Oil-prices-down-fall

تیل دیکھیں۔۔۔ یا تیل کی دھار دیکھیں؟

اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی زبانی برسوں سے سنتے آئے ہیں کہ پانی زندگی ہے اور یقینا اِس جملہ کی صداقت میں کوئی شک بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر گفتگو جدید دنیا کی معیشت سے متعلق شروع کی جائے گی تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہماری دنیا کی جدید معیشت کی زندگی صرف اور صرف تیل کی مرہونِ منت ہے۔ ڈالر کی ساری اُڑان، عربوں کا سار ا مان اور ہولناک ہتھیاروں کی ساری جان جس طوطے کے جسم میں قید ہے،اُس کا نام تیل ہے۔شاید اِسی لیئے تیل کو دنیا بھر میں بلیک گولڈ یعنی کالا سونا بھی کہا جاتاہے حالانکہ یہ الگ بات ہے کہ بے چارے سونے کی قیمت کا تعین بھی تیل پر ہی منحصر ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے عالمی مہاجنوں کے نزدیک تیل عالمی معیشت کے لیئے سونے سے بھی کہیں زیادہ قدرو قیمت کا حامل ہے۔شومئی قسمت آج کل یہ ہی تیل شدید ترین گراوٹ اور مندی کا شکار ہے۔ تیل کی قیمتوں میں کمی تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک اور روس کے درمیان جاری چپقلس کو قرار دیا جارہا ہے۔ اوپیک اور روس کے مابین تیل پر ہونے ہونے والی اِس مخاصمت کے نتیجے میں صرف ایک ہفتہ میں 30 فیصد تک تیل کی قیمتیں کم ہوچکی ہیں۔جبکہ ماہرین معیشت کو خدشہ ہے کہ تیل کی بے قدری کا ابھی صرف آغاز ہوا ہے اور کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اِس کا اختتام کہاں پر جاکر ہوگا۔ بعض تجزیہ نگار تو اِس صورت حال کو قیمتوں کی ایک ایسی عالمی جنگ بھی قرار دے رہے ہیں،جس کا فاتح شاید کوئی نہ ہو لیکن مفتوح ضرور عالمی معیشت ہی ہوگی۔

اوپیک اور روس کی لڑائی کے علاوہ کورونا وائرس کا عالمی پھیلاؤ بھی مستقبل میں تیل کی قیمتوں میں خطرناک حد تک گرواٹ کا باعث بن سکتاہے۔ کورونا وائرس کے خوف کے باعث عالمی سیاحت کی صنعت مکمل طور پر بند ہوچکی ہے،جس کی وجہ سے دنیا کی بڑی بڑی فضائی کمپنیوں نے اپنے تمام ترمسافر طیارے گراؤنڈ کردیئے ہیں جبکہ دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے غیراعلانیہ لاک ڈاؤن کی سی کیفیت ہے۔اس کے علاوہ ہر ملک نے اپنی سرحدیں پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی نقل و حمل کے لیئے بند کردی ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا بھر میں اِس وقت صرف زمینی اور فضائی ہی نہیں بلکہ بحری پہیہ بھی کلیتاً جام ہوچکا ہے۔ اِیک محتاط اندازے کے مطابق اِس عالمی پہیہ جام ہڑتال سے تیل کی طلب میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوچکی ہے اور اگر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی یہ کیفیت چند ماہ تک مزید ایسے ہی قائم رہ گئی تو ہوسکتاہے کہ شاید دنیا بھر میں کسی کو تیل کی ضرورت ہی نہ رہے۔دنیا بھرمیں تیل کی طلب ختم ہونے سے تیل پانی سے بھی ارزاں ہوسکتاہے۔ واضح رہے کہ تیل کی سانس کے ساتھ ہی ڈالر کی جان بھی جڑی ہوئی ہے یعنی جیسے جیسے تیل کی قیمتی سانسیں اُکھڑتی جائیں گی ویسے ویسے عالمی مارکیٹ میں ڈالر کے قدم بھی لڑکھڑاتے جائیں گے۔



تماشا ملاحظہ ہو کہ ساری دنیا تیل کی قیمتوں میں زبردست گرواٹ سے پریشان ہے لیکن ہم پاکستانی تیل کی قیمتیں کم ہونے پر خوشی سے شادیانے بجارہے ہیں اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا تو تیل کی قیمتیں کم ہونے پر وفورِ کیف سے بھنگڑے ڈالتے ہوئے حکومت ِ پاکستان سے مطالبہ کررہاہے کہ وہ فوری طور پر پاکستان میں بھی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کردے۔ جبکہ اپوزیشن جماعتیں صبح و شام تحریک ِ انصاف کی حکومت کو طعنے دے رہی ہے کہ کتنے دن ہوگئے ہیں عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوئے لیکن حکومت نے ابھی تک پاکستان میں پیٹرول و ڈیزل وغیرہ کی قیمت کم نہیں کی۔ اپوزیشن کے بیانات پر اَب تو عوام بھی حکومت سے پوچھنے لگے ہیں کہ آخر کیوں حکومت پیٹرول کی قیمت کم نہیں کر رہی ہے۔ پیٹرول کی یہ وہ آگ ہے جو ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے بھڑکائی ہوئی ہے بغیر یہ سوچے سمجھے کہ کیا واقعی حکومتِ پاکستان کے لیئے یہ ممکن ہے کہ وہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کم ہونے کے بعد اگلے دن ہی پاکستان میں بھی پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت کو کم کردے؟۔

ہمارے خیال میں فوری طور پر ایسا کرنا کسی بھی حکومت کے لیئے بالکل بھی ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ پاکستان کے پاس خام تیل کا ذخیرہ 45 دن کا ہوتا ہے۔یعنی اِس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں جو پیٹرول اور ڈیزل عام فروخت کے لیئے دستیاب ہے وہ آج سے 45دن پہلے کی قیمت پر خریدا ہوا ہے اور عالمی مارکیٹ میں تیل کی جو آج قیمت خرید ہے۔اِس پر خریدا ہوا تیل پاکستانی مارکیٹ میں پیٹرول پمپس پر پیٹرول اور ڈیزل کی شکل میں کم ازکم 45 دن بعد فروخت کے لیئے دستیاب ہوگا۔ کیونکہ عالمی مارکیٹ سے خریدے ہوئے خام تیل کو آئل ریفائنری تک لے جانے اور پھر اُس سے پیٹرول اور ڈیزل بنا کر پیٹرول پمپس تک پہنچانے میں 45 روز کا عرصہ تو درکار ہوتا ہی ہے۔ یہ وہ اہم ترین بات ہے جو ہمارا الیکٹرانک میڈیا کبھی بھی ہماری عوام کو نہیں بتاتا،حالانکہ بتانی چاہیئے کیونکہ میڈیا کی کوئی بھی صنف ہو بہرحال اُس کا اصل کام درست حقائق اور مسائل کو عوام تک پہنچانا ہوتا ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے ہمیشہ سے ہی عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم ہوتی قیمتوں پرجلتی ہوئی سنسنی خیز خبریں ہی نشرکی ہیں۔بلاشبہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی زبردست گرواٹ سے پاکستان کی کمزور و نحیف معیشت کی سانسیں ضرور بحال ہوسکتی ہیں لیکن فوری طور پر ملک بھر میں پیٹرول آدھی قیمت پر ملنا شروع ہوجائے گا، ایسے سبز باغ پاکستانی عوام کو دکھانا شاید کسی بھی طور کوئی مناسب طرزِ عمل نہیں ہے۔وہ مشہور ضرب المثل تو آپ نے ضرور سنی ہی ہوگی کہ سب سے پہلے تیل دیکھواور تیل کی دھار دیکھو۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 19 مارچ 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں