Zia Lanjar

وزیر قانون سندھ کی قانون شکنی۔۔۔

پاکستان اور خاص کر سندھ میں ’کینسر کی بیماری‘ سب سے سستی ہے۔ صرف چند روپے دیں اور ’بیماری‘ ساتھ لے جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے سندھ میں اتنی سستی تو ایک روٹی نہیں ملتی،لیکن، کینسر کے ہاتھوں مرنے کے لئے المونیم سے بنا ”گٹکا“ضرور مل جاتا ہے۔سرکاری ہو،پرائیویٹ ہو یا ملٹی نیشنل کمپنی کا آفس،کہیں بھی چلے جائیے، سب سے زیادہ سپاری، گٹکے اور مین پوری کے ریپر آپ کو یہاں وہاں، یا۔۔ کونے کھدروں میں پڑے مل جائیں گے۔کیا امیر اور کیا غریب گٹکے، سپاری اور مین پوری کھانے والوں میں اس طرح کی تفریق نہیں۔ البتہ، جو اچھی مالی حیثیت رکھتے ہیں وہ پڑوسی ملک کے مہنگے گٹکے اور جو مالی حیثیت میں ذرا کم ہیں،وہ لیاقت آباد، گولیمار، نیوکراچی، رنچھوڑ لائن، گارڈن، گھانس منڈی، سولجر بازار، پرانا گولیمار، ناظم آباد، سرجانی ٹاؤن میں بنے مقامی گٹکے کھاتے ہیں۔لیکن اس بار تو حد ہی ہوگئی سندھ میں ”گٹکے“ کے خلاف قانون بنانے والے خود ہی قانون شکن نکلے، وزیرقانون سندھ سمیت حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی اور وزیر قانون نے ایوان میں بیٹھ کر قانون کی دھجیاں اڑا دیں۔ منگل کو اسپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کی زیرصدارت اجلاس میں وزیرقانون ضیاء الحسن لنجار اور پی پی رکن فراز ڈیرو گٹکا کھاتے ہوئے پکڑے گئے۔اسپیکر نے ایوان میں بیٹھ کر گٹکا کھانے والے ارکان کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو گٹکا کھانا ہے تو ایوان سے باہر جا کر کھائیں، اسپیکر کی سرزنش پر گٹکا کھانے والے ارکان کو ایوان سے باہر جانا پڑ گیا۔کیونکہ قانونی طور پر سندھ بھر میں گٹکے کی تیاری اور فروخت پر پابندی عائد ہے اور سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے تحت پولیس بھرتیوں میں ایسے امیدواروں کو منتخب نہیں کیا جائے گا جو گٹکا کھاتے ہوں۔

یہ زہر آلود ”گٹکا“ بہت سی چیزوں کو ملا کر بنایا جاتا ہے۔ان چیزوں کے بارے میں جان کر آپ حیران ہو ں گے، لیکن کھانے والوں کو نہ حیران ہونے کی فرصت ہے نہ پریشان ہونے کی، بس کھائے چلے جار ہے ہیں۔اس میں کیڑا لگی ہوئی چھالیہ، بیٹر ی کا استعمال شدہ پانی، چونے کا پساہوا پتھر، تمباکو، پسہ ہوا کانچ، رنگ ملا کتھّہ، افیون، اسغول، خوشبو والے ذائقے دار فلیور، مختلف کیمیکلز اور خون شامل کیا جاتا ہے۔ان تمام چیزوں کے ملنے سے جو چیز تیار ہوتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے پیکٹوں کی صورت میں پان کی دکانوں پر عام ملتی ہے اور گُٹکا کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔کراچی کے ایک ڈاکٹر جنا ح ہسپتال میں معالج ہیں،ان کا کہنا ہے روزانہ تقریباً 150مریض منہ، زبان، گلے اور گردن کے کینسر کے علاج کی غرض سے آتے ہیں اور ہرسال تقریباً بیس ہزار کینسر میں مبتلا لوگ علاج کے لیے آتے ہیں ان کے علاوہ اب گٹکے سے اور بھی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ان میں ہارٹ اٹیک، معدے میں تیزابیت، بلڈ پریشر اور نفسیاتی بیماریاں شامل ہیں،ڈاکٹر صاحبان کہتے ہیں کہ کینسر کی بیماری اگر پہلے سٹیج پر ہی معلوم ہو جائے تو احتیاط کر کے اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے مگر یہ بیماری جان لے کر ہی چھوڑی ہے۔کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو روزآنہ 70، 80 روپے کماتے ہیں، لیکن ان میں سے 30، 40 روپے کے گٹکے کھا جاتے ہیں۔گٹکے کھانے والوں میں ان پڑھ اور آوارہ لڑکے ہی شامل نہیں، پڑھے لکھے اچھے گھرانوں کے لڑکے بھی شامل ہیں۔وہ اپنے والدین سے چھپ کر گٹکا کھاتے ہیں۔ لوگ آسانی سے گٹکا، پان، مین پوری یا سپاری کھانا چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ اس سوال پر گٹکا تیار کرنے والے ایک ’کاریگر‘ نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا ’گٹکا جن چھالیوں سے تیار کیا جاتا ہے اس میں فنگس یعنی پھپھوندی آ جاتی ہے۔ اسے عام زبان میں ’کیڑے‘بھی کہاجاتا ہے۔ فنگس کی تیزی اور کڑواہٹ کو کم کرنے کے لئے اس میں مصنوعی کھانے کے رنگوں کی ملاوٹ کردی جاتی ہے۔

بعض اوقات قیمام اور تمباکو کا ذائقہ بھی اس کی کڑواہٹ کو چھپالیتا ہے اور چونکہ لوگ اسے کھانے اور اس کے نشے کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں لہذا وہ ا ٓسانی سے اسے چھوڑ نہیں پاتے۔‘چند ہفتے پہلے یہ وحشت ناک خبر سننے میں آئی ہے کہ ایک علاقے میں خون ملا گٹکا تیار کیا جا رہا ہے۔ ان کا مقصد یہ گٹکا عام سے عام انسان تک پہنچانا ہے۔ظاہر ہے یہ کاروبار پولیس کے زیر ِ سایہ ہی ہو رہاہے۔جب قوم کی حفاظت کرنے والے ہی قوم کے دشمن بن جائیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ حکومت نے گٹکے کی خرید وفروخت پر پابندی تو لگا دی، لیکن وہ پابندی ہے کہاں،عملی صور ت میں اس پابندی کا کہیں نام ونشان تک نظر نہیں آتا، ایسی پابندی لگانے کا کیا فائدہ جس پر پابندی کا قانون بنانے والے ہی عمل پیرا نہ ہوسکیں۔ صرف کراچی شہر میں 4500 کلو گرام گٹکا فروخت ہو رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے والے 13 سے 18 سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ہیں گویا حکومت نے اس عمر کی نسل کو خراب کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔اب تو یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ گٹکے میں ہیروئن بھی شامل کی جانے لگی ہے۔ تین سال قبل حکومت سندھ نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 144کے تحت گٹکے اور مین پوری کی تیاری اورفروخت پرپابندی عائد کی تھی لیکن پورے صوبے میں گٹکا اورمین پوری پان کی چھوٹی بڑی دکانوں پر بآسانی دستیاب ہے۔بڑے تو بڑے بچے اور کم عمر نوجوان بھی انہیں خریدتے ہوئے نہیں کتراتے۔وزارتِ داخلہ سندھ کے بقول، انہوں نے تمام صوبہ کی انتظامیہ کو پان چھالیہ فروخت کرنے والی دکانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ کینسر کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔وزارتِ داخلہ سندھ کا موقف ہے کہ’’نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت میں اسی وقت صحیح طور پر کمی آسکے گی جب لوگ از خود اس کی برائیوں کو سمجھیں اور ایک ذمے دار شہری ہونے کا فرض اداکرتے ہوئے اس سے اپنے اور اپنے دیگر دوست و احباب کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں ورنہ انتظامیہ ہر شخص کا ہاتھ تھام کر اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی،یہ ممکن ہی نہیں“۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 03 مئی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں