Bilawal Bhutto Nawaz Sharif

بلاول، نواز راضی ۔۔۔ پھر کیا کرے گا ماضی

ڈاکٹر مرل کنڈٹ ایک مایہ ناز نیورو سائنٹسٹ ہیں اور آج کل یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم میں بطور پروفیسر اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ڈاکٹر مرل کنڈٹ کا آبائی وطن ہالینڈ ہے اور انہیں دنیا بھر کے معروف سائنسی اداروں میں انسانی دماغ پر تحقیق کرتے ہوئے کم و بیش 30 سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے۔اب تک ڈاکٹر صاحبہ اپنے موضوع پر بین الاقوامی معیار کے بے شمار تحقیقی مضامین سمیت کئی کتابیں بھی لکھ چکی ہیں۔جبکہ انسانی دماغ کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھانے کے لیئے انہوں نے کچھ نئے سائنسی اُصول و نظریات بھی وضع کیئے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاکٹر مرل کنڈٹ کی وجہ شہرت نہ تو اُن کے لکھے گئے تحقیقی مضامین ہیں اور نہ ہی اُن کے پیش کردہ نئے سائنسی نظریات بلکہ اُن کی بنیاد ی شناخت ایک ”گولی“کی ایجاد ہے۔جی ہاں! صرف ایک ”گولی“ کی ایجاد نے ڈاکٹر مرل کنڈٹ کو دنیا بھر میں اپنے ہم عصر نیوروسائنٹسٹ کے مقابلے میں ایک نمایا ں مقام عطا کردیا ہے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر یہ ”گولی“ ہے کس مرض کی دوا۔ تو جناب عرض یہ ہے کہ ڈاکٹر مرل کنڈٹ کی ایجاد کردہ گولی کھا کر کوئی بھی انسان اپنی تلخ یادوں سے چند لمحوں میں چھٹکارا حاصل کرسکتاہے۔یعنی صرف ایک ”گولی“ماضی کی ہر بُری یاد کو ذہن کے نہاں خانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے کھرچ دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ کو بچپن کی تلخ یادوں کے باعث مکڑی سے ڈر لگتا ہے تو یہ گولی کھانے کے بعد مکڑی سے متعلق آپ کے تمام اندیشے،خوف اور بُری یادیں مٹ جائیں گی اور آپ مکڑی کو اپنا دیرینہ دوست سمجھنے لگ جائیں گے۔

کیا ہمارے ملک کے سیاست دانوں کے نزدیک ”سیاسی مفاد“ بھی ایک ایسی گولی کی مانند ہے جس کی مدد سے ماضی کے تمام تر تلخ حادثے،سانحے اور تجربات کسی حرفِ غلط کی طرح یکسر مٹا دینے یا فراموش کردینے کی کوشش کی جاسکتی ہو۔سوچنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی کوٹ لکھپت جیل میں ہونے والی ملاقات بھی اِن دونوں سیاسی رہنماؤں کے خیا ل میں کہیں مشترکہ”سیاسی مفاد“کی ایک ایسی ہی”سیاسی گولی“ تو نہیں ہے۔جس کو ایک بار نگلنے سے پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے مابین ماضی میں رونما ہونے والے تمام تر تلخ یادیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے دونوں جماعتوں کے ”کارکنان“ کے اذہان سے مٹ جائیں گی اور گزشتہ تین دہائیوں سے سیاسی طور باہم برسرِ پیکار رہنے والے سیاسی کارکنان یک لخت وفورِ محبت کے جذبات سے مغلوب ہوکر ایک دوسرے کے صدقے واری جاکر آپس میں شیر و شکر ہوجائیں گے۔ اگر ایسا واقعی ہوجاتا ہے توپھر کم از کم ہم بھی یہ کہنے میں ضرورحق بجانب ہوں گے کہ ڈاکٹر مرل کنڈٹ کی ایجاد کردہ یادداشت مٹانے والی”سائنسی گولی“ کے مقابلے میں ہمارے سیاستدانوں کی طرف سے تخلیق کردہ ”سیاسی گولی“ زیادہ پُر اثر اور فائدہ مند ہے کیونکہ ”سائنسی گولی“ کی مدد سے تو محض ایک شخص کے ذہن میں پنپنے والی بُری یادوں کا ہی خاتمہ کیا جاسکتا ہے جبکہ اِس کے مقابلے میں ایک ”سیاسی گولی“ہزاروں،لاکھوں سیاسی کارکنان کی یادداشت کو مٹانے کا انقلابی فریضہ انجام دے سکتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان کوٹ لکھپت جیل میں دراز ہونے والے سلسلہ جنبانی کے پاکستانی سیاست میں انتہائی دُور رس مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ زیادہ تر سیاسی تجزیہ کار دونوں سیاسی رہنماؤں کی آپسی گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ بھی کررہے ہیں کہ مستقبل قریب میں مسلم لیگ ن کے تمام بیمار سیاسی رہنماؤں کا علاج سندھ کے ہسپتالوں میں سندھ حکومت کی زیرِ نگرانی انتہائی ”سیاسی نگہداشت“ میں کیا جاسکتاہے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے اسیر اور بیمار سیاسی رہنماؤں کو نیب کی طرف سے خدانخواستہ عازمِ پنجاب کیئے جانے کی ہنگامی صورت حال میں مسلم لیگ ن کی طرف سے بھرپور سیاسی اعانت ”سیاسی بنیادوں“ پر فراہم کیئے جانے کی مقدور بھر کوشش کی جائے گی۔پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان اپنے اہم ترین سیاسی رہنماؤں کا منفرد سیاسی انداز میں بین الصوبائی سطح پر ہونے والا یہ متوقع تبادلہ دونوں جماعتوں کے کارکنان کو ایک دوسرے کے دُکھ درد کو سمجھ کر مزید قریب آنے کا موقع بھی فراہم کرے گا۔بقول احمد فراز
اپنے اپنے بے وفاؤں نے ہمیں یکجا کیا
ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تُو میرا نہ تھا
جہاں تک بات ہے میاں نواز شریف کے ”مسائل صحت“ کی تووہ واقعی میاں صاحب اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی بے جا ضد کے باعث گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ابتداء میں تو یہ لگتا تھا فقط نواز شریف ہی اپنی بیماری کی آڑ میں اپنی بقیہ ماندہ سزا معاف کروا کر ”لندن کا ٹکٹ“ کٹوانا چاہتے ہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کی عیادت کے بعد احساس ہورہا ہے کہ اَب اپوزیشن بھی نواز شریف کے ”مسائل صحت“ کو بنیاد بنا کر حکومت کے خلاف بھرپوراحتجاجی سیاست کے لیئے کوئی قابلِ قبول راستہ نکالنا چاہتی ہے تاکہ کرپشن میں گھری اپوزیشن کی اعلیٰ قیادت کو بھی نیب ریفرنس سے راہِ فرار مل سکے۔ بالفرض محال اگر تمام اپوزیشن کا موقف من و عن تسلیم کرکے ایک صدارتی حکمنامہ کی مدد سے نواز شریف کی سزا معاف بھی کردی جائے تو اِس بات کی یقین دہانی کون کروائے گا کہ لندن میں غسلِ صحت یابی فرما کر میاں نواز شریف اپنے دیرینہ دوست نریندر مودی کو خوش کرنے کے لیئے پلوامہ حملہ کا رُخ پاکستان کی جانب موڑنے کی سیاسی چال نہیں چلیں گے۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ میاں صاحب کو بوقت ِ ضرورت ”حکومت وقت“ یا عمران خان کے خلاف استعمال کیا جاسکتاہے بلکہ اصل ڈر تو یہ ہے کہ میاں صاحب اپنی المناک”سیاسی شکست“کا بدلہ لینے کے فراق میں ریاستِ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیئے سابقہ ڈان لیکس سے بڑھ کر بھی کسی مذموم”سیاسی حرکت“کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ جب پہلے ہی بھارت کلبھوشن کے حق میں نوازشریف کے بیان کو بطور اپنی اہم ترین دلیل کے پیش کرچکا ہو ایسے میں انتہائی ضروری ہوگا کہ حکومت پاکستان نوازشریف کے ”مسائل صحت“ کے حل کے لیئے عجلت میں کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے ایک بار ”مسائل ریاست“ کو بھی ضرور مدنظر رکھے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 14 مارچ 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

بلاول، نواز راضی ۔۔۔ پھر کیا کرے گا ماضی” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں