mazar-e-Quaid

جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں

بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں نے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیئے سیاسی گفتگو میں اتنا زیادہ خلط مبحث کردیا ہے کہ اَب عوام جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگے ہیں۔بس یہ جان لیجئے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو ہرضابطہ،قانون اور حدودو قیود سے مکمل طور پر مادر پدر آزاد کردیا گیاہے۔سوشل میڈیا اور نیوز چینلز جھوٹ کی سوار ی بن چکے ہیں،سیاست دان اس جھوٹی سواری کے شہہ سوار ہیں اور جھوٹ کا اصل ہدف و منزل سادہ لوح عوام کے اذہان اور قلوب ہیں۔ جھوٹ کو اتنا سازگار، مناسب اورپرکشش ماحول تاریخ انسانی میں شاید ہی کبھی میسر آیا ہو، جتنا کہ آج کے دورِ پر فتن میں حاصل ہوچکا ہے۔ہر روز سورج طلوع ہوتے ہی جھوٹی خبر،جھوٹا بیان اور جھوٹا دعویٰ باہم مل جل کر ذرائع ابلاغ کی”ڈیجیٹل سواری“ پر سوار ہوکر عام آدمی کے ذہن اور دل کو اپنا شکار بنا نے کے لیئے نکل پڑتے ہیں اور رات کے آخری پہر تک یہ شکاری بلاکسی روک ٹوک کے ساتھ دندناتے پھرتے رہتے ہیں۔جبکہ بے چاری سچائی پا بجولاں جھوٹ کے کٹہرے میں کھڑی بے بسی سے آنسو بہاتی رہتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جھوٹ کے پاؤں ہوتے ہیں؟کہ کسی طرح ان میں بھی بیڑیاں ڈالی جاسکیں یا اسے بھی پاؤں سے پکڑ کر اُوندھے منہ گرایا جاسکے۔تاکہ سچ کی عزت و ناموس جھوٹ کی بے محابہ ”سیاسی دست درازی“ سے محفوظ و مامون ہوسکے۔یاد رہے کہ جھوٹ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈالنا اس لیئے بھی ضروری ہوچکا ہے کہ اَب جھوٹ اور اس کی پروردہ سیاسی قوتوں نے وطن عزیز پاکستان کی سالمیت کے ذمہ دار اداروں کے دامن کو بھی اپنے”سیاسی جھوٹ“ سے آلودہ کرنے کی جسارت شروع کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے: جھوٹی خبر بھی کیا بری خبر ہے۔۔۔!

اپوزیشن الیون کے کراچی میں جلسے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری و رہائی کے موقع پر کھیلاجانے والا مذموم سیاسی کھیل جہاں جھوٹ اور جھوٹوں کی دیدہ دلیری کا ایک شاہ کار تھا،وہیں اس ایک ایکٹ کے ڈرامے نے جھوٹ کے بہت سے پاؤں بھی ظاہر کردیئے ہیں۔ سب سے پہلا جھوٹ یہ بولا گیا کہ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مزار کی بے حرمتی کرنے پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر غیر ضروری اور غیر قانونی تھی۔اس جھوٹ کا پاؤں تب پکڑا گیا جب کیپٹن ریٹائرڈصفدر کی ضمانت کرنے والی معزز عدالت کے روبرو سندھ حکومت کے پراسیکوٹر نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ مزارِ قائد کی بے حرمتی پر ایف آئی آر کاٹنا از حد ضروری ہے کیونکہ مزار قائد کے تقدس کو یقینی بنانے کے لیئے 14 اکتوبر1971 کا آرڈینس اور 1993 تحفظ مزار قائد ایکٹ کا خصوصی وفاقی قانون موجود ہے، جسے صوبائی قانون پر بھی واضح فوقیت حاصل ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مزار قائد ؒ کی ہونے والی بے حرمتی پر اگر سندھ پولیس کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے میں اپنی روایتی سیاسی جانب داری اور غیر قانونی تساہل سے کام نہیں لیتی تو وفاقی اداروں کو آئی جی سندھ پولیس مشتاق مہر کو ایف آئی آر کاٹنے کے لیئے قائل کرنے کی کبھی زحمت ہی نہیں اُٹھانا پڑتی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی اداروں پر مزار قائدؒ کی بے حرمتی کے ملزم کیپٹن ریٹائر صفدر کے خلاف ایف آئی آرکٹوانے کے لیئے شدید عوامی دباؤ تھا۔ اس دباؤ کا اندازہ معروف ادیب،دانشوراور ڈرامہ نگار جناب مستنصر حسین تارڑ کے اُس مبینہ کھلے خط کے مندرجات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے،جو مزار قائد کی پامالی کے غم میں بطور احتجاج لکھا گیا تھا۔مستنصر حسین تارڑ اپنے احتجاجی خط میں لکھتے ہیں کہ”میں بہت دُکھ میں ہوں، میں نے اپنی آنکھوں سے اسلامیہ کالج لاہور میں قائد اعظم ؒ کو تقریر کرتے دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے۔اَب انہیں آنکھوں سے دیکھا کہ قائد اعظم ؒ کی قبر کے گرد ایک ہجوم ہے اوروہ پاگلوں کی مانند سیاسی نعرے لگائے جارہا ہے،خواتین ان نعروں کو احترام سے سُن رہی ہیں۔قائد اعظم کی قبر کو روندا جارہاہے۔اس قوم کے باپ کی بے عزتی کی جارہی ہے اور وہاں نعرہ زن جو بھی لوگ تھے میں اُن پر۔۔۔بھیجتاہوں۔میں آج خوداپنے آپ کو مجرم سمجھتا ہوں کہ میں اس قوم کا حصہ ہوں۔جس نے اپنے باپ کی تذلیل کی،مجھے سنگسار کر دیجئے،مجھے دار پر چڑھادیجئے،مجرم میں ہوں اور اس جرم کی معافی نہیں مل سکتی“۔صرف مستنصر حسین تارڑ ہی کیا معروف اداکار خالد انعم،فخر امام اور آمنہ الیاس سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے مزار قائد کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹنے کا ایک بار نہیں بلکہ باربار مطالبہ کیا لیکن جب 17گھنٹے گزرنے کے بعد بھی سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے کان پر کوئی جوں نہ رینگی تو چارونا چار وفاقی اداروں کو ایک چھوٹی سی ایف آئی کار کٹوانے کے لیئے بھی دباؤ ڈالنا تو پڑا تو وفاقی اداروں کی اس قابل تحسین کوشش کوجس انداز سے سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کی گئی،وہ ہر ذی شعور شخص کے لیئے سمجھ سے یکسر بالاتر تھی۔

دوسری دروغ گوئی مریم نواز نے پریس کانفرنس میں یہ فرمائی کہ”سندھ رینجرز نے اُن کے ہوٹل کا گھیراؤ کیا اور کمرے کا دروزہ توڑ کر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو گرفتار کرکے لے گئے“۔اس جھوٹ کا پاؤں بھی آخر کار ہوٹل میں لگی سی سی ٹی وی فوٹیج کے منظر عام پر آنے کے بعد بے نقاب ہو ہی گیا۔کیونکہ فوٹیج کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کے لیئے تما م تر کارروائی پولیس اہلکاروں نے کی تھی،جبکہ کمرے کا تالا توڑنے کا مقدس ترین فریضہ مریم نواز کے ذاتی محافظ نے فقط اس لیئے انجام دیا تاکہ بوقت ضرورت مریم بی بی کی سیاست کا چاند چڑھانے کے لیے صورت حال میں جھوٹ کے سیاہ رنگ بھرکر اُسے مزید رنگین سے سنگین تر بنایاجاسکے۔ اَب بس! ایک آخری سچ یا پھر جھوٹ کا ثابت ہونا باقی رہ گیا ہے کہ کیا آئی جی سندھ مشتاق مہر کو اغواکیا گیا تھا یا نہیں؟۔یقینا آئی جی سندھ کے گھر میں اور باہر بھی سی سی ٹی وی کیمرے ضرو ر نصب ہوں گے۔سندھ حکومت کو چاہئے کہ وہ اُن کیمروں کی فوٹیج بھی منظر عام لے آئے یا پھر آئی جی سندھ کے اغواء کی ایک عدد ایف آئی آر سرکاری مدعیت میں درج کروا کر اپنے اُدھورے سچ کو پورے سچ میں بدل کر وفاقی حکومت کے مقابلہ میں شاندار اخلاقی و سیاسی برتری حاصل کرلے۔بہر کیف اگر سندھ حکومت ان دو بے ضرر سے کاموں میں سے ایک بھی نہیں کرنا چاہتی تو پھر خاطر جمع رکھیئے کہ پکڑنے والے اس جھوٹ کے پاؤں میں بھی بیڑیاں ڈالنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اگرخدانخواستہ جھوٹ کے پاؤں میں سچ کی بیڑیاں نہ پہنائی جاسکی تو پھر ابھی تو صرف ملکی اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ناکام کوشش کی گئی ہے۔مگر ڈر ہے کہ کہیں اگلی بار واقعی ملکی اداروں کی اینٹوں سے اینٹیں بجانے کا برسوں پرانا خواب حقیقت میں نہ بدل دیا جائے۔
جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں اگر تُو بولے
آج مجھ کو تری تقریر سے اندازہ ہوا

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 29 اکتوبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں