Lockdown-in-karachi-coronavirus

لاک ڈاؤن کب تک جاری رہے گا؟

کوئی مانے یا نہ مانے بہرحال سندھ میں سب سے پہلے لاک ڈاؤن کرنے کا اوّلین فائدہ تو یہ ضرور ہوا ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ بڑی حد تک روک دیا گیا ہے۔ جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ کراچی، حیدرآباد، دادو، لاڑکانہ،جیکب آباد اور سکھر کے علاوہ صوبہ کے باقی 20 اضلاع ابھی تک کورونا وائرس سے مکمل طور پر محفوظ و مامون ہیں اور تاحال اِن 20 اضلاع میں سے کسی بھی ضلع میں رہنے والے شخص کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت نہیں آیا ہے۔ جبکہ کورونا وائرس کے مقامی منتقلی کے مریض بھی اَب تک صرف اور صرف کراچی اور حیدرآباد میں ہی سامنے آئے ہیں۔ اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ کی طرف سے صوبہ بھر کو بروقت لاک ڈاؤن کرنے کا اقدام ملکی حالات کی حالیہ نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل صحیح فیصلہ ثابت ہوا،جس کے نتیجے میں کم و بیش 80 فیصد صوبے میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ مکمل طور پر روک دیا گیا ہے۔اس غیر معمولی صورت حال کا مشکل اور بحرانی کیفیت میں سب سے بڑا فائدہ یہ حاصل ہورہاہے کہ چونکہ کورونا وائر س سندھ کے فقط تین یا چار شہروں تک ہی محدود ہے۔ لہٰذا ریاستی اداروں کو کورونا وائرس کے خلاف پورے ارتکاز اور مجتمع قوت سے لڑنے میں آسانی ہورہی ہے۔ اگر خداانخواستہ کورونا وائرس کے متاثرہ مریض پورے صوبے میں شہر شہر پھیلے ہوتے تو حکومتی اداروں کو کورونا وائرس کے انسداد اور متاثرین کو طبی امداد بہم پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑسکتاتھا۔

اگر سندھ میں ہونے والے لاک ڈاؤن کے عملی نفاذ کی بات کی جائے تو اُس میں بھی سندھ حکومت کی کارکردگی وفاق اور دیگر صوبوں کے مقابلے میں کافی حد تک اطمینان بخش اور متاثر کُن رہی ہے۔سندھ کے لاک ڈاؤن کو پاکستان کے دیگر صوبوں میں ہونے والے ہومیوپیتھک لاک ڈاؤن کے مقابلے میں بلاشبہ ایک مکمل لاک ڈاؤن قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس میں حقیقی معنوں میں حکومتی حلقوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیئے ہر ہر سطح پر محنت اور کوشش کی گئی۔خاص طو پر سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کے فقط سرکاری حکمنامہ پر ہی انحصا ر کرنے کے بجائے صوبے میں اثرورسوخ رکھنے والی تمام سیاسی،سماجی،تجارتی تنظیموں کو بھی اِس بات پر اپنا ہم خیال بنانا ضروری سمجھا کہ صوبے میں ہونے والا ایک کامیاب اور مکمل لاک ڈاؤن کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیئے کتنا ضروری ہے؟۔ وسیع سطح پر ہونے والی مشاورت کا یہ فائدہ ہوا کہ صوبہ سندھ میں 90 فیصد علاقے میں اَب تک انتہائی کامیابی سے ساتھ لاک ڈاؤن جاری ہے اور کسی بھی جگہ یا مقام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہریوں کی جانب سے مزاحمت یا مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا۔ حالانکہ سندھ میں جاری لاک ڈاؤن میں ”قانونی سختی“کا یہ عالم ہے کہ صوبہ بھر میں شام 5 بجے کے بعد تو کرفیو کا گمان ہونے لگتا ہے،لیکن اِس کے باوجود شہریوں کی اکثریت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھرپور اندا ز میں تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔



ہاں! سندھ حکومت سے لاک ڈاؤن کے نفاذ میں ایک بڑی غلطی ضرور سر زد ہوئی اور وہ یہ کہ انہوں نے لاک ڈاؤن کے عرصہ میں ہونے والے نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو مختصر یا محدود کرنے کے لیئے جاری کیئے جانے والے اپنے حکمنامہ پر صوبہ کے علماء،مشائخ اور مذہبی طبقہ کے نمائندہ رہنماؤں کو اعتماد میں لینے یا اُن سے مشاورت کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی۔شاید سندھ حکومت نے اپنے دانست میں خیال کیا ہوگا کہ اُن کے جاری کردہ حکمنامہ پر ہی لوگ نمازِ جمعہ کوترک کردیں گے۔ حالانکہ نماز ہمیشہ سے ہی ایک ایسا دینی فریضہ رہا ہے،جس کے متعلق مسلمانوں کی اکثریت نے سوائے علمائے کرام کے کبھی کسی اور کی بات نہ تو سُنی ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی سنے گی۔چونکہ سندھ حکومت نے نماز جمعہ پر علمائے کرام کو اعتماد میں نہیں لیا تھا لہٰذا صوبہ کے اکثر شہروں میں نماز جمعہ کے اجتماعات کے لیئے لوگ جوق در جوق مسجدوں میں پہنچ گئے اور جب انہیں پولیس کی طرف سے بزورِ طاقت روکنے کی کوشش کی گئی تو کئی جگہوں پر اَمن و اَمان کی صورت حال کشیدگی کی آخری حدو ں کو چھونے لگی۔ جبکہ بے شمار مسجد کے اماموں کے خلاف مقدمات درج کرکے اُنہیں حوالہ زنداں کردیا گیا،جس کے باعث مذہبی طبقات میں سندھ حکومت کے خلاف نفرت کا الاؤ دہکنے لگا۔ قریب تھا کہ یہ صورت حال بد سے مزید بدتر ہوجاتی کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حالات کی نزاکت اور حسیاست کا بروقت ادراک کرتے ہوئے سندھ بھر کے نمایاں مذہبی رہنماؤں سے ازسرِ نو حکومتی روابط قائم کرکے اُنہیں قائل کرلیا کہ لاک ڈاؤن کے ثمرات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو محدود کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ علمائے کرام نے وزیراعلیٰ سندھ کو اپنی غیر مشروط حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہ آئندہ سے حکومتی احکامات کے تحت ہی نمازِ جمعہ کے اجتماعات کو محدود رکھنے کے لیئے دستِ تعاون دراز کردیا۔ اِس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے مساجد کے پیش اماموں و دیگر افراد کے خلاف قائم کیئے مقدمات ختم کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اُنہیں فی الفور رہا کرنے کا اعلان بھی کیا۔ اگر یہ ہی سب اقدامات سندھ حکومت ابتداء میں ہی اُٹھالیتی تو کتنا اچھا ہوتا،بہرحال دیر آید درست آید کے مصداق آخر میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام تر صورت حال انتہائی خوش اسلوبی سے سنبھال لیا۔

دوسری جانب عام لوگ اَب یہ بھی سوال کررہے ہیں کہ سندھ میں جاری لاک ڈاؤن آخر کب تک اختتام پذیر ہوگا؟۔ گو کہ وزیراعلیٰ سندھ لاک ڈاؤن میں ایک ہفتے کی مزید توسیع کرچکے ہیں لیکن کیا یہ لاک ڈاؤن میں کی جانے والی آخری توسیع ہوگی؟ اور اگلے ہفتہ سے معمولات ِ زندگی رفتہ رفتہ بحال ہونا شروع ہو جائیں گے؟۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات بھی سندھ حکومت کو جلد ازجلد عوام کو فراہم کر دینا چاہیے کیونکہ بہرحال لاک ڈاؤن کو غیرمعینہ مدت تک تو کسی بھی صورت میں جاری نہیں رکھا جاسکتا۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 02 اپریل 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں