Nawaz Sharif And Zehri

زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد،ن لیگ کے سیاسی قلعہ میں دراڑ

بلوچستان اسمبلی میں ثناء اللہ زہری کے خلاف کامیاب سیاسی تحریک عدم اعتماد نے جہاں میاں محمد نوازشریف کی غلط سیاسی حکمت عملیوں اور ترجیحات کو بری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے وہیں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کے اس دعوی کو ایک بار پھر سے درست ثابت کردیا ہے کہ مشکل ترین سیاسی بساط پر بھی،چاہے کیسے ہی ناموافق سیاسی حالات کیوں نہ ہوں اُن سے بہتر بروقت سیاسی چال کوئی نہیں چل سکتا۔ بلوچستان میں حاصل ہونے والی اپنی اس غیر متوقع سیاسی کامیابی پر آج کل آصف علی زرداری بے حد نازاں دکھائی دے رہے ہیں اور اگر بہ نظر غائر جائزہ لیا جائے تو اُن کی یہ خوشی کوئی اتنی بے معنی اور بے وجہ بھی نہیں ہے کیونکہ جس طرح انہوں نے بلوچستان اسمبلی میں قابلِ قدر سیاسی طاقت نہ رکھنے کے باوجود بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پوری وفاقی حکومت کو بری طرح ناکامی سے دوچار کردیا اور ناکامی بھی ایسی کہ جسے خود میاں محمد نوازشریف کی ذاتی مداخلت بھی وقوع پذیر ہونے سے روک نہ سکی۔حالانکہ آخر وقت تک ہر طرف سے یہ ہی آوازیں اور تجزیے سننے کو مل رہے تھے کہ نواز شریف بلوچستان کے اس بحران پر قابو پالیں گے۔لیکن تمام تر تجزیوں اور نوازشریف کی سر توڑ کوششوں کے برعکس ثنا ء اللہ زہری اپنی کرسی بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے گو کہ کئی سیاسی تجزیہ کار بلوچستان کی اس کامیاب سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے پیچھے ”نادیدہ قوتوں“ کو قرار دے رہے ہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تمام مرکزی قیادت بلوچستان میں وزیراعلی کی تبدیلی کا اصل ذمہ دار اور سہولت کار صرف پاکستان پیپلزپارٹی کو قرار دے رہی ہے اور خود آصف علی زرداری بھی نواب شاہ کے جلسہ عام میں خوشی خوشی بلوچستان اسمبلی میں قائدایوان کی تبدیلی کا سہرا اپنے سر پر سجا لیتے ہیں تو پھر اس کا مطلب سندھ کے سیاسی حلقوں میں کچھ اور کیوں نہ نکالا جائے۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ سندھ بھر میں پاکستان پیپلزپارٹی بلوچستان کی اس تمام تر سیاسی صورتحال کے نتائج کو اپنے حق میں ”بطور سیاسی ہتھیار“ کے استعمال کر رہی ہے۔پیپلزپارٹی کی وہ تمام مخالف سیاسی قوتیں جو سندھ میں آنے والے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف ایک متحدہ محاذ تشکیل دینے میں مصروف تھیں اُن کی کوششوں کو بھی اس واقعہ سے سخت دھچکہ پہنچا ہے اور پیپلزپارٹی سے علحیدگی کا سوچنے والے پیپلزپارٹی کے بہت سے وہ متوقع باغی رہنما اور اراکین جو آنے والے دنوں میں تحریک انصاف اور پیر پگار کی جماعت سے سیاسی وابستگی استوار کرنے کا سوچ رہے تو انہوں نے بھی دوبارہ سے اپنے پرانے سیاسی فیصلوں پر نظرِ ثانی کرنے کا کام شروع کردیاہے۔اُن کے سیاسی اذہان میں اب یہ سوال کلبلانے لگا ہے کہ جب آصف علی زرداری نے بلوچستان میں کوئی سیاسی وزن رکھنے کے باوجود بھی وہاں کی پوری کی پوری سیاسی بساط کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے تو پھر یہ تو سندھ کے سیاسی حالات ہیں جہاں گزشتہ دس سالوں سے پیپلزپارٹی بلاشرکتِ غیرے حکمران بھی چلی آرہی ہے تو یہاں کے سیاسی حالات میں اتنی بڑی سیاسی و حکومتی طاقت رکھنے والی جماعت کو سیا سی طور پر شکست دینا کیا کسی کے لیئے ممکن ہوگا؟آصف علی زرداری کی حالیہ سیاسی اُٹھان کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب یقینا انکار میں دیا جاسکتا ہے۔پھر جس طرح آصف علی زرداری نے بلوچستان کے سیاسی قلعہ میں اپنی فتح مندی کا جھنڈا لہرانے کے بعد اب تختِ لاہور کو وزیراعلی شہباز شریف اور وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا ء اللہ کا تختہ بنانے کے لیئے لاہور میں علامہ طاہرالقادری کے ساتھ پنجاب میں سیاسی پڑاؤ ڈال دیا ہے اس نے تو سندھ میں پیپلزپارٹی مخالف سیاسی قوتوں کی رہی سہی اُمیدوں کو بھی خطرے سے دوچار کردیا ہے کیونکہ یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر آصف علی زرداری نے علامہ طاہرالقادری کی مدد سے تختِ پنجاب کو بھی زمین بوس کردیا تو پھر آنے والے سیاسی منظر نامہ میں وہ اپنی جماعت کے لیئے اتنا سیاسی حصہ ”سیاسی مالِ غنیمت“ کی شکل میں تو ضرور حاصل کر ہی لیں گے جس سے اُن کا”سندھ کا راج سنگھاسن“ اگلے پانچ سال کے لیئے مزید محفوظ ہو جائے۔
آصف علی زرداری کی سیاسی دور اندیشی کا اندازہ صرف اس ایک بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا اولین سیاسی مقصد صرف اورصرف سندھ میں اپنا سیاسی اثرورسوخ برقرار رکھنا ہے لیکن اس کے لیئے وہ اپنی تمام سیاسی حکمت عملیاں بلوچستان اور پنجاب کی سیاسی سرزمین پر ترتیب دے رہے ہیں۔اُن کے سیاسی مخالفین اُن کے سیاسی اہداف و مقاصد کو سمجھنے میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں جبکہ وہ اپنی پے درپے سیاسی کامیابیوں سے اپنی سندھ حکومت کے لیئے مسلسل سیاسی و انتظامی آسانیوں کا بندوبست کرتے جارہے ہیں۔ایسی ہی ایک بڑی سیاسی آسانی انہوں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جگہ عبدالمجید دستی کو بطور نیا آئی جی سندھ تعیناتی کا تقرر نامہ وفاق کے دستخطوں کے ساتھ حاصل کر کے اپنے دامن میں سمیٹ لی ہے حالانکہ اس آسانی کو سپریم کورٹ نے دوبارہ سے مشکل میں بدل دیا لیکن اس کے باوجود بھی غور کرنے والی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو یہ تقرر نامہ اُس وقت دیا ہے جب پیپلزپارٹی کی ذاتی کاوشوں سے اُن کی جماعت بلوچستان میں سیاسی بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہو گئی تھی لیکن اتنی بڑی حریفانہ کارروائی کر کے بھی آصف علی زرداری مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت سے اپنی پسند کا حکمنامہ لینے میں صرف اس لیئے کامیاب ہوگئے کہ اب کی بار ان کے پاؤں کے نیچے پورا کا پورا تختِ لاہور آیا ہوا ہے جسے بچانے کے لیئے وفاقی حکومت وہ سب کچھ دینے کو تیار ہے جو آصف علی زرداری مانگنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن آصف علی زرداری فی الحال اپنی زبان سے کچھ بھی ارشاد نہیں فرمارہے حالانکہ پوری مسلم لیگ (ن) اُن کے مطالبات کی فہرست سننے کے لیئے اور انہیں من و عن پورا کرنے کے لیئے پوری طرح ہمہ تن گوش ہے۔مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ آصف علی زرداری اپنی ”سندھ حکومت کے تابناک مستقبل“ کا سودا اتنی آسانی سے اور عجلت میں طے کرنے والے نہیں ہیں بلکہ اُن کی کوشش ہو گی کہ کسی طرح تخت پنجاب کی جنگ پوری طرح اپنے آخری لمحات تک چلی جائے تاکہ اُن کا سودا بھی طے ہوجائے اور تخت پنجاب کا تختہ بھی بن جائے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 25 جنوری 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں