Load shading

شدید گرمی میں شدید ترین لوڈ شیڈنگ کا عذاب

ویسے تو موسمِ گرما کا آغاز ہوتے ہی پورے ملک میں لوڈ شیڈنگ کے دورانیے میں اضافہ ہو گیا ہے، حکومتی حلقوں کی جانب سے جس کی وجہ منگلا ڈیم میں پانی ڈیڈلیو ل پر پہنچنے سے 970 میگاواٹ بجلی سسٹم سے نکل جانے کو قرار دیا جارہا۔ لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ کے دورا نیہ میں اضافے کا زیادہ تر حصہ جنوبی پنجاب، بلوچستان اور بالخصوص سندھ کے صارفین پر ڈالا جا رہا ہے۔ جس کے بعد سندھ کو بجلی فراہم کرنے والی تمام کمپنیوں نے صوبہ بھر میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ کا آغاز کردیا ہے۔جس کی وجہ سے سندھ کے تمام شہری و دیہی علاقوں میں بلا کسی تخصیص طویل ترین اور غیر علانیہ لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔جبکہ کراچی میں بھی بجلی کا بحران اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کو مختص کی گئی 276 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی کے مقابلے میں اس وقت صرف 90ایم ایم سی ایف ڈی گیس مل رہی ہے جو گزشتہ سال اس وقت فراہم کی جانے والی گیس سپلائی کی سطح سے نہایت کم ہے،گیس سپلائی میں کمی کی وجہ سے 5 سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے کرنے والے پیداواری یونٹ کام نہیں کررہے اورسسٹم میں اضافی شارٹ فال کا باعث بن رہے ہیں۔بجلی کی طلب میں اضافے کی وجہ سے شارٹ فال بڑھ گیا ہے۔اس اضافی شارٹ فال کے باعث رہائشی اورتجارتی علاقوں کو کئی کئی گھنٹے کے عارضی تعطل کا سامنا ہے جبکہ صنعتی صارفین کووقفے وقفے سے اوسطاً 6گھنٹے کے تعطل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کراچی شہر کے مختلف علاقوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق گنجان آبادی والے شہری علاقوں میں مجموعی طور پر 8 سے 10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اور شدید گرمی میں طویل دورانیے کی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دی ہے۔بجلی کی عدم فراہمی سے شدید متاثرہ علاقوں میں نارتھ کراچی، عزیز آباد، پی ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال، گلستان جوہر، لیاقت آباد، فیڈرل بی ایریا، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، ماڑی پور، کیماڑی، اولڈ سٹی ایریا، لائنز ایریا، محمودآباد، منظور کالونی، اخترکالونی، کورنگی، لانڈھی، قائد آباد، ملیر، شاہ فیصل کالونی اور دیگر علاقے شامل ہیں جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں بھی 4 سے 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بغیر کسی تعطل کے جاری ہے جبکہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ رات بھر بھی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔کیماڑی میں ساڑھے 7 گھنٹے کی اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور فالٹ کے نام پر 10 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ بڑھ کر 12 گھنٹے تک پہنچ گئی ہیں۔ اس صورتحال سے سب سے زیادہ میٹرک کے امتحانات دینے والے طلبہ و طالبات، بیمار اور بزرگ افراد متاثر ہورہے ہیں، صبح 7 بجے ہی بجلی بند کردی جاتی ہے اسی طرح آدھی رات کو 12 بجے بجلی بندش بھی کی جارہی ہیں۔ مکین گھر کے باہر بیٹھے دن رات کے الیکٹرک کو کوستے نظر آتے ہیں۔
وزیرِاعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی میں بجلی کے بحران کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو خط بھی ارسال کیا ہے جس میں وزیراعلیٰ سندھ نے لکھا ہے کہ کے الیکٹرک کو گیس پاور چلانے کے لئے 190 ایم ایم سی ایف گیس کی ضرورت ہے لیکن اسے 90 ایم ایم سی ایف گیس فراہم کی جارہی ہے جو شہر کی بجلی کی ضرورت پوری کے لئے ناکافی ہے، شہر میں پہلے ہی 400 میگا واٹ بجلی کی قلت تھی اب گیس سپلائی کم ہونے سے مزید 500 میگا واٹ بجلی کم ہوگئی ہے۔ شہر میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 10 گھنٹے تک بڑھ چکا ہے جب کہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ اور صنعتی علاقوں کو بھی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ اور سندھ اور پاکستان کی معیشت بھی متاثر ہورہی ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کی ضد کی وجہ سے کراچی کے گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین کو سخت پریشانی کا سامنا ہے جب کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی متاثر ہے، شہر میں گرمی کا پارہ 40 ڈگری تک پہنچنا اور اس کے ساتھ بجلی کا بحران انتہائی تشویشناک ہے اور اس صورتحال میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔خط میں درخواست کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو 276 ایم ایم سی ایف گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایات جاری کرے، اور ایس ایس جی سی کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلے پر عملدرآمد کا پابند بنائے۔ وزیراعلیٰ نے خط میں کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے مابین واجبات کا تنازعہ حل کرنے کے لئے وفاق، سندھ اور فریقین کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کے قیام کی تجویز بھی دی ہے۔دوسری جانب مشیر اطلاعات سندھ مولا بخش چانڈیو نے کہا ہے کہ ”سندھ پر شدید گرمی کے دوران غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا عذاب مسلط کر دیا گیا ہے، سندھ میں جاری لوڈ شیڈنگ پر وفاقی وزیر گونگے بہروں کی طرح خاموش ہیں۔ انھوں نے وفاقی حکومت سے سوال کیا کہ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعویدار اب مینار پاکستان پر پنکھا کیوں نہیں جھل رہے۔ نوازشریف کیا سندھ کے وزیراعظم نہیں ہیں جو لوڈ شیڈنگ کا نوٹس نہیں لیتے۔ مشیر اطلاعت نے وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کی زبان لوڈ شیڈنگ پر شعلہ کیوں نہیں اگل رہی ہے۔ وزیر اعظم سمیت سب وزراء سندھ میں جاری لوڈ شیڈنگ پر سکتہ کی کیفیت میں ہیں۔
سورج آگ برسا رہا ہے، ایسے میں سندھ بھر میں بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے جینا محال کردیا ہے۔ جبکہ ٹی وی چینلوں پر عوام کو روزانہ ملک بھرسے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سنائی جاتی ہے اورحقیقتِ حال یہ ہے کہ 20،20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا ظلم کیا جارہا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت طویل ہوگیا ہے جس کے باعث معیشت کا پہیہ جام اور روزمرہ کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ سالانہ امتحانات ہورہے ہیں اور طلبہ شدید گرمی اورحبس کے دوران بغیر بجلی کے امتحانی پرچہ جات حل کررہے ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے باجود بجلی کی کمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ لوڈشیڈنگ کے معاملے پر شروع ہونے والی وفاق اورصوبے کے درمیان شروع ہونے والی تازہ کشمکش کو کسی بھی صورت اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلاشبہ صوبوں کو اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جب کہ گیس کے معاملے میں سندھ خودکفیل ہے۔سندھ ملکی معیشت کی بیک بون ہے اور کراچی ملک کا معاشی ہب ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت کو فی الفور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی بلکہ خاتمے پر توجہ دی جانی چاہیے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 12 اپریل 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں