Model Town Lahore Rana Sana Ullah

ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے سلگتے انگارے کس کس کو جلائیں گے؟

مشہور ہے کہ شہباز سے زیادہ کسی پرندے کی نظر تیز نہیں،اگر شہباز ہزاروں فٹ کی بلندی پر بھی پرواز کر رہا ہو تو زمین پر گرے ہوئے ایک گندم کے دانے کو بھی بخوبی دیکھ لیتا ہے۔کبھی دنیا کے ہر شہباز کی طرح ہمارے ماڈل ٹاؤن کا شہباز بھی اسی تیز نگاہی کا حامل تھا۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب ابھی 2014 ء نہیں آیا تھا۔ماڈل ٹاؤن کے شہباز کے لیئے 2014 ء سے پہلے ہر دن عید اور ہر رات شب برأت تھی۔ملک کے طول و عرض میں ماڈل ٹاؤ ن کے اس شہباز کے ڈنکے بجتے تھے۔لگتا تھا پورے ملک میں کام صرف یہ شہباز ہی کرتا ہے باقی تو بس سندھ اسمبلی کے اجلاسوں میں خوابِ غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں۔ سندھ کے لوگ بھی اُس زمانے میں سوچتے تھے کہ کاش اُن کے پاس بھی ”ماڈل ٹاؤ ن کے شہباز“ جیسا کوئی شہباز ہوتا۔سندھ کے باسیوں کی یہ خواہش اُس وقت کے حالات اور تناظر میں کوئی اتنی بے جا بھی نہیں تھی۔

آخر ماڈ ل ٹاؤن کے شہباز نے سرزمین ِ پنجاب کو کیا کچھ نہیں دیا تھا۔ترکی میں چلنے والی میٹرو بس سروس دی،کئی عالمی ریکارڈز بنانے کی آزادی دی، نوجوانوں کو لیپ ٹاپ کے تحفے دیئے،امتحانات میں اعلیٰ پوزیشنز لینے والے طلباء کو قیمتی انعامات دیئے،سستی روٹی تنور دیئے،دانش اسکول دیئے اور سب سے بڑھ کر صاف پانی جیسا پروجیکٹ دیا۔ہر طرف سے داد و تحسین نے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کو خود فریبی کی اُس منزل پر پہنچا دیا جہاں سے گرنے والا صرف زمین پر ہی نہیں گرتا بلکہ پاتال کی لامتناہی گہرائیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے گم ہوجاتا ہے اور ہو ا بھی کچھ ایسا ہی کہ کسی دوست نما دشمن نے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کو خبر دی کہ ایک پرانا اور ہم نوالہ رقیب روسیاہ گوروں کی سرزمین میں آپ کے دشمنوں سے میل ملاپ کر کے آپ کو، آپ کی ہی اقلیم میں ٹف ٹائم دینے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔اس خبر نے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کوحواس باختہ کردیا کہ اُس کی دان کی ہوئی جگہ پر گزر بسر کرنے والا ایک بگلہ بگھت اب اُس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر اُسے چیلنج دے گا۔ بس پھر کیا تھا ماڈل ٹاؤن کے شہباز نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کرلیا اور لگا اپنے مصاحبوں سے صلاح مشورہ کرنے کہ اس ہم پیالہ اور ہم نوالہ رقیب روسیا بگلہ بگھت کو ایسا کونسا سبق سکھایا جائے جس سے دنیا بھر پر ماڈل ٹاؤن کے شہباز کی ایسی دہشت بیٹھ سکے کہ آئندہ شہبازوں کے دسترخوان پر خوشہ چیں رہنے والے کسی بھی گستاخ کو دربارِ شاہی سے بغاوت کی جرأت نہ ہو۔مصاحبوں نے ایک سے بڑھ کر ایک سبق سکھانے کے مشورے دیئے لیکن جو مشورہ راجستھان کے شکرے نے دیا وہ ہمارے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کے دل کو بھاگیا اور پھر طے پایا کہ جس نے یہ لاجواب مشورہ دیا ہے وہ ہی اسے اب پایہ تکمیل تک بھی پہنچائے گا۔

راجستھان کا شکرا ایسا سنہری موقع بھلے اپنے ہاتھ سے ضائع ہونے دیتا،اُس نے جھٹ ماڈل ٹاؤن کے شہباز کو لمبی تان کر سونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اب بے فکر ہوجائیں آپ کے دشمنوں کی نیندیں حرام کرنے کے لیئے جو ذمہ داری مجھے تفویض کی گئی ہے میں اُسے بہ حسن و خوبی انجام دوں گا۔جیسا کہ مشہور ہے کہ راجستھانی لوگ اپنے قول کے پکے ہوتے ہیں۔اس چیز کا ثبوت دیتے ہوئے راجستھانی شکرے نے پورے لاؤلشکر کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پر دھاوا بول دیا۔ہدف یہ تھا کہ رات کی تاریکی میں ہی ساری داستانِ حرم سمیٹ دی جائی گی مگر بُرا ہو جدید ٹیکنالوجی کا جس کی وجہ سے حملہ آوروں کے بہیمانہ تشدد کے مناظر آناً فاناً ماڈل ٹاؤن کی فضاؤں سے نکل کر ہر گھر کی ٹی وی اسکرین کی زینت بن گئے اور دبے پاؤں شروع ہونے والی کارروائی کی چاپ،شہر شہر،نگر نگر سنی جانے لگی۔ہر دیکھتی آنکھ اور سنتے کان حیران پریشان تھے کہ آخر ماڈل ٹاؤن میں ایسا کونسا غیر قانونی کام ہوگیا جسے قانونی شکل دینے کے لیئے پورے پنجاب کا قانون اپنے آپے سے باہر ہوتا جارہا ہے۔رات کے آخری پہر سے شروع ہونے والی کارروائی جب دن کے دوسرے پہر تک آپہنچی لیکن نتیجہ صفر جمع صفر ہی رہا توطاقت کی اس پسپائی نے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کی پوری سپاہ کو آگ بگولا کردیا۔ذہنو ں اور دلوں میں لگنے والی یہ وہ آگ تھی جسے خون کی بارش ہی بجھا سکتی تھی۔

پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ ماڈل ٹاؤن میں خون کی وہ بارش ہوئی جیسی کبھی تاریخ کے اوراق میں جلیانوالہ باغ میں ہوئی تھی۔اس خون آشام بارش نے ماڈل ٹاؤن کے شہباز کو فتح مندی کی وہ سرشاری عطاکردی جس کی صرف تمنا ہی کی جاسکتی تھی۔مقصد حاصل ہوچکا تھا،جنگ جیتی جاچکی تھی اب صرف ایک ہی کام باقی رہ گیا تھا کسی طرح خون بہانے کا الزام بھی اُنہیں کے سر تھوپا جائے جن کے سر اس معرکہ میں کٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے زمین بوس ہوچکے تھے۔یہ کوئی ایسامشکل کام نہیں تھا بس راجستھان کے شکرے کو کچھ وقت کے لیئے آرام کروانا تھا جو کہ اتنی بڑی کارروائی کے بعد بنتا بھی تھا اور ایک کمیشن بنانا تھا جو یہ ثابت کرسکے کہ خونِ ناحق بہانے کے اصل ذمہ دار وہ لوگ تھے جو”حق“ پر تھے۔سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے عین مطابق ایک من چاہا کمیشن بنا دیا گیا۔ وقت گزرتا رہا کمیشن کی کارروائیاں چلتی رہیں اور احتجاج کی گرد آہستہ آہستہ بیٹھتی رہی۔

ماڈل ٹاؤن کے شہباز کے دبدبے کو قائم کرنے میں جن نفوس نے بھی دامے ورمے سخنے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اُن سب کواُن کی اوقات سے بھی بڑھ چڑھ کر نواز گیا۔مگر کبھی کبھار چال اُلٹی بھی پڑ جاتی ہے یہاں صرف چال ہی نہیں بلکہ پور ی بساط ہی اُلٹ گئی اور ماڈل ٹاؤن کے شہباز کی ہرکامیابی ناکامی میں بدل گئی۔ میٹرو سروس کرپشن سے جاکر ٹکراگئی، عالمی ریکارڈ ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے،نوجوانوں کو دیئے گئے لیپ ٹاپ پی ٹی آئی کے گن گانے لگے، سستی روٹی پھر سے مہنگی ہوگئی،دانش اسکول جاہلوں کے ہتھے چڑھ گئے، صاف پانی پروجیکٹ بھی ایک باس مارتی دلدل بن گیا حد تو یہ ہے کہ ماڈل ٹاؤن کے شہباز کا کمیشن کی جس رپورٹ پر تکیہ دھرا تھا اُس میں بھی کاتبِ تقدیر نے انگارے بھر دیئے۔لیکن صرف انگاروں سے بھلا کیسے ماڈ ل ٹاؤن کے شہباز کے آشیانے کو آگ لگ سکتی ہے جب کہ موسم بھی سردی کاہو۔اس لیئے اب ماڈل ٹاؤن کے شہباز کے تمام دشمن ان انگاروں کو اپنے جذبات کی ہوا دے رہے ہیں تاکہ کمیشن کے سلگے ہوئے انگاروں میں آگ بڑھک سکے جو ماڈل ٹاؤن کے شہباز کے آشیانہ کو جلا کر بھسم کردے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ان انگاروں میں آگ بھڑکائی جاسکے گی بھی یا نہیں۔ایک بات طے ہے کہ اگر ایک مرتبہ آگ بھڑک گئی تو پھر ماڈل ٹاؤن کے شہباز کواور اُسکے مصاحبوں کو جائے امان کہیں بھی نہیں ملے گی یہ سب جانتے ہیں،آگ بھڑکانے والے بھی اور اس میں جلنے والے بھی۔ہمیں تو نہ آگ بھڑکانے والوں سے کوئی غرض اور نہ جلنے والوں سے ہمیں تو صرف اس بات سے دلچسپی ہے کہ اگر یہ آگ واقعی بھڑک گئی اور اس کی زد میں آکر ماڈل ٹاؤن کے شہباز کا پورا کا پورا آشیانہ جل بھی گیا تو پھر اس آگ سے اپنے ہاتھ کون کون سینکے گا؟

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہورمیں 21 دسمبر 2017کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں