Lawers-Protest-in-Lahore

سارے حق وکیلوں کے۔۔۔!

اگر طاقت کے گھوڑے کی وقت پر لگام نہ کَسی جاسکے تو پھر ایک نہ ایک دن وہ بدنصیب لمحات ضرور آ جاتے ہیں جب طاقت کا یہ منہ زور گھوڑ ااپنے سوار کو ہی پیروں تلے روند ڈالتا ہے۔ یقینا اِس بار بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے کیونکہ چند برس قبل وکلاء تحریک کی کامیابی کے نتیجہ میں وکلاء طاقت کے سر پٹ ڈورتے گھوڑے پر کسی نہ کسی طرح سوار تو ہوگئے تھے لیکن طاقت کو بد مست گھوڑے کو صبر،ضبط اور شانتی کی لگام ڈالنابھول گئے۔ جس کا خمیازہ اَب اُنہیں اس صورت میں ادا کرنا پڑرہا ہے کہ کل تک جس طاقت کے گھوڑے پر وہ سوار ہوکر یہاں سے وہاں قانون کا پھریرالہراتے ہوئے بڑی شان سے پھراکرتے تھے،آج وہی طاقت کا گھوڑا پوری وکلا برادری کو اپنے پاؤں تلے انتہائی برے طریقے سے روند تاجارہا ہے اور وہ کچھ نہیں کر پارہے۔ پی آئی سی واقعہ نے وکلاء تحریک کے چہرہ پر بدنامی کی وہ سیاہ کالک مل دی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں قانون و انصاف کا دفاع کرنے والے بیچارے معزز ججز صاحبان بھی سہم کر رہ گئے ہیں۔ خاص طور لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج جناب علی باقر نجفی کے ریمارکس جو کہ انہوں نے پی آئی سی حملہ کے الزام میں گرفتار وکلاء کی رہائی کی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے دیئے ہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ چند وکلاء کے انسانیت سوز اور ناعاقب اندیش رویہ کی وجہ سے قانون کی بالادستی کا عَلم اُٹھانے والوں کو کس درجہ کر ب و اضطراب میں مبتلاء کردیا گیاہے۔

پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکلاء کے حملہ آور ہونے کے بعد کی ویڈیو فوٹیج دیکھتے ہوئے انسان خود کلامی پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا قانون کے تحفظ کا حلف اُٹھانے والے اپنے انتقام کی پیاس بجھانے کے لیئے اِس حد تک بھی خود کو گرا سکتے ہیں کہ دم توڑتے،بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے جان بہ لب مریضوں کے چہروں سے آکسیجن ماسک اُتارتے ہوئے بھی اُن کے ہاتھوں پر لرزہ طاری نہ ہواور اُن کی انسانیت سوز حرکت کی وجہ سے 3 معصوم مریض جن کا اُن کے دشمنوں کے ساتھ دُور دُور تک بھی کوئی تعلق نہ بنتا ہواپنی زندگی کی بازی ہار جائیں۔ سب سے زیادہ قابلِ افسوس بات تو یہ ہے کہ وکلاء تنظیموں کو اَب تک اِس سارے سانحہ پر ذرہ برابر بھی رنج، افسوس،ندامت یا احساسِ گناہ نہیں ہے۔بلکہ اُلٹاوکلاء تنظیمیں اور بارکونسلیں اُن وکیلوں کی رکنیت یکے بعد دیگرے منسوخ کررہی ہیں جو پی آئی سی واقعہ میں ملوث ظالم وکیلوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں ہچکچاہت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔جبکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک نئی مبینہ ویڈیو کے مطابق کراچی کے چند وکلاء اپنے بیانات میں پاکستان بھر کے ڈاکٹروں کو کھلم کھلا دھمکی دیتے ہوئے خبردار کر رہے ہیں کہ ”پہلے ہم پر ڈاکٹروں نے حملہ کیا تھا،اُس کے بعد انہیں ہماری طرف سے جواب دیا گیا ہے، کہیں کا بھی اسپتال ہو، سرکاری ہو یا غیر سرکاری ہم ڈاکٹروں کو نہیں چھوڑیں گے اور جن وکلاء نے بھی ڈاکٹروں کو مارا ہے ہم ان کی سپورٹ میں کراچی سے نکل رہے ہیں اور کل لاہور کا کوئی ڈاکٹر اور کوئی اسپتال نہیں بچے گا۔اگر یہ ڈاکٹر اور پولیس پروٹیکشن چاہتے ہیں تو ہم سے معافی مانگیں“۔سوشل میڈیا پر جاری ہونے والے اِس طرح کے منافرت آمیز ویڈیو بیانات واضح کرتے ہیں کہ وکلاء برادری کے عزائم کس قدر خطرناک ہیں۔



دوسری جانب اگر وکلاء تنظیموں اور بارکونسلز سے تعلق رکھنے والے ملک کے مایہ ناز بزرگ ترین وکلاء رہنماؤں کا پی آئی سی سانحہ پر جانب دارانہ رویہ ملاحظہ کیا جائے تو ہر پاکستانی کا سر شرم سے کچھ اور بھی جھک جاتاہے کیونکہ وکلاء کے سینئر رہنماؤں کی اکثریت بھی پی آئی سی سانحہ پر وکلاء کی غلطی کو تسلیم کرنے سے مکمل طور پر صاف انکاری دکھائی دیتی ہے اور اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق مختلف نیوز چینلز پر پی آئی سی واقعہ میں ملوث وکلاء کا کھل کر دفاع کررہی ہے۔ بدقسمتی کی بات تو یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ معاشرہ کے اُن پڑھے لکھے،شارحین ِ قانون کی طرف سے ہورہا ہے،جو عام لوگوں کو اپنا ہر مسئلہ اور تنازعہ کے پر امن تصفیہ کے لیئے کورٹ اور کچہری کا راستہ اپنانے کا درس دینا اپنا فرض ِ عین سمجھتے ہیں۔ لیکن جب اپنی باری آئی ہے تو یہ ہی وکلا ء برادری تنازعہ کو کسی کورٹ یا کچہری میں لے جاکر قانونی طور پر حل کرنے کے بجائے دھونس،ڈنڈے اور دھمکیوں کے ذریعے یا ہسپتالوں پر حملہ آور ہوکر حل کرنے کے پرتشدد راستہ پر خراماں خراماں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ جس تنازعہ کو یہ وکلاء برادری پرتشدد تحریک سے حل کرنا چاہتی ہے اگر تھوڑے سے تدبر اور صبر و تحمل سے کام لے تو باآسانی اُن تمام ڈاکٹروں کو جو ان کے نزدیک ”سرٹیفائیڈ مجرم“ہیں۔انہیں اپنی متعلقہ عدالتوں میں لے جاکر انصاف کے سنہری اُصولوں کے مطابق بھی پرامن طریقے سے حل کرسکتی ہے۔ کیونکہ سب اچھی طرح جانتے ہیں قانون کے تمام اسرار رموز وکیلوں سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے۔یقینا اگر ڈاکٹر گنہگار ہیں تو یہ تمام قابل وکیل مل کر اُنہیں قانون کی نظروں میں مجرم ثابت کرکے پاکستان کے آئین کے مطابق قرار واقعی سزا بہت آسانی سے دلوا سکتے ہیں۔ مگر یہ راستہ تو وہ اختیار کرے گا نا کہ جسے قانون کی بالادستی اعتماد بھی ہوگا۔کاش معزز وکلاء برادری دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے اور اپنی معزز عدالتوں پرمکمل اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس سارے تنازعہ کو گلی گلی رسوا کرنے بجائے معزز جج صاحبان کی صوابدید پر چھوڑ دے تو اُمید کی جاسکتی ہے یہ مسئلہ بہ احسن و خوبی حل ہوجائے گا لیکن اگر وکلاء انتقام لینے کی ضد پر ہی اَڑے رہے تو پھر۔ بقول رہبر جونپوری
ظلم و تشدد کے شیدائی شاید تجھ کو علم نہیں
تیرے بھی سپنے ٹوٹیں گے میرے ہر اِک خواب کے ساتھ

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 16 دسمبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں