Sher Ura

شیر اُڑا۔۔۔!

مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے ہونی والی ضمانت نے ملک بھر میں مختلف قسم کی افواہوں کا بازار گرم کردیا ہے۔خاص طور پر سوشل میڈیا پر متوالے اور کھلاڑیوں کے درمیان ایک گھمسان کا مقابلہ جاری ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ کھلاڑی ہوں یا متوالے دونوں ہی اپنے اپنے سیاسی قائدین کی محبت و عقیدت میں سچ کے بجائے جھوٹ کے تیز دھار آلات سے ایک دوسرے سے نبرد آزماہیں۔ جس کی وجہ سے سوشل میڈیا جھوٹی خبروں اور افواہوں کی زبردست آماجگاہ بن چکا ہے۔جہاں ایک طرف مریم بی بی کے حامی لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سچ اور حق کی جیت قرار دے رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب تحریک انصاف کے کھلاڑی ڈیل اور ڈھیل کی دہائیاں دے رہے ہیں۔ متوالوں اور کھلاڑیوں کی اِس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان اُن سادہ لوح عام لوگوں کا ہورہا ہے جو سوشل میڈیا کو خبر رسانی کا ذریعہ سمجھ کر اِس پر پوسٹ ہونے والی جھوٹی خبروں کو سچ سمجھ لیتے ہیں۔اِن حالات میں جھوٹ اور افواہوں کے درمیان میں سے سچ نکال کر اُسے عام عوام تک پہنچانے کی سب سے بڑی ذمہ داری پرنٹ میڈیاکے مضبوط اور مستند ترین ادارتی بورڈ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ خبروں اور تجزیوں پر سے الیکٹرانک میڈیا کی چڑھائی گئی غیر ضروری سنسنی اور سوشل میڈیا کے زہر آلود جھوٹے ملمع کو کھرچ کر اپنے قارئین کو مصدقہ اور مستند ترین تجزیے و خبر تک پہنچنے میں مدد دے۔

اگر بہ نظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو مریم نواز کی لاہور ہائی کورٹ سے ہونے والی ضمانت کو ایک معمول کی کارروائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔ جس میں عدالت کے معزز جج نے فقط اُن حقائق و واقعات کا جائزہ لیا ہے جو اُس کے سامنے نیب اور مریم نواز کے وکلاء کی جانب سے پیش کیئے گئے۔ عدالت نے مریم نواز کو ضمانت ضرور دی ہے لیکن جن شرائط کے ساتھ اِس ضمانت کو جاری کیا گیا وہ تمام شرائط کیس میں اختیار کیئے گئے نیب کے موقف کو ہی تقویت پہنچاتے ہیں اور مریم نواز کو ضمانت ملنے کے باوجود بھی اِس بات کا پابند بناتے ہیں کہ وہ عدالت کے علم میں لائے بغیر بیرونِ ملک نہیں جاسکتیں۔ عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلہ کا یہ ہی وہ بنیادی نقطہ ہے جو اِس بات کی کلیتاً نفی کرتاہے کہ عدالت کہیں بھی شریف خاندان کی طرف سے ہونے والی ڈیل یا ڈھیل کی کوششوں میں براہ راست ملوث ہے۔ اس لیئے جو لوگ بھی مریم نواز کی ضمانت کے فیصلہ پر اظہارخیال فرماتے ہوئے عدالت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اُنہیں اپنے رویہ پر سنجیدگی کے ساتھ نظرِ ثانی کرنی چاہئے۔



جہاں تک میاں محمد نواز شریف کی علاج کی غرض سے بیرونِ ملک روانگی کا تعلق ہے تو اِس واقعہ کو پاکستانی سیاست میں ”طبی نظریہ ضرورت“ کے طور پر لیا جارہا ہے کیونکہ تحریک ِ انصاف کی حکومت ہو یا پھر نیب کوئی بھی میاں محمد نوازشریف کی علاج کے حوالے سے ”سیاسی رسک“ لینے کو تیار نہیں ہے۔ شاید اِسی لیئے جیسے جیسے میاں محمد نوازشریف کی بیماری شدید تر ہوتی گئی ویسے یسے اُن کے بیرونِ ملک جانے کی راہیں بھی آسان سے آسان تر ہوتی گئیں لیکن میاں صاحب کی تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود میاں صاحب کے ہمراہ اُن کی سیاسی جانشین محترمہ مریم نواز کا بیرونِ ملک روانہ ہونے کا بندوبست ممکن نہ ہوسکا۔ کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کے پاس مریم نواز کا پاسپورٹ موجود ہے اِس لیئے مریم نواز کو بیرونِ ملک سفر کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے لازماً اجازت درکار تھی،اِس قانونی رکاوٹ کو دور کرنے میں کچھ وقت درکار اُمید ہے کہ جیسے ہی یہ قانونی رکاوٹ دور ہوگی مریم نواز بھی اپنے والد بزرگوار کی خدمت کے لیئے پہلی دستیاب فلائیٹ سے بیرونِ ملک روانہ ہوجائیں گی۔جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے ذرائع کے حوالوں سے یہ خبریں بھی زیرِ گردش ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو مسلم لیگ ن کی صدارت اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے سے فی الفور ہٹانا چاہتے ہیں اور میاں صاحب بضد ہیں کہ وہ شہباز شریف کے جگہ شاہد خاقان عباسی کو لائے بغیر وہ پوری طرح سے صحت یاب نہیں ہو پائیں گے۔بظاہر یہ خبر بھی حقائق سے یکسر برخلاف معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر بالفرض محال اِس خبر کو ایک لمحہ کے لیئے درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف کی سیاسی وراثت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ شہباز شریف کی سیاسی اور غیر سیاسی کوششوں کی وجہ سے ہی آج میاں محمد نواز شریف کو بیرونِ ملک جاکر علاج کروانے کی ڈھیل اور ڈیل دی جارہی ہے۔

بہر حال ایک بات طے ہے کہ مریم نواز نے رہائی ملنے کے بعد جس طرح سے مولانا فضل الرحمن کے بار بار اُکستانے کے باوجود بھی خود کو سیاست میں عملی طور پر متحرک نہ ہونے کی پالیسی پر کاربند رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔اِس سے تو یہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی سیاسی رائے کو بالآخر میاں محمد نوازشریف یعنی شیر اور مریم نواز نے بھی من و عن قبول کرلیا ہے اور اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی کی اپنی پرانی سیاست سے ایک ایک قدم کرکے پیچھے ہٹنا شروع ہوجائے گی۔اگر ایسا ہوگیا تو یہ مسلم لیگ ن کی سیاست کے لیئے بڑا ہی نیک شگون ہوگا۔ہم تو ویسے بھی ایک سے زائد بار اپنی اِس رائے کا اعادہ کرچکے ہیں کہ صرف شہباز شریف کا نظریہ سیاست ہی مسلم لیگ ن کو اقتدار کی راہ داریوں میں کسی نہ کسی حد تک واپس لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 14 نومبر 2019 کے شمارے میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں