Nursing in Sindh

شعبہ نرسنگ سندھ حکومت کی عدم توجہ کا شکار کیوں؟

اس دورِ جدید میں جہاں ہر شخص یا ادارہ اپنے نام نہاد مفادات کے حصول کے لیئے خودساختہ دنیا میں بری طرح مگن ہے، وہیں ایک شعبہ ایسا بھی ہے جو لوگوں کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتا ہے اور وہ شعبہ نرسنگ کا ہے۔شعبہ صحت میں نرسنگ کو ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے پاکستان میں نرسنگ کے شعبہ کی بنیاد بیگم رعنا لیاقت علی خان نے رکھی تھی نرسنگ وہ شعبہ ہے جو ہر مذہبی،گروہی یالسانی تعصب سے بالا تر ہو کرکسی بھی مریض کے زخموں پر مرہم رکھنے اور اس کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شعبہ ابھی تک اپنے حقیقی مقام اور اہمیت سے محروم نظر آتا ہے۔ کسی بھی حکومت نے اس شعبہ پر اپنی نظرِ التفات ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ مضمون بھی پڑھیئے: سندھ میں ممکنہ بڑی گرفتاریاں

یہ ہی کچھ صورت حال سندھ میں بھی نظر آتی ہے،سندھ حکومت کتنا اس شعبہ کی اہمیت کا ادراک رکھتی ہے اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس وقت سندھ بھرمیں صرف 59 کے قریب نرسنگ کے اسکول اور کالجز ہیں مگر ان میں بھی کافی عرصہ سے پرنسپل کی 28 اور وائس پرنسپل کی 14 آسامیاں خالی ہیں یعنی نرسنگ اسکول اور کالجز بغیر پرنسپل کے کام کر رہے ہیں۔پرنسپل کی اسامیاں 18 اور 19 گریڈ کی ہیں لیکن محکمہ صحت تعلیم و تدریس کے اس بنیادی شعبہ کو بھی ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چلا رہی ہے۔اس کے علاوہ سندھ بھر کے نرسنگ اسکولوں اور کالجوں میں کلینیکل و نرسنگ انسٹرکٹروں کی بے شمار آسامیاں بھی خالی پڑی ہیں اس وقت سندھ میں کلینیکل انسٹرکٹروں کی تعداد 110 اور نرسنگ انسٹرکٹروں کی تعداد 108 ہے لیکن ان 218 انسٹرکٹروں کو بھی گریڈ 18 میں ترقیاں نہیں دی جارہیں جس کی وجہ سے نرسنگ اسکولوں اور کالجوں میں انسٹرکٹروں کی شدید کمی ہے۔سندھ میں انسٹرکٹروں کی آخری ترقیاں 2004  میں کی گئی تھیں اس وقت سے لے کر اب تک گریڈ 17 کے کلینکل انسٹرکٹر اور نرسنگ انسٹرکٹر اپنی اگلے گریڈ میں ترقیوں سے بدستور محروم چلے آرہے ہیں۔ محکمہ صحت کی عدم دلچسپی اور من پسند افراد کی تعیناتیوں کی وجہ سے شعبہ نرسنگ کا انتظامی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے۔

اس پر مزید یہ کہ سیکریٹری صحت سندھ نے سابق سیکریٹری کی جانب سے ہٹائی جانے والی سیاسی اثرورسوخ کی حامل کلینکل انسٹرکٹر محترمہ خیرالنساء کو ایک بار پھر ناظم امتحانات سندھ نرسنگ بورڈ تعینات کر دیا جبکہ ڈپٹی اور اسسٹنٹ کنٹرولر کی نشستوں پر بھی ناتجربہ کار اور سفارشی انسٹرکٹر ز کو تعینات کر دیا۔ ذرائع کے مطابق 2014 میں سندھ پبلک سروس کمیشن کے تحت کالج آف نرسنگ جامشورو کے کلینکل انسٹرکٹر کے لیئے مشتہر کی گئی آسامی پر جناح اسپتال کراچی کی اسٹاف نرس خیرالنساء کا انتخاب کی گیا تھا۔لیکن انہوں نے کالج جانے اور طلبا ء کو پڑھانے کے بجائے سیاسی اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا عہدہ حاصل کر لیا اور کچھ عرصہ بعد 2015  میں سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ناظم امتحانات سندھ نرسنگ ایگزامینیشن بورڈ تعینات ہو گئی جس کے بعد سابق سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر سعید احمد منگنیجو نے انہیں ناظم امتحانات کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے واپس محکمہ صحت میں رپورٹ کرنے کا کہا۔مگر خیرالنساء نے اسکول آف نرسنگ کورنگی نمبر 5 وائس پرنسپل کی نشست حاصل کر لی اور اب ایک بار پھر انہیں ناظم امتحانات تعینات کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب خیرالنساء کے ساتھ ہی اسکول آف نرسنگ کورنگی نمبر 5 میں خدمات سرانجام دینے والے نرسنگ انسٹرکٹر عطا حسین راجپر کو ڈپٹی کنٹرولر تعینات کر دیا گیا ہے۔ یہاں بات بھی ذہن نشین رہے کہ حال ہی میں پیپلز نرسنگ ایسوسی ایشن کے نام سے ایک نرسنگ تنظیم بنائی گئی ہے جس کی صد ر بھی محترمہ خیرالنساء اور نائب صدر عطاء حسین راجپر ہی ہیں۔ایک ہی تنظیم کے دو عہدیداروں کو بالترتیب نرسنگ امتحانی بورڈکا کنٹرولر اور ڈپٹی کنٹرولر تعینات کرنا حیرت انگیز بات ہے۔ جبکہ ان کی تعیناتی سپریم کورٹ کے احکامات کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

اس سلسلے میں جب سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو سے وضاحت طلب کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ وہ نرسنگ امتحانی بورڈ کے چیئرمین حال ہی میں بنے ہیں اور نرنسنگ امتحانی بورڈ کے نئے قوانین ترتیب دے رہے ہیں جب تک نئے قوانین ترتیب نہیں دیے جاتے عارضی طور یہ تمام افسران اپنے اپنے عہدوں پر بدستور تعینات رہیں گے اور جیسے ہی نئے قوانین مرتب ہو جائیں گے محترمہ خیرالنساء یا اس جیسے دیگر افسران کو واپس کالج آف نرسنگ بھیج دیا جائے گااور اہل افسران کو ان کی جگہ پر مستقل طور پر تعینات کر دیا جائے گا۔

نرسنگ شعبہ سے وابستہ ماہرین اور زیرِ تعلیم طالب علموں کا اصرار ہے کہ ایڈہاک ازم کی وجہ سے نرسنگ شعبہ پہلے ہی پستی کا شکار ہے اور اب حکام بالا کی من پسند تعیناتیوں نے شعبہ نرسنگ کے بنیادی ڈھانچہ کو مزید تہہ و بالاکر کے رکھ دیا ہے جس کی وجہ سے تدریسی عمل شدید متاثر ہو رہا ہے سندھ کے تقریباً تمام نرسنگ اسکولوں اور کالجوں میں بغیر پرنسپل اور وائس پرنسپلز کے انتظامی امور درہم برہم ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے نرسنگ طالب علموں کے امتحانی نتائج 10 ماہ کی تاخیر کے باوجود بھی جاری نہیں کیئے جاسکے ہیں جبکہ ضمنی امتحانات بھی التوا کا شکار ہیں۔

ہم اُمید کرتے ہیں کہ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اس معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو یہ احکامات فی الفور جاری فرمائیں گے کہ وہ شعبہ نرسنگ کی درس و تدریس میں حائل مسائل اور رکاوٹوں کو میرٹ اور ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا شعار بنائیں تاکہ اس شعبہ سے وابستہ افراد دکھی انسانیت اور درد و کرب میں مبتلا مریضوں کی بہتر طور پر خدمت اور نگہداشت کر سکیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 3 اگست 2017 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں