lottery-by-chance-and-luck

خوش قسمتی سے بدقسمتی تک ۔ ۔ ۔

آپ مانیں یا نا مانہیں بہرحال سچ یہ ہی ہے کہ ہم سب نے اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی انعامی لاٹری جیتنے کا خواب ضرور دیکھا ہوگا،کیونکہ یہ وہ حسین و پرکشش خواب ہے جس کی تعبیر اگر کسی کو اپنی مختصر سی زندگی میں حاصل ہو جائے تو ایسے خوش قسمت انسان کے لیئے اپنے بے شمار دوسرے خواب بھی پورا کرنا عین ممکن ہوجاتاہے۔ دنیا بھر میں عام تصور یہ ہی پایا جاتا ہے کہ جو لوگ بڑی انعامی لاٹریاں جیت لیتے ہیں وہ اس جہانِ رنگ و بو میں سب سے زیادہ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے لیئے اچانک سے مل جانے والی خطیررقم سے زندگی کی آسائشیں حاصل کرنا سہل تر ہوجاتاہے اور ان کی تمام خواہشیں ایک ایک کر کے بلا کسی مشکل کے پایہ تکمیل تک پہنچنا شروع ہوجاتی ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ دنیا کی بڑی انعامی لاٹریاں جیتنے والے خوش قسمت افراد کی زندگیاں کوئی اور ہی داستان سناتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیئے: کیسے ہوں گے اگلے 10 سال

گزشتہ 30 برسوں میں ماہرین سماجیات کو حاصل ہونے والے اعدوشمار بتاتے ہیں کہ بدقسمتی سے،جو لوگ انعامی لاٹری جیتتے ہیں،ان خوش قسمت لوگوں کی اکثریت فقط چند برسوں میں ہی لاٹری جیتنے سے قبل والی حالت سے بھی بدتر زندگی کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ یعنی ان خوش قسمت افراد کا لاٹری جیتنے کا خواب تو پورا ہوجاتاہے لیکن اس کے بعد جس قسم کے خوابوں کے پیچھے یہ خوش قسمت افراد بھاگنا شروع ہوجاتے ہیں اور جس طرح کی معیاری و لگژری طرز زندگی کے جنون میں خود کو مبتلاء کر لیتے ہیں،وہ جنون انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ مثلاً مہنگی گاڑیاں خریدنا،بلاضرورت سیر و تفریح کرنا، لگژری ہوٹلوں میں قیام کرنا، گھر کی غیر ضروری آرائش کرنا اور سب سے بڑھ کر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے سامنے دولت کی نمائش کی خاطر مہنگی ترین دعوتیں اُڑانا جیسی بُری عادتیں اُن خوش قسمت افراد کو چند ہی برسوں میں پہلے سے بھی زیادہ خراب مالی صورت حال سے دوچار کردیتی ہیں۔

خوش قسمت ہوتے ہوئے بھی ایک بار پھر سے بدقسمتی کے گڑھے میں خود کو گرا لینے والے دنیا کے چند بڑے لاٹری فاتحین کی سرگزشت زیر نظر مضمون میں پیش خدمت ہے۔ ان سچی کہانیوں میں عبرت بھی ہے، انسانی کوتاہیوں کے کرشمے بھی،لالچ کے خفیہ جال بھی ہیں،نفسانی خواہشوں کی ہاتھوں ہونے والی حضرت انسان کی پامالی بھی اور سب سے بڑھ کر دبستان اخلاق کا یہ سبق بھی کہ محنت کی کمائی ہی سب سے بہتر ہے۔

منصوبہ بندی کا فقدان سب کچھ لے ڈوبا
لیزا آرکینڈ ایک چھوٹے سے امریکی شہر لارنس میں رہنے والی ایک عام سی گھریلو خاتون خانہ تھی۔ جس کی زندگی میں اس کے دو چھوٹے بچوں کے سوا کوئی دوسری قیمتی شئے کا عمل دخل نہیں تھا۔ لیزا آرکینڈ کے شوہر کا چند برس قبل انتقال ہوچکا تھا لیکن چونکہ وہ ایک محنتی خاتون خانہ تھی لہٰذا شہر میں ملازمت کر کے اپنا اور اپنے بچوں کی بہت اچھے سے دیکھ بھال کررہی تھی۔ ایک دن لیزا آرکینڈ کو انعامی لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کا خیال آیا اور اُس نے پس انداز کی ہوئی رقم سے ایک لاٹری کا ٹکٹ خرید لیا،اس اُمید پر کہ اگر کوئی انعامی رقم اُس کے ہاتھ آگئی تو وہ اس رقم سے اپنی اور اپنے بچوں کے لیئے بہتر انداز میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرسکے گی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ لاٹری کے ٹکٹ خریدنے ایک ہفتہ بعدہی اُس کا ایک ملین ڈالر کا پہلا انعام لگ گیا (پاکستانی روپے میں جس کی مالیت 16 کرروڑ 54 لاکھ 66 ہزار بنتی ہے)۔اتنی بڑی انعامی رقم جب لیزا آرکینڈ کے ہاتھ میں آئی تو اُسے سمجھ نہ آیا کہ وہ اس رقم کو کہاں اور کیسے خرچ کرے؟۔ بہرحال اُس نے انعامی رقم سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے قریبی دوستوں کو ایک پرتکلف دعوت کرڈالی،جس پر چند گھنٹوں میں لیزا آرکینڈ نے تین ہزار ڈالر کی خطیر رقم اُڑا دی۔اُس کے بعد لیزا آرکینڈ نے ایک بہت بڑا مکان اور گھر کی سجاوٹ کے لیئے مہنگا ترین فرنیچر خریدا۔ جسے اُس کے دوست احباب نے جب گھر کی مناسبت سے موزوں قرار نہ دیا تو اُسے اونے پونے بیچ کر دوسرا مہنگا فرنیچر خرید لیا،جبکہ اپنے دونوں بچوں کو مہنگے ترین کیتھولک اسکول میں داخل کروادیا اور خود دنیا کی سیر کے لیئے نکل گئی۔

کئی مہینوں کی طویل سیاحت کے بعد جب واپس اپنے شہر آئی، تو ساحل سمندر پر ایک بہترین لوکیشن پر اپنے خواب کے عین مطابق خوب صورت ریستوران کھول لیا۔لیکن انعامی لاٹری سے حاصل ہونے والے پیسے کی ریل پیل نے لیزا آرکینڈ کو اپنی توجہ ریستوران کے کاروبارو پر پوری طرح سے مرکوز نہ کرنے دی اور اس کا ریستوران گاھک کی آماج گاہ بننے کے بجائے،اُس کے دوستوں کے لیئے اُدھار کھانے پینے کی ایک ایسی مفت کی جگہ بن گئی۔جہاں وہ جب آتے کھا پی کر چلے جاتے۔ بغیر گاھکوں کے ریستوران آخر کب تک چلتا اور لیزا آرکینڈ کے بنک اکاؤنٹ میں موجود رقم کب تک موجود رہتی۔ آخرآہستہ آہستہ رقم ختم ہوتی گئی اور لیزا آرکینڈ اپنا معیارِ زندگی برقرار رکھنے کے لیئے قرض پر قرض لیتی گئی۔ یہاں تک ریستوران بھی بک گیا، گھر بھی سامان سمیت فروخت ہوگیا اور دونوں بچوں کو بھی فیسوں کی ادائیگی نہ ہونے کے باعث اسکول سے نکال دیا گیا۔ انعامی لاٹری جیتنے کے چار سال بعد لیزا آرکینڈا کا بال بال قرض میں دب چکا تھا۔بدقسمتی سے لیزاآرکینڈا کی یہ وہ قابلِ رحم حالت تھی جو انعامی رقم جیتنے سے قبل بھی نہ تھی۔ بقول لیزا آرکینڈا”میں نے انعامی لاٹری جیتنے کے بعد سب کام کیئے اگر کچھ نہ کرسکی تو وہ مستقبل کی منصوبہ بندی تھی۔ حالانکہ اسی کا م کے لیے میں نے انعامی لاٹری کا ٹکٹ خریدا تھا“۔

جیت کر بھی ہارنے والے۔۔۔
مارٹن اور کی ٹوٹ (Martyn & Kay Tott) کئی برسوں سے ایک خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے تھے۔ چونکہ دونوں نے پسند سے شادی کی تھی لہٰذا ان کی ایک دوسرے سے محبت اور پیار علاقہ بھر میں ایک مثال سمجھا جاتا تھا۔دونوں میاں،بیوی کا بس ایک شوق تھا اور وہ یہ کہ دونوں مل کر ہر ہفتہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنا کبھی نہ بھولتے تھے۔ اَب یہ الگ بات کہ برسوں سے بلاناغہ لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے باوجود بھی آج تک کبھی اُن کا کوئی چھوٹا سا انعام بھی نہ لگ سکا تھا۔ حالانکہ دونوں میاں بیوی ہرہفتہ لاٹری کے لکی نمبرز منتخب کرنے کے لیئے خوب محنت بھی کرتے تھے لیکن طرح طرح کے حساب کتاب اور عرق ریزی کرنے کے بعد بھی یہ دونوں انعامی نمبر منتخب کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ہر روز کی طرف اس بار بھی لاٹری کے نمبر منتخب کرنے کے لیئے دونوں میاں،آپس میں خوب بحث و مباحثہ کررہے تھے کہ اچانک مارٹن اور کی ٹوٹ کے دماغ میں ایک منفرد خیال وارد ہوا اور انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ انعامی لاٹری کے لیئے اس بار صرف وہ نمبرز ہی کیوں نہ منتخب کیئے جائیں،جن کا عمل دخل اُن زندگی میں تواتر کے ساتھ رہا ہے۔ پس انہوں نے اپنی سالگرہ کے دن سے 7، منگنی کے دن سے 11،اپنی عمر رفتہ سے 23 اور 32 کے اعداد لیئے۔یہ وہ عمر تھی جب ان کی پہلی بار آپس میں ملاقات ہوئی تھی۔ نیز 44 نمبر انہوں نے اپنی دادی کے گھر کے نمبر سے منتخب کرلیا،جس سے یہ دونوں ہی بے پناہ محبت کرتے تھے۔

علی ہذالقیاس اسی اُصول کے تحت انہوں نے گیارہ مختلف نمبروں کا انتخاب کر لیا اور یہ ترتیب دیئے گئے لکی نمبرز اگلے دن انہوں نے لاٹری کے ٹکٹ میں بھی منتخب کرلیئے۔ رات کو دونوں میاں،بیوی ٹی وی اسکرین پر انعامی لاٹری کے نتائج ملاحظہ کرنے کے لیئے نیوز بلیٹن سننے لگے۔ جس میں خبر دی گئی کہ ان کے علاقے میں سے کسی نے انعامی لاٹری کا3 ملین ڈالر کا پہلا انعام جیت لیا ہے۔ جب انہوں نے اپنے نیوز بلیٹن پر انعامی نمبرز کی ترتیب دیکھی تو انہوں نے فوراً ہی پہچان لیا کہ یہ تو وہ ہی نمبرز جو انہوں نے خریدے تھے۔ لیکن انعامی لاٹری جیتنے کے بعد انہیں ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ کل شام خریدا ہوا انعامی ٹکٹ مل نہیں پارہا تھا۔ بہت تلاش کے بعد جب انہیں ٹکٹ نہ مل سکا تو انہوں لاٹری کمپنی سے رابطہ کیا اور اس کے سامنے ثابت کرنے کی کوشش کی انعامی نمبر انہوں نے ہی خریدے تھے مگر بدقسمتی سے انعامی ٹکٹ وہ گم کر بیٹھے ہیں۔جس اسٹور سے انہوں نے انعامی ٹکٹ خریدا تھا،اُس کی ویڈیو فوٹیج سے بھی ثابت ہوتا تھا کہ انہوں نے ہی وہ نمبرز خریدے تھے۔لیکن انعامی کمپنی کی پالیسی کے مطابق انعامی رقم وصول کرنے کے لیئے ٹکٹ پیش کرنا لازمی تھا۔ مارٹن نے لاٹری کمپنی کے خلاف انعام کے حصول کے لیئے مقدمہ دائر کردیا۔مقدمہ بازی کے دوران مارٹن اور کی ٹوٹ کی ازدواجی زندگی اجیرن ہوگئی اور دونوں کے مابین طلاق واقع ہوگئی۔ مارٹن نے دگرگوں معاشی حالات سے تنگ آکر شراب نوشی اور جوا کھیلنا شروع کردیا۔مقدمہ بازی پر اُس نے پیسہ پانی کی طرح بہایا یہاں تک وہ دیوالیہ ہوگیا لیکن پانچ سال تک مقدمہ بازی کرنے کے بعد اُسے لاٹری میں جیتی گئی انعامی رقم سے ایک پائی بھی وصول نہ ہوسکی اور انعامی رقم کے حصول کے فراق میں مارٹن نے اپنا سب کچھ گنوا دیا۔بدقسمتی ملاحظہ ہوکہ خوش قسمت مارٹن اور کی ٹوٹ انعامی لاٹری جیت کر بھی ہار گئے۔

دوستی انعامی رقم سے سستی قرار پائی
فریڈی ینگ (Freddie Young) اور گریگ میکنکول (Greg McNicol) بچپن کے گہرے دوست تھے۔ابتدائی تعلیم سے لے کراعلیٰ تعلیم تک ہی نہیں بلکہ ملازمت کا آغاز بھی دونوں نے ساتھ مل کر ہی کیا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی رفاقت کو اپنے لئے خوش قسمتی کا باعث سمجھتے تھے۔ اُن دونوں دوستوں کا ماننا تھا مل جل کر رہنے اور کام کاج کرنے سے خوش قسمتی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان دونوں کا یہ خیال ایک دن بالکل درست بھی ثابت ہوا۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ ایک روز فریڈی ینگ اور گریگ میکنکول نے گروپ لاٹری کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ واضح رہے کہ مغربی ممالک میں انفرادی لاٹری ٹکٹ خریدنے کے ساتھ ساتھ گروپ لاٹری ٹکٹ خریدنے کا بھی بہت رجحان ہے۔ کیونکہ گروپ لاٹری ٹکٹ کی انعامی رقم بہت بڑی ہوتی ہے جبکہ ایک سے زیادہ افراد مل کر جب گروپ ٹکٹ خریدتے ہیں تو وہ انعامی ٹکٹ ہر خریدنے والے کو انتہائی سستا بھی پڑتاہے۔گروپ لاٹری ٹکٹ کا انعام لگنا بہت مشکل ہوتا کیونکہ اس ٹکٹ کے ترتیب وار نمبر بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی گروپ لاٹری ٹکٹ خریدنے کا رجحان مغرب میں بہت زیادہ ہے۔

مزید پڑھیں: ہماری زمین کی محافظ اوزون کی تہہ

فریڈی ینگ اور گریگ میکنکول نے فروری 2011 میں جس گروپ لاٹری ٹکٹ کو خریدا اُس میں ن کے علاوہ دیگر 25 افراد بھی شریک تھے۔ جنہیں وہ قطعی نہیں جانتے تھے۔ خوش قسمتی سے اُن کے گروپ لاٹری ٹکٹ کے نمبر ز نتیجہ میں منتخب ہوگئے اور یوں ان کے گروپ نے 46 ملین ڈالر کا جیک پاٹ جیت لیا اور یوں گروپ ٹکٹ خریدنے والے ہر فرد کو 1.66 ملین ڈالر کی انعامی رقم وصول ہوگئی۔ فریڈی ینگ او ر گریگ میکنکول کو جب الگ الگ اتنی بڑی خطیر انعامی ملی تو اُن کے خیالات ایک دوسرے کے بارے میں بدلنے لگے اور فریڈی ینگ سوچنے لگا کہ کاش! اُس کے دوست کی انعامی رقم بھی اُسے ہی مل جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔مئی 2011 کے ایک بدقسمت دن اسی طرح کے منفی خیالات کے زیر اثر آکر فریڈی ینگ نے اپنے عزیز از جان دوست گریگ میکنکول کو پیسے کے لین دین کے کسی چھوٹے سے معاملہ پر طیش میں آکر اُس کے اپارٹمنٹ کی عمارت کے باہر گولی مار کر ہلاک کردیا۔ینگ نے دعویٰ کیا یہ سب کچھ اُس نے جان بوجھ کر نہیں کیا تھا بلکہ نادانستگی میں اُس سے فائر ہوگیا تھا،جس کا نشانہ اُس کا دوست بن گیا۔ ینگ پر اپنے دوست کو قتل کرنے کا مقدمہ کئی سال چلا اور عدالت کی جیوری نے بالآخر اُسے قصور وار پاتے ہوئے 30 سال قید بامشقت کی سزا سنادی اور اُس کے بنک اکاؤنٹ میں موجود انعامی رقم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے منجمد کردیا۔ دوسری جانب گریگ میکنکول کی بیوہ کرسٹی میکنکول کو بھی عدالت نے گریگ سے متعلق چند جعلی کاغذات جمع کروانے پر انعامی رقم کے لیئے نااہل قرار دے دیا۔لہذا،اگریک کے ہلاک ہونے کے بعد اُس کی جیتی گئی انعامی رقم کو ایک خیراتی ادارے کے سپرد کردیا گیا۔ بدقسمتی سے انعامی لاٹری میں جیتی گئی رقم دوستی سے بھی قیمتی قرار پائی اور کسی بھی دوست کے کچھ کام نہ آسکی۔

سخاوت نے کی، خوش قسمت سے عداوت
بلاشبہ سخاوت،انسانی اخلاقیات کی ایک بہترین خوبی ہے لیکن بے وقوفی اور بلاسوچے سمجھے کی گئی سخاوت آپ کی جاں کا آزار بھی بن سکتی ہے۔ مگر کیسے؟۔یہ سمجھنے کے لیئے ضرور ی ہے کہ آپ کو اونٹاریو کے علاقہ ہیملٹن سے تعلق رکھنے والی35 سالہ شیرون تراباسی (Sharon Tirabassi) کے حالاتِ زندگی کے بارے میں ضرور کچھ نہ کچھ ضرور معلوم ہو۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ شیرون تراباسی کا”اونٹاریو لاٹری“ میں 10 ملین ڈالر کا جیک پاٹ لگ گیا۔ دس ملین ملین ڈالر پاکستانی روپے میں ایک سو چھیاسٹھ کروڑ روپے بنتے ہیں۔ اتنی بڑی انعامی رقم جیتنے کا تصور بھی ایک عام آدمی کے لیے ناقابل یقین ہے۔ لیکن خوش قسمتی سے شیرون تراباسی یہ انعامی رقم حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔انعامی رقم حاصل ہوجانے کے بعد شیرون تراباسی نے اس رقم سے اپنے اردگرد رہنے والے رشتہ دار اور احباب کا مستقبل بدلنے کا سوچا اور ایک ملین ڈالر اپنے والدین کو دے دیا،جبکہ 1.75 ملین ڈالر اپنے بہن بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیا،نیز تین ملین ڈالر کے قریب رقم اپنے پانچ ہم نوالہ،ہم پیالہ سہلیوں کو دے دی جبکہ ایک ملین اپنے پڑوسیوں کو تحفے، تحائف دینے میں خرچ کردیئے۔

تھوڑے ہی عرصہ میں علاقہ بھر میں شیرون تراباسی کی سخاوت کا چرچا ہونے لگا۔ اَب تو جس غریب و بدحال کو مالی امداد کی ضرورت محسوس ہوتی وہ شیرون تراباسی کا دروازہ کھٹکھٹا دیتااور محترمہ فراخ دلی سے سائل کی جھولی کو مال و دولت سے بھر کر اُس کی مشکلات کو حل کردیتی۔ دوسروں کی مالی مشکلات کو رفع کرتے کرتے شیرون تراباسی کو احساس ہی نہ ہوسکا کہ اَب وہ خود بھی مالی مشکلات کا شکار ہوچکی ہے کیونکہ اُس کا بنک اکاؤنٹ انعامی رقم سے مکمل طورپر خالی ہوچکاہے۔ اَب شیرون تراباسی، اُن لوگوں کے دروازے پر قرض لینے کے لیئے کھڑی تھی،جنہیں وہ بن مانگے ہی بہت کچھ دے چکی تھی۔لیکن شیرون تراباسی کو والدین،بہن بھائیوں اور دوستوں سے ذرہ برابر بھی مالی امداد نہ حاصل ہوسکی اور نہ اس سے قرض لینے والوں نے کچھ ادائیگی کرنا ضروری سمجھا۔ یوں چند ہی برسوں میں شیرون تراباسی ایک بار پھر سے اُسی مقام پر پہنچ گئی، جہاں وہ انعامی لاٹری جیتنے سے پہلے تھی۔ آج کل شیرون تراباسی کے بچے خیراتی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہیں اور وہ خود ایک جزوقتی ملازمت کررہی ہے۔اپنے دفتر سرکاری بس میں کھڑے ہو کر جاتی اور کئی کئی مہینے اُس کے پاس مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیئے رقم بھی نہیں ہوتی۔

قسمت کی دیوی کی دوسری بار آمد
ویسے تو ایک بار بھی انعامی لاٹری جیت جانا بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے لیکن اگر کو ئی شخص دوسری بار بھی انعامی لاٹری جیت جائے تو ایسے خوش قسمت انسان کو مقدر کے سکندر کے سوا،آخر اور کیا کہا جاسکتاہے؟۔امریکی ریاست نیوجرسی کے ایک چھوٹے سے ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں،سیلز مین کی ملازمت کرنے والی ایولین ایڈمز(Evelyn Adams) نامی خاتون وہ خوش قسمت ترین خاتون ہے،جس پر قسمت کی دیوی فقط ایک بار نہیں بلکہ دو بار مہربان ہوئی۔ پہلی بار یولین ایڈمز نے اکتوبر 1985 میں انعامی جیک پاٹ جیتا،جس کی مجموعی مالیت 3.99 ملین ڈالر (پاکستانی روپوں میں یہ رقم تقریباً 66 کروڑ بنتی تھی)۔مگر بدقسمتی سے یولین ایڈمز اس رقم کو درست جگہوں پر سرمایہ کاری میں استعمال نہ کرسکی اور چند ماہ بعد ہی وہ جیتی گئی ساری انعامی رقم اللے تللوں میں خرچ کر کے قلاش ہوچکی تھی۔ ایک بڑی رقم کے ضیاع کے بعد یولین ایڈمز اکثر سوچتی تھی اگر اُسے قدرت نے ایک بار اور انعامی لاٹری جیتنے کا موقع دیا تو وہ اس بار اُن غلطیوں کو کسی صورت نہیں دہرائے گی،جن کے باعث وہ ایک بار پھر سے قلاش ہوچکی ہے۔

بہرحال یولین ایڈمز کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور فروری 1986 میں اس نے ایک لاٹری ڈرائنگ میں 1.4 ملین ڈالر کا ایک اور بڑا انعام جیت لیا۔ مگر جیتا گیا یہ انعام چونکہ گزشتہ انعامی رقم سے کچھ کم مالیت کا تھا۔ لہٰذا یولین ایڈمز انعام رقم حاصل کرنے کے بعد شدید احساس عدم تحفظ کا شکار ہوگئی اور اس جیتی گئی رقم کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ بڑھانے کے لیئے اس نے جوا کھیلنا شروع کردیا۔ جیسا کہ سب ہی وہ مشہور مثل جانتے ہیں کہ ”جوا کسی کا بھی نہ ہوا“۔پس!یہ موذی جوا خوش قسمت ترین یولین ایڈمزکا بھی نہ ہوسکا اور جلد ہی وہ دوسری بار جیتی گئی تمام رقم بھی جوئے میں کھو چکی تھی۔آج کل ایولین ایڈمز ایک سرکاری اولڈ ہوم میں زندگی کے اپنے آخری ایام انتہائی عسرت میں بسر کررہی ہے۔شاید اس افسوس کے ساتھ کہ وہ کتنی نادان تھی کہ دوسری بار بھی قسمت کی دیوی کو اپنے ہاں طویل قیام کرنے کے لیئے راضی نہ کرسکی۔

انعامی رقم،سیاست کی نذر۔۔۔
ہمارے ہاں! عام تصور یہ ہی پایا جاتاہے کہ میدانِ سیاست میں لوگ صرف پیسہ بنانے کی نیت سے ہی آتے ہیں اور جس طرح سے ہمارے سیاست دانوں کی بے نامی جائیدادوں اور بے نامی اکاؤنٹ کا تذکرے صبح و شام میڈیا پر ہوتے رہتے ہیں۔اُسے دیکھنے اور سننے کے بعد تو یہ تاثر ہی تقویت پاتا ہے کہ”میدانِ سیاست“ مال و دولت بنانے کا سب سے موثر شارٹ کٹ ہے۔لیکن دنیا بھر میں سیاست کو عوامی خدمت کا ایک مقدس شعبہ سمجھا جاتاہے،خاص طور پر مغربی ممالک میں سیاست کرنے شائق اس راہ پر اپنا سب کچھ گنوا بھی دیتے ہیں۔امریکا سے تعلق رکھنے والی جینائٹ لی(Janite Lee) بھی سیاست کی ایک ایسی ہی شائق تھی،جس نے 18 ملین ڈالر صرف سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کی نذر کردیئے۔ جینائٹ لی نے 1993 میں الینوائے لاٹری میں 18 ملین ڈالر بطور انعام جیتے تھے۔چونکہ جینائٹ لی کو ہمیشہ سے سیاست کرنے کا بہت ارمان تھا۔لہٰذا اس نے انعامی رقم ملنے کے بعد اسے دل کھول کر سیاست کرنے اور سیاست دانوں سے قریبی تعلقات قائم پر خرچ کرنا شروع کردیا۔ جینائٹ لی متعدد مقبول سیاست دانوں کے ساتھ فقط ڈنر کرنے پر ہی لاکھوں ڈالر خرچ کردیئے۔ جینائٹ لی سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور سابق امریکی صدارتی اُمیدوار الگور سمیت بے شمار نامور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ کھانے کی خصوصی نشستیں حاصل کیں۔

یہ مضمون بھی ضرور پڑھیئے: ٹائم شپ پروجیکٹ ۔ جب جیون جمادیا جائے گا

واضح رہے کہ امریکی سیاست میں مقبول سیاست دانوں کے ساتھ فقط ایک ڈنر کے چندگھنٹے انتہائی مہنگے داموں فروخت ہو جاتے ہیں۔نیزسیاسی جماعتوں کی خصوصی تقریبات میں شرکت کے لیئے نشستیں باقاعدہ بکتی ہیں۔ جینائٹ لی نے بھی امریکی سیاست کا حصہ بننے کے لیئے پیسہ کا سہارا لیا اور سیاسی و سماجی میدان میں نامو ری و رتبہ حاصل کرنے کے لیئے بے شمار سیاسی اداروں اور یونیورسٹیوں کو لاکھوں ڈالر کے گراں قدر عطیات بھی فراہم کیئے۔یہاں تک کہ واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف لاء نے دل کھول عطیات دینے کی وجہ سے جینائٹ لی کا نام اپنی لائبریری کے ہال میں نمایاں طور پر آویزاں بھی کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے جینائٹ لی انعامی لاٹری سے جیتے گئے 18 ملین ڈالر کی تمام رقم سیاست کی نذر کرنے کے بعد بھی وہ بطور سیاست دان خود کو منوا نہ سکی۔لیکن مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے باوجود بھی جینائٹ لی کا کہنا ہے اگر کبھی دوبارہ اُسے کسی انعامی لاٹری میں انعام جیتنے کا موقع ملا تووہ امریکی سیاست کے اُفق پر جگمگانے کے لیئے ایک بار پھر سے اپنی دولت خرچ کرنے سے ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔جینائٹ لی کی زندگی سے اگر ہمارے سیاست دان چاہیں تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

انعامی لاٹری سے متعلق چند دلچسپ اور منفرد حقائق
٭……دنیا کی پہلی انعامی لاٹری ”کینو سلپ“ کھیلے جانے کے آثار قدیم چین میں 201 سے 187 قبل مسیح کے درمیان ملتے ہیں۔کہاجاتاہے کہ قدیم چین میں ”کینو سلپ“ نامی انعامی لاٹری سے حاصل ہونے والی رقم سے دیوار چین کی تعمیر میں مالی اعانت حاصل کی گئی تھی۔ جبکہ ایسا ہی کچھ رومن حکمران آگسٹس سیزر کے بارے میں بھی تاریخی کتب میں درج ہے کہ اس نے شہر کی مرمت کے لیئے رقم حاصل کرنے کے لیئے سرکاری سطح پر انعامی لاٹری کے ٹکٹس عوام کو فروخت کے لیئے جاری کیئے تھے۔
٭……اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جون آرکینتھرجو ایک ماہر ریاضی دان تھے،اُن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اپنی ذہانت سے انعامی لاٹری کے مشکل الگورتھم کو توڑ کر انعامی لاٹری جیتنے کا نسخہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ حیران کن طور پر،پروفیسر جون آرکینتھر مختلف انعامی لاٹریوں سے چار بار جیک پاٹ اور دودرجن سے زائد بار دیگر چھوٹے انعام جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔
٭……امریکی شہری دنیا بھر میں سب سے زیادہ انعامی لاٹری کے ٹکٹ خریدتے ہیں۔ایک سروے کے مطابق امریکی ہر سال لاٹری ٹکٹوں پر تقریبا70.15 بلین ڈالر خرچ کردیتے ہیں۔ایک امریکی شہری لاٹری کے ٹکٹوں پر موسیقی، کتابوں، فلموں اور ویڈیو گیمز سے بھی زیادہ رقم خرچ کرتاہے۔
٭……نیویارک کے شہری امریکا میں سب سے زیادہ انعامی ٹکٹ خریدتے ہیں۔نیویارک میں سالانہ 9 بلین ڈالر کے انعامی ٹکٹ فروخت ہوجاتے ہیں۔
٭……اینڈریو ”جیک” وائٹیکر نے دسمبر 2002 میں 315 ملین کا پاور بال جیک پاٹ جیتاتھا۔بدقسمتی سے انعامی رقم وصول ہونے کے اگلے ہی دن اس کے گھر ڈاکا پڑا جس میں اس کی بیٹی اور پوتی کی موت واقع ہوگئی۔اپنے اہل خانہ کی تدفین کے وقت وائٹیکرروتے ہوئے بار بار یہ ہی کہتا جارہا تھا کہ”کاش میں نے اس انعامی ٹکٹ کو پھاڑ ڈالاہوتا“۔
٭……ماہرین ریاضیات کے مطابق آپ چاہے انعامی لاٹری کے ایک ہزار ٹکٹس خریدیں یا صرف ایک انعامی ٹکٹ۔ بہرحال آپ کے انعام جیتنے کاچانس بغیر کسی کمی بیشی کو یکساں رہتاہے۔یعنی 292,201,338 کے مقابلہ میں صرف ایک۔
٭……عام طور پر دنیا بھر میں انعامی لاٹریوں کا انعقاد سرکاری سرپرستی میں کیا جاتاہے اور انعامی لاٹری ٹکٹس کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی رفاح عامہ جیسے ٹیکس سے نجات، بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، کھیلوں کی سہولیات اور بڑے تعمیراتی منصوبوں وغیرہ پر خرچ کی جاتی ہے۔
٭……معروف برطانوی انعامی لاٹری کمپنی ”کیمرلوٹ گروپ“ کی جانب سے جمع کردہ اعداد وشمار کے مطابق انعامی لاٹری جیت جانے والے فاتحین میں 48 فیصد خوش قسمت افراد اپنی پرانی ملازمت کو انعامی رقم حاصل ہوجانے کے بعد بھی بدستور جاری رکھتے ہیں۔
٭……ایک بین الاقوامی سروے کے مطابق انعامی لاٹری جیتنے والے فاتحین میں سے 99 فیصد افراد دوبارہ انعامی لاٹری ٹکٹ ضرور خریدتے ہیں۔جبکہ ان میں 70 فیصد افراد یہ یقین رکھتے ہیں وہ دوبارہ انعامی لاٹری جیت جائیں گے۔
٭……دنیا کا معروف ترین ”برٹش میوزیم“ بھی انعامی لاٹری سے حاصل ہونے والی آمدنی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ 1753 میں برطانوی حکومت نے ”برٹش میوزیم“ کی تعمیر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک خصوصی انعامی لاٹری کا اجراء کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 250 سال بعد بھی ”برٹش میوزیم“کو ہیریٹیج لاٹری فنڈ گرانٹ کی طرف سے خصوصی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ نیز ہیریٹیج لاٹری فنڈ، نیشنل لاٹری سے ملنے والے نفع سے بہت سارے دیگر برطانوی اداروں کو بھی مالی اعانت فراہم کرتا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سےپہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 18 اکتوبر 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں