو سے فقط وہی موسیقار اور نغمہ نگار استفادہ کرسکیں گے،جن کے تخلیقی مواد کو بین الاقوامی کاپی رائٹ ایکٹ کی جانب سے باقاعدہ تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اَب ٹک ٹاک پر موجود تمام موسیقی کو استعمال کنندگان کے لیئے قانونی بنا دیا گیا ہے۔ صرف یہ ہی نہیں ٹک ٹاک موسیقی کے میدان میں اپنی دیگر حریف کمپنیوں کمپنیوں سپوٹیفائی اور ایپل میوزک کے مقابلے میں میوزک سٹریمنگ سروس متعارف کرنے کی منصوبہ بندی بھی مکمل کرچکی ہے۔فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کی مطابق ٹک ٹاک کی مالک کمپنی ”بائٹ ڈانس“ ٹک ٹاک کے صارفین کو مفت اور تیز ترین میوزک سٹریمنگ کی سہولت مہیا کرنے کے لیئے معروف سٹریمنگ کمپنی ”مارلن“ کے ساتھ معاہدہ طے پاگیا ہے۔اگرچہ بائٹ ڈانس نے اپنی نئی سٹریمنگ سروس کو تاحال کوئی نام نہیں دیا ہے تاہم یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ویڈیو سپورٹ سروس ہو گی جس کو ممکنہ طور پر ٹک ٹاک میں ہی ضم کیا جا سکتا ہے۔فی الحال ٹک ٹاک اپنے نئے میوزک سٹریمنگ پلیٹ فارم کو برازیل، بھارت اور انڈونیشیا جیسی ابھرتی ہوئی منڈیوں کے لیے لانچ کیا جائے گا لیکن جلد ہی اسے امریکہ اور یورپ میں بھی متعارف کروایادیاجائے گا۔

ٹک ٹاک پرلاشیں ہی لاشیں
فروری 2020 میں ٹک ٹاک پر #randonauticaکے نام سے ایک ہیش ٹیگ کا آغاز ہوا تھا،جس میں ٹک ٹاکرز اپنی روزمرہ زندگی پر مشتمل مختصر ویڈیوز بناکر شیئر کرتے تھے۔چونکہ اسی دوران کورونا بھی پوری شدت کے ساتھ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکاتھا۔لہٰذا #randonautica کے ہیش ٹیگ کے تحت بنائی جانے والی ویڈیو کلپس کی اس لیئے ٹک ٹاک انتظامیہ نے حوصلہ افزائی کرنا شروع کردی کہ اس طرح قرنطینہ میں صارفین اپنی روزمرہ مصروفیات سے دوست احباب کو آگاہی فراہم کرسکیں گے۔لیکن #randonautica ہیش ٹیگ کے تحت امریکی ریاست واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ایک صارف انسانی باقیات سے بھرے ہوئے سوٹ کیس کی ویڈیو ٹک ٹاک پر پوسٹ کرکے ٹک ٹاک انتظامیہ کے لیئے سنگین مسائل کھڑے کردیئے۔ واضح رہے کہ جس ٹک ٹاک صارف نے اس متنازعہ ویڈیو کو فلمایا،اُس کا نام اوہنری ہے۔اس کا کہنا ہے کہ ”ہم چند دوست اپنی روزمرہ معمولات کی ویڈیو ٹک ٹا ک کے لیے بنارہے تھے واٹر فرنٹ کے ایک پرانے علاقہ میں ایک سوٹ کیس ملا،ہم نے سمجھا کہ اس میں پیسے یا کوئی قیمتی چیز ہوگی،لیکن میں سے انسانی اعضاء کی باقیات نکلیں، جسے دیکھ کر ہم سب دوست خوف زدہ ہوگئے“۔ ٹک ٹا ک پر وائر ل ہونے والی اس ویڈیو کلپ میں ایک لڑکی کو یہ بھی کہتے سنا گیا کہ اسے کھول دو، اس میں سے بدبو آرہی ہے۔بعدازاں یہ ہی لڑکی ویڈیو کلپ میں 911 پر پولیس کو فون کرتی ہے، اور حکام جائے وقوعہ پر پہنچ کر تحقیقات کا آغاز کردیتے ہیں۔اس ویڈیو کے وائر ل ہونے کے بعد ٹک ٹاک پر #randonautica کے ہیش ٹیگ کے تحت مجرمانہ ویڈیو کلپس کاایک طوفان آگیا اور صارفین اپنی ویڈیوز کو وائرل بنانے کے لیئے دھڑا دھڑ انسانی لاشوں کی ویڈیوز پوسٹ کرنے لگے۔ان ویڈیوز کی وجہ سے مختلف حلقوں کی جانب سے ٹک ٹاک انتظامیہ ہدف ِ تنقید بناتے ہوئے مطالبہ کیا جانے لگا کہ وہ اس طرح کی ویڈیوز کو ٹک ٹاک سے فوری طورپر ہٹائے۔سخت عوامی دباؤکے باعث ٹک ٹاک پر سے اس قبیل کی تمام ویڈیوز کلپس کو ہٹادیا گیا اور #randonautica کے ہیش ٹیگ کے تحت ویڈیو ز کلپس پوسٹ کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جن ویڈیو ز کو ٹاک ٹاک نے اپنی فیڈ سے ہٹادیا تھا وہ تمام ویڈیوز کلپس،یوٹیوب پر ملاحظہ کے لیئے بدستور موجود ہیں۔

یہ بھی ضرور پڑھیں: کمپیوٹر کی تعلیم

ٹِک ٹاک کا پاکستان میں مستقبل؟
تنقید اور تنازعات میں گھری ایپ ٹک ٹاک کا پاکستان میں آغاز تو بہت اچھا ثابت ہوا اور مختصر کی مدت میں ملک بھر میں ٹک ٹاک صارفین کی تعداد دوکروڑ سے بھی تجاوز کرگئی۔جبکہ روز بروزٹِک ٹاک کے صارفین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا تھااوربے شمار افراد ٹِک ٹاک پر تفریح کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی ضرورت کو بھی پورا کررہے تھے کہ اچانک ہمارے ہاں بھی چند نام نہاد ٹِک ٹاک اسٹار ز نے پاکستانی روایات اور اخلاقیات کے برخلاف انتہائی اخلاق باختہ اور گھٹیا انداز کی ویڈیو زبنا کر ٹِک ٹاک پر شائع کرنا شروع کردیں۔جس کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے اس ایپ پر موجود مواد کے خلاف شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں۔ جس پر کارروائی کرتے ہوئے ملک بھر میں ٹِک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی۔تاہم چین کی معروف ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک کی انتظامیہ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے حکام کے درمیان ایپ کی بحالی کے لیے فوری مذاکرات کا آغاز کردیااور حوصلہ افزاء اطلاعات یہ ہیں ٹِک ٹاک کی انتظامیہ پاکستان میں رائج قوانین اور اخلاقی رسم و رواج کی پاسدادی اورمواد کی بہتر نگرانی کے لیئے ملک کے مختلف حصوں میں مقامی زبانوں میں اپنا عملہ تعینات کرنے پر راضی ہوچکی ہے۔جس کے بعد پاکستان بھر میں ٹِک ٹاک کو ایک بار پھر سے مشروط طورپر بحال کردیا گیا ہے۔ٹِک ٹاک کی پاکستان میں مشروط بحالی اشارہ کرتی ہے کہ بہت جلد ٹِک ٹاک ایپ میں ضروری تبدیلیاں کردی جائیں گی اور بھی عین پاکستانی،روایات،اخلاقیات اور معیار کے مطابق۔یعنی ٹِک ٹاک کا پاکستان میں مستقبل شاندار ہے لیکن اس کے لیئے یہ بھی لازم ہے پاکستانی ٹِک ٹاکرز بھی اپنی ویڈیوز ٹِک ٹاک پر پوسٹ کرتے ہوئے اخلاقیات،روایات اور احتیاط کا دامن کا سختی سے تھام کر رکھیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں 08 نومبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں