Murad-Ali-Shah-cm-sindh

وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کے امکانات ختم ہوگئے۔۔۔؟

کیا ستم ہے کہ یہاں ذرا سی دیر کے لیئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری کی خبریں میڈیا کے اُفق سے غائب ہونا شروع ہوتی ہی ہیں کہ وہیں اچانک کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوجاتاہے کہ سندھ کے سیاسی منظرنامے پر وزیراعلیٰ سندھ کے گرفتار ی کی خبریں پھر سے اخبارات میں نمایاں سرخیوں میں شائع ہونا شروع جاتی ہیں۔ اِس باربھی کچھ ایسا ہی ہو ا ہے۔ بظاہر میڈیا پر راوی گزشتہ چند دنوں سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے لیئے عیش ہی عیش لکھ رہا تھا اور اِن کی گرفتاری کے خبروں کی جگہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے اور اُن کی متوقع گرفتاری کی خبروں نے لے لی تھی۔جس کے بعد عام لوگ یہ ہی سمجھ رہے تھے جب تک مولانا فضل الرحمن کا دھرنا مکمل طور پر کامیاب یا پھر ناکام نہیں ہوجاتا اُس وقت تک نیب کی طرف سے سندھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ ضروری یا غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے حتی الواسع حد تک اجتناب برتا جائے گا۔

یہ رائے اِس لیئے بھی قرین قیاس لگتی تھی کہ ایک خفیہ خبر کے مطابق مولانا فضل الرحمن اپنے دھرنے کا آغاز کراچی سے ٹرین مارچ کی صورت میں کرنا چاہتے ہیں اور اِسے روکنے کے لیئے وفاقی حکومت کو وزیراعلیٰ سندھ کی ڈھکی چھپی مدد بہر صورت درکار ہے۔اِس لیئے یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وفاقی حکومت وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کر کے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے اہم ترین جز یعنی ٹرین مارچ کو پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں کا ایندھن بھی مہیا کردے۔مگر نیب کی طرف سے وزیر اعلی سندھ کے مشیر جیل خانہ جات سندھ اعجاز جاکھرانی کے گھر پر اچانک چھاپے نے سارے تجزیوں کو اُلٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے اور سندھ میں ایک بار پھر سے چہ مگوئیوں کا آغاز ہوگیا ہے کہ کہیں یہ چھاپہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی کی گرفتاری کے لیئے راہ ہموار کرنے کا نقطہئ آغاز تو نہیں ہے۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ فی الحال نیب کے ہاتھوں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی فوری گرفتاری نیب کے لیئے بھی کوئی اتنا سہل کام نہیں ہوگا۔ خاص طور پر اُس وقت جبکہ وزیراعلیٰ سندھ تفتیشی کارروائیوں میں نیب سے بھرپور تعاون کررہے ہوں اور نیب کے بلانے پر اُس کے رو برو پیش ہونے میں غیر ضروری حیلے بہانوں سے کام بھی نہ لے رہے ہوں۔اِس لیئے مجھ ناچیز کی رائے تو یہ ہی ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کو گرفتار کرنے سے پہلے نیب کو اپنے تفتیشی ہوم ورک کا بھی ازسرِ نو جائزہ ضرور لینا چاہئے کیونکہ اَب تک دیکھنے میں یہ ہی آیا ہے کمزور الزامات اور نامکمل تفتیشی رپورٹ کی بنیاد پر کی جانے والی بڑی گرفتاری،ہمیشہ نیب کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔جبکہ احتساب عدالت میں میں ملزم کا ریمانڈ لینے میں بھی نیب کے پراسیکیوٹرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔



اُس پر طرفہ تماشہ یہ ہوتا ہے کہ احتساب عدالت کی کارروائی کی خبریں جب میڈیا تک پہنچتی ہیں تو پھر سیاسی جماعتیں اِن خبروں پر خوب مرچ،مصالحے لگا کر نیب کی کردار کشی کے لیئے بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیتی ہیں۔یہ صورت حال اُس وقت مزید بھیانک رُخ اختیار کرلیتی ہے جب ٹاک شوز میں نیب کے لتے لینے والے تو موجود ہوتے ہیں لیکن نیب کے جائز دفاع کے لیئے کوئی بھی موجود نہیں ہوتا۔ اِس کا سب سے زیادہ نقصان اُس عام ناظر کے ذہن پر مرتب ہوتا ہے جو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کرسیاست دانوں کی زبان سے نیب کی یک طرفہ برائیاں سُن رہا ہوتاہے۔ نیب کے چیئرمین جناب جسٹس ریٹائر جاوید اقبال کو اِس پہلو پر بھی فوری توجہ دیتے ہوئے کوئی نہ ایسی راہ ضرور نکالنی چاہئے جس سے الیکٹرانک میڈیا پر رات آٹھ بجے کے بعد نیب کی کردار کشی کرنے جیسے مذموم عمل کی کوئی روک تھام کی جاسکے۔

دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ میں نیب کو مسلسل متحرک رکھنے کا تمام تر سہرا بھی سندھ حکومت کے سر ہی بندھتا ہے۔یعنی سندھ میں آئے روز کوئی نہ کوئی کرپشن یا مالی بے ضابطگی کا اسکینڈل کسی خود رو پودے کی طرح اپنا سر نکال کر سب کے سامنے آجاتا ہے کہ آخر اِس پر کارروائی کے لیئے نیب کو متحرک ہونا ہی پڑتا ہے۔ حال ہی میں میڈیا پر جاری کی گئی ایک سرکاری دستاویز میں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے بعد انتظامی خامیوں اور سرکاری وسائل کے بے دریغ استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔سرکاری دستاویز کے مطابق سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی110گاڑیاں محکمہ ایکسائز میں رجسٹرڈ جبکہ 10گاڑیاں پرائیوٹ نمبرز پر رجسٹرڈ کرائی گئی ہیں جو قانون کے برخلاف ہے، اسمبلی سیکریٹریٹ کی34سرکاری گاڑیاں موجودہ و سابق ارکان سندھ اسمبلی کے زیر استعمال ہیں جو من پسند ارکان کو نوازی گئیں ہیں، سندھ اسمبلی میں تاحال صرف 16 قائمہ کمیٹیاں موجود ہیں اور قواعد کے تحت قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینز کو ہی سرکاری گاڑی کے استعمال کا استحقاق ہے، کئی سابق وموجود ہ ارکان سندھ اسمبلی نے تاحال سرکاری گاڑیاں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کو واپس نہیں کی۔

دستاویز میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ25گاڑیاں سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کے افسران کے زیر استعمال ہیں جبکہ 5گاڑیاں اسپیکر،ڈپٹی اسپیکراور اپوزیشن لیڈر کو الاٹ کی گئی ہیں۔جبکہ سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی 46گاڑیاں گمشدہ ہیں جو غیر قانونی طور پر استعمال کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کی دس سے پندرہ گمشدہ گاڑیاں ایسی ہیں جن کی ایف آئی آر مبہم اور غلط ہیں، سندھ اسمبلی سیکریٹریٹ کے اسٹاف کو الاٹ کی گئی گاڑیوں میں بھی کئی افسران وملازمین کو خلاف ضابطہ گاڑیاں دی گئی ہیں جبکہ استحقاق رکھنے والے بعض افسران کے پاس سرکاری گاڑیاں موجود ہی نہیں ہیں۔دستاویز میں دل دہلادینے والا یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ سندھ اسمبلی کے ٹرانسپورٹ افسر کے بقول ان کے پاس الاٹ کی گئی سرکاری گاڑیوں کی تفصیلی فہرست دستیاب نہیں ہے۔جیسا کہ میں نے مضمون کے شروعات میں لکھا تھا کہ جب بھی ہم وزیراعلی سندھ کی گرفتاری کو فراموش کرنا چاہتے ہیں اچانک کوئی نہ کوئی ایسی دستاویز منہ کھول کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ جس کے بعد ہمیں ایک بار پھر سے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری کا تذکرہ کرنا پڑ ہی جاتاہے۔لیکن خاطر جمع رکھیئے کہ میں اپنے مضمون کا اختتام کسی بھی صورت وزیراعلیٰ سندھ کی گرفتاری کی خبر پر کرنے والا نہیں ہوں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں