mahathir-muhmmad-imran-khan

عظیم مہمان

یومِ پاکستان جیسے عہد ساز دن کے موقع پر مہاتیر محمد جیسے عظیم مدبر رہنما کی پاکستان آمد نے پاکستانیوں کی خوشیوں کوگویا چار چاند لگادیئے۔وہ مقولہ تو آپ نے ضرور سُنا ہی ہوگا کہ”آنے والا مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے“۔لیکن میری رائے میں مہمان اپنے رزق کے علاوہ بھی بہت کچھ ساتھ لے کر آتا ہے۔جیسے خوش نصیبی یا بدنصیبی،خوش اخلاقی یا بد اخلاقی،شور شرابا یا خاموشی،اُمید یا نااُمیدی،سکون یا بے سکونی حتی کہ میزبان کی ترقی و تنزلی بھی مہمان کے مبارک یا نامبارک قدموں کی مرہونِ منت ہی ہوا کرتی ہے۔یوں سمجھ لیجئے جیسے میزبان ہوتے ہیں وہ ویسے ہی مہمانوں کو وہ اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں۔عموماً مہمان، میزبان کی فطرت کا عکاس ہوتے ہیں اور اُس کے آنے والے مستقبل کا پتا دیتے ہیں۔جیسے شیطان نے آج تک کسی ولی کو اپنے ہاں مدعو نہیں ویسے ہی کسی ولی اللہ نے بھی آج تک شیطان کی میزبانی نہیں فرمائی۔ شاید اسی لیئے گزرے وقتوں میں بڑے بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ”اپنا نصیب بدلنا چاہتے ہو تو صاحبِ نصیب لوگوں کو اپنے گھر مہمان بلاؤ، علم کی اصل لذت و سُرور کو چکھنا چاہتے ہوتو کسی صاحب علم کی میزبانی کرو اور اگر عرفانِ ذات کے متلاشی ہو تو صاحبِ عرفان لوگوں کو اپنے گھر مدعو کرو“۔قدیم دانش کے اِس رہنما اُصول کی روشنی میں گزشتہ چند ماہ سے ہمارے وطنِ عزیز میں جوق در جوق آنے والے مہمانانِ گرامی جہاں پاکستان کے روشن مستقبل کا مژدہ جانفزا سُنا رہے ہیں وہیں پوری پاکستانی قوم کو خبر دے رہے ہیں کہ اُن کے ملک کی باگ دوڑ عمران خان جیسے ایک ایسے حکمران کے ہاتھ میں آگئی ہے جو اپنی فطرت میں انتہائی اچھا میزبان بھی ہے اور ہمیشہ اچھے اچھے مہمانوں کو ہی اپنے پاس مدعو کرتا ہے۔ جس کا بین ثبوت متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ شیخ محمد بن زید النہیان،سعوی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اب دنیا کے عظیم مدبر و ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کا بطور مہمان خصوصی سرزمینِ پاکستان پر تشریف لاناہے۔
حالانکہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے وطنِ عزیزمیں غیر ملکی مہمانوں کو بطورِ خاص شرفِ مہمانی بخشا گیا ہو۔گزشتہ 40 برسوں میں ہمارے ملک پر حکومت کرنے والے میزبانوں نے بے شمار بار غیر ملکیوں کو اپنا ہاں مہمان ِ خاص بنایا ہے لیکن معذرت کے ساتھ یہ مہمان کبھی بھی نہ تو پاکستان کے لیئے خوش بختی کا باعث بن سکے اور نہ ہی اپنی آمد سے پاکستانی عوام کا دل جیتنے میں کامیاب ہوسکے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ اِن غیر ملکی مہمانوں نے ہمیشہ پاکستانی عوام کو مشکلات میں ڈالنے کے لیئے اپنا حصہ بقدرِ جثہ ڈالا۔ مثال کے طور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی تقریب میں خصوصی طور پر بلائے جانے والے مہمان خصوصی حامد کرزئی کو ہی ذرا یاد کرلیں جن کی آمد نے پاکستان کی ایک اہم ترین تقریب کو گہنا کر رکھ دیا تھا۔عالمی طاقتوں کے ایک کٹھ پتلی کو بطور مہمان خصوصی قومی تقریب میں بلانے سے نہ جانے کس کو خوش کرنا مقصود تھا یہ تو جناب آصف علی زرداری ہی بتا سکتے ہیں مگر ایک بات تو پوری واضح تھی کہ حامد کرزئی کی بطور مہمان پاکستان آمد نے پاکستانی عوام کے دلوں کو چھلنی کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا کیونکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ موصوف ریاستِ پاکستان کے بارے میں کس قسم کے مذموم خیالات نہ صرف ماضی میں رکھتے تھے بلکہ اب بھی وقتاً فوقتاً اُن خیالات کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی ”عادتِ میزبانی“ہمارے ملک کے ایک اور حکمران سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو بھی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ میاں محمد نوازشریف کے سب سے پسندیدہ اور خاص الخاص مہمان گرامی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تھے۔ مودی کو میاں صاحب اپنے ہاں مہمانی پر اِس”چاپلوسانہ اہتمام“سے بلاتے تھے کہ مجال ہے جو کسی کو کانوں کان خبر ہوجائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سے راز و نیاز کا سلسلہ جنبانی بھی زیادہ تر چھوٹی چھوٹی پرچیوں پر مشتمل ہوتا تھا یا پھر اپنے ہونٹوں کے سامنے ہاتھ کی اُوٹ بنا کر دونوں باہم گفت وشنید کیا کرتے تھے تاکہ کوئی پاکستانی ذرا سا اندازہ بھی نہ لگاسکے کہ اُن کی آپس میں کی جانے والی گفتگو میں تجارتی مفادات کی کتنی آمیزش ہے اور ریاستی اُمور کے متعلق کتنی سازش ہے۔یعنی ملتے میاں صاحب تھے مودی سے اور دل بیچارے پاکستانی عوام کے بیٹھے جاتے تھے کہ کہیں یہ بھارتی مہمان،جاتے جاتے اپنے کشمیری میزبان سے بطور تحفہ کشمیر کے جملہ حقوق ہی لکھوا کر نہ لے جائے۔
ماضی کے قومی”مہمان بلائے جانوں“ کو نہ چاہتے ہوئے بھی برداشت کرنے کے بعد جب آج کے عظیم مہمان جناب مہاتیر محمد کی جانب نظر ڈالتے ہیں تو یہ سوچ کر دل خوشی سے باغ باغ ہوجاتا ہے کہ چلو 40 سال کے طویل ترین انتظار کے بعد ہی سہی کم از کم آج ہمارے کسی حکمران کے نصیب میں بھی مہاتیر محمد جیسے نابغہ روزگار رہنما کی میزبانی کرنے کا شرف تو لکھا گیا۔ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے دورہ ئ پاکستان سے فوری طور پر حاصل ہونے والے بیش بہا معاشی فوائد کو اگر ایک طرف بھی رکھ دیں پھر بھی بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارایہ معزز مہمان ہمیں جاتے جاتے بطور ِ تحفہ دے گیاہے۔ خاص طور پر مہاتیر محمد کا یہ فرمانا کہ ”جو قوم دنیا کے بہترین ٹینک،میزائل اور جنگی جہاز بنا سکتی ہے،اُس قوم سے اُمید رکھنی چاہیئے کہ وہ مستقبل میں سب کچھ کرسکتی ہے“۔ مہاتیر محمد کی زبان سے نکلا یہ مختصر سا جملہ من حیث القوم ہماری خوابیدہ ملّی صلاحیتوں کا نہ صرف تابناک اعتراف ہے بلکہ ہمیں اُمید کی ایک ایسی روشن کرن بھی دکھاتا ہے جس کے دوسرے سرے پر اقوامِ عالم کی پیشوائی ہماری منتظر ہے۔خدا کرے کہ چند ماہ پہلے شروع ہونے والا ہماری کامیابیوں و کامرانیوں کا سفر یونہی جاری رہے اور ہمارے ملک میں ”عظیم مہمانانِ گرامی“ کی آمد کا ”خوش آئند“سلسلہ کسی صورت نہ تھمے۔انتظار رہے گا وطنِ عزیز میں آنے والا اگلا”عظیم مہمان“کون ہوگا؟

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 28 مارچ 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں