Kashaf-Askari-Park-Jhula

ننھی کشف موت کے جُھولے میں جھول گئی

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں عسکری پارک انتظامیہ کی غفلت نے 14سالہ معصوم بچی کشف کی جان لے لی،معصوم کشف نے حادثہ سے 3دن قبل ہی 12جولائی کو اپنی سالگرہ منائی تھی۔ معصوم کشف چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی اور ماں باپ کی انتہائی لاڈلی تھی۔ویک اینڈ بھی تھا اور اسکول کی چھٹیاں بھی، تفریح کے لئے دادا، دادی اور بہن بھائیوں کے ساتھ عسکری امیوزمنٹ پارک چلی گئی، جدیدجھولوں کی دھوم ان دنوں بہت سنائی دے رہی تھی، مگر کسے معلوم تھا کہ غیر ملکی طرز کے چائنا سے منگوائے گئے یہ جھولے اتنے ناپائید ار نکلیں گے کہ کشف کے لیئے ”موت کا جھولہ“ بن جائیں گے۔ معصوم کشف اکیلی”فرزبی پینڈولم“جھولے میں بیٹھی جو 360ڈگری پر زمیں سے 40فٹ اوپر کچھ یوں گھومتا ہے کہ لوگ تھرل محسوس کرتے ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق ابھی جھولا گھومنا شروع ہی ہوا تھا کہ زوردار آواز کے ساتھ زمین پر آگرا۔ آ ہوں اور سسکیوں کی آواز میں کشف کا بے سدھ زخموں سے چور جسم بھی تھا۔کشف کے بابا کاروباری کام سے تھائی لینڈ میں مصروف تھے، جہاں انہیں یہ افسوسناک خبر ملی،کشف کی والدہ فرط غم بوجھل دل کے ساتھ بار بار ایک ہی التجا کرتی رہیں کہ”ایسے پارکس بند کردئیے جائیں جہاں انسانی زندگی سے زیادہ پیسے کی اہمیت ہو“۔ جھولا گرنے سے 16 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ زخمیوں میں جھولے میں سوار افراد سمیت وہ بھی شامل تھے جو جھولا گرنے سے اس کے نیچے دب گئے۔ ہلاک ہونے والی معصوم کشف کا بھائی بھی زخمی حالت میں زیر علاج ہے۔ جائے حادثہ پر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جھولے کے نیچے دبنے والوں کو نکالا اور ذاتی گاڑیوں کے ذریعے اطراف کے اسپتالوں میں منتقل کیا تاہم اتوار کے روز رش ہونے کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ جھولا ٹوٹ کر زمین پر گرنے سے زور دار آواز آئی جس کے بعد چیخ و پکار شروع ہوگئی اور لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے چلانے لگے۔ قریبی کھڑے لوگوں نے آگے بڑھ کر فوری طور پر متاثرہ مقام سے زخمیوں کو نکال کر اسپتال منتقل کیا۔حادثے کے بعد تمام جھولے بند کردیے گئے اور پارک کو خالی کرالیا گیا۔ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری پارک پہنچ گئی اور صورتحال کو قابو میں کیا۔معصوم کشف کی نماز جناز ہ شرف آباد کے قریبی مسجد میں ادا کی گئی اور اس کی تدفین عیسی نگری قبرستان میں بوجھل دلوں کے ساتھ کردی گئی۔ عسکری پارک میں جھولہ گرنے سے جاں بحق ہونے والی 14 سالہ کشف کی نماز جنازہ میں اہل خانہ اور رشتہ داروں کے علاوہ کمشنر کراچی صالح احمد فاروقی اور ڈی سی ایسٹ احمد علی صدیقی نے بھی شرکت کی۔

14 سالہ کشف کے والد اور بھائی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کشف 6 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی، اس کی 12 جولائی کو سالگرہ تھی، میری والدہ، بیوی اور بچوں نے گھومنے کا پروگرام بنایا، جس وقت واقعہ پیش آیا میں تھائی لینڈ میں تھا۔کشف کے والد نے چیف جسٹس اور آرمی چیف سے واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پارک انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی جائے اور ذمے داروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے، میری بیٹی تو چلی گئی، لیکن کسی اور بچے کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیئے۔ کشف کے 13 سالہ بھائی ایان نے بتایا کہ مجھے اور باجی کو جھولے پر ایک سیٹ پر بٹھایا گیا تھا، سیٹ بیلٹ خراب ہونے کی وجہ سے مجھے اٹھادیا گیا، جب جھولہ گرنے کا واقعہ ہوا تو وہاں انتظامیہ میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا، میری بہن کو 15 منٹ بعد لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکالا۔حادثے کے بعد پارک میں موجود سینکڑوں خواتین واور نوجوانوں نے پارک میں شدید احتجاج کیا، ذرائع کے مطابق دیو ہیکل جھولا بڑے افراد کیلئے بنایا گیا تھا جبکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی ہوس میں اس میں چھوٹے بچے بھی بٹھا دیئے جاتے تھے، حادثے کی اطلاع ملتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد یونیورسٹی روڈ پر جمع ہوئی جسکے باعث ٹریفک معطل ہو گیا۔ واضح رہے کہ مذکورہ تفریحی پارک میں جھولوں کا افتتاح ایک ماہ قبل عیدالفطر کے موقع پر کیا گیا تھا لیکن پارک انتظامیہ کی بے حسی کے باعث جھولوں کی دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا۔کراچی کے عسکری امیوزمنٹ پارک میں جھولا گرنے کے واقعے کی اتبدائی رپورٹ تیار کرلی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ”حادثے کا شکار ہونے والی جھولے کی اونچائی 20سے 30فٹ تھی۔ جھولا چلنے کے دوران مین بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کی وجہ سے گرا۔۔ حادثہ کا شکار جھولے کے 20 بڑے نٹ ایک ساتھ کھل گئے، جبکہ مقامی انجینئرز کے مطابق ایک ساتھ 20 بولٹ ٹوٹنے کاامکان بہت کم ہے۔

گرنے والا جھولا چین سے منگوایا تھا، جھولا لگانے والی چینی کمپنی کے انجینئرز کو بھی فوری طلب کرلیا ہے کیونکہ جھولے چین سے درآمد کیے گئے ہیں اس لیئے چینی سفارتخانے اور پاکستان انجینئرنگ کونسل سے بھی رابطہ کیا گیا ہے،تاکہ جھولے بنانے والی چینی کمپنی کے ماہرین کو بھی تحقیقات کا باقاعدہ حصہ بنا کر اس بات کی تفتیش کی جاسکے کہ آیا یہ واقعہ حقیقت میں ایک حادثہ ہے یا اس میں کوئی تخریبی گروہ بھی ملوث ہوسکتا ہے کہ جس نے جان بوجھ کر جھولے کے نٹ بولٹ ڈھیلے کیئے ہوں تاکہ خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جاسکے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ کراچی کے تمام پارک غیر محفوظ ہیں ان کی کوئی انشورنس نہیں ہوتی جبکہ دنیا بھر میں جھولوں کی تنصیب کا سیفٹی آڈٹ باقاعدہ کمپنیاں کرتی ہیں۔ اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر کے تمام پارک بند کر کے پہلے ان کے محفوظ ہونے تعین کیا جائے کیونکہ بیشتر پارکوں میں جھولے لوکل فٹر نے نصب کئے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 26 جولائی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں