Kurd Card

کُرد کارڈ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں سے پھسل رہاہے۔۔۔؟

کئی دہائیوں سے اہلِ مغرب ”کرد کارڈ“ کو عالمِ اسلام کے خلاف پوری شد و مد کے استعمال کرتے آئے ہیں لیکن شاید اَب ترکی کے صدر طیب اردگان کی سیاسی بصیرت اور حوصلہ مندی سے وہ وقت قریب آگیا ہے کہ کرد قوم مغرب کے استعماری،منافقانہ اور استحصالی شکنجے سے جان چھڑا کر ایک بار پھر سے اپنی پرانی عظیم الشان تاریخ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اگر طیب اردگان شام میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اِس کا سادہ سا مطلب یہ ہی ہوگا کہ ”کرد کارڈ“ عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے گا اور اِس امرِ واقعہ کو روکنے کے لیئے ہی پورااہلِ مغرب امریکہ کی سربراہی میں ترکی کے خلاف صف آرا ء ہونے جارہا ہے۔ فی الحال جس طرح سے مغربی میڈیا میں کردقوم اور ترکی کی شام میں کی جانے والی عسکری کارروائی کو منفی انداز میں پیش کیا جارہا ہے، اُس سے اہلِ اسلام کی صفوں میں عجیب سی بے چینی پیدا ہورہی ہے اور اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کرد قوم اور ترکی کے مابین آنے والے دنوں میں ہونے کیا جارہا ہے۔ میرے خیال کرد قوم اور ترکی کا مستقبل سمجھنے کے لیئے ہمیں سب سے پہلے ایک نظر کرد قوم کی تاریخ پر ضرور ڈال لینی چاہئے تاکہ ہمیں مغربی پروپیگنڈے کے برعکس بالکل درست اور راست رائے قائم کرنے میں آسانی ہوسکے۔

یاد رہے کہ کردوں کا شمار آریائی قوم کی ہندی، یورپی نسل میں ہوتاہے جو مشرق وسطی کے مختلف ملکوں میں رہائش پذیر ہیں۔کرد قوم بیک وقت عراق، ایران، ترکی، شام اور سابق سوویت یونین کے مختلف ملکوں میں آباد ہے۔ جبکہ کردوں کے بعض گروہ لبنان، یمن، پاکستان اور یورپی ممالک خاص کر جرمنی، سوئٹرز لیند اور امریکا میں بھی رہتے ہیں۔ دنیا میں واحد قوم ”کرد“ ہے جو تیس میلین سے زائد آبادی کے باوجود بھی اپنی قومی شناخت یعنی ”ریاست“ کے حق سے محروم ہے۔ اگر جغرافیائی طور پر کردوں کے علاقے کا نقشہ پیش کیا جائے تو اس نقشے کی شمالی سرحدیں ”ارارات“ پہاڑیوں سے شروع ہوتی ہیں جو ایران، ارمینیا اور ترکی کی سرحدوں سے لگتی ہیں۔ جنوب میں ”حمرین“ پہاڑی علاقہ آتاہے جو بغداد و بصرہ اور ”عثمانی موصل“ کے درمیان واقع ہے۔ جبکہ کرد خطے کی مشرقی سرحد ایران کے علاقہ ”لرستان“ کے آخر تک پھیلی ہوئی ہے اور مغرب میں ترکی کا صوبہ ”ملاطیہ“ آتا ہے۔ ”کردستان“ کا لفظ پہلی دفعہ بارہویں عیسوی صدی میں وجود میں آیا جب سلجوقی خاندان حکمرانی کر رہاتھا۔ سلجوقی بادشاہ نے خطے کا مغربی حصہ الگ کرکے اس علاقے کا نام کردستان رکھا اور اپنے قریبی دوست سلیمان شاہ کو اس کا حاکم بنا دیا۔ماضی کا کردستان آج بنیادی طور پر تین ملکوں میں بٹ چکا ہے۔ عراق، ایران اور ترکی کے علاوہ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ شام میں واقع ہے۔ ترکی کے نوے صوبوں میں سے اْنیس صوبے کرد آبادی کی ہیں جو ترکی کے جنوب مشرق اور مشرقی حصہ میں واقع ہیں۔



تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کْرد اسلام سے قبل فارس کے حکمرانوں کے زیر دست تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے لگا تو مسلم فاتحین اور کردوں کے روابط استوار ہوئے۔ خاص کر جب مسلمانوں کا لشکر ”قادسیہ“ و”نہاوند“ میں ایرانی افواج کو شکست سے دوچار کرکے آگے بڑھ رہاتھا۔ اکثر کرد علاقے اُسی وقت مختلف صلح ناموں کے نتیجے میں فتح ہوئے، صرف چند علاقوں میں کردوں نے سخت مزاحمت کی مگر بالاخر انہیں سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سنہ 21 ہجری میں اکثر کرد علاقے اسلام کے حلقے میں داخل ہوچکے تھے۔ کردوں کی اکثریت اپنی مرضی سے مشرف بہ اسلام ہوئی اور مسلمان ہونے کے بعد کردوں نے اسلامی فتوحات میں قابل ذکر اور نمایاں کردار ادا کیا۔کرد قوم میں اسلام کی حقیقی روح موجود تھی جنہوں نے نہ صرف خلافت اسلامیہ کی فوجوں میں ہر اوّل دستہ کا کام کیا۔ بلکہ یہ لوگ روسیوں، بازنطینیوں اور ان کے ارمنی و جارجین اتحادیوں کے سامنے بھی ہمیشہ سینہ سپر ترہے۔ شاندار تاریخ رکھنے والی کرد قوم کا سب سے قابل فخر کارنامہ صلیبیوں اور بازنطینیوں سے مقابلے کے دور میں ”سلطان صلاح الدین ایوبی“ جیسے جلیل القدر قیادت کاپیدا کرناہے۔

دلچسپ با ت ہے کہ سلطان صلاح الدین کی صلیبی جنگوں کا حساب چکتا کرنے کے لیئے ہی اہلِ مغرب نے کردوں کو ایک منظم ساز ش کے تحت پہلے الگ لگ کیا گیا اور پھر انہیں مسلمان ریاستوں کے خلاف لڑنے کے لیئے اُکسایا۔ دو بڑی طاقتوں (عثمانی خلافت اور صفوی ریاست) کے درمیان کردستان کی پہلی بار تقسیم کے بعد ان دو حکومتوں کے درمیان ہمیشہ جنگیں ہوتی رہیں۔1514ء کو ”جالدیران“ جھڑپ کے بعد متعدد جنگیں لڑی گئیں جو تین صدیوں تک جاری رہیں۔ کرد عوام ان لڑائیوں کے ایندھن بنے رہے۔اس کے علاوہ کردستان کی دوسری تقسیم جو ”سائیکس۔ پیکوٹ 1916ء“ معاہدے کے نتیجے میں ممکن ہوئی کرد قوم مزید تتر بتر ہوگئی اور اہلِ مغرب کے ٹارچر، جبری جلاوطنی اور تشدد کرد قوم پر پہلے سے زیادہ تیز ہوگیا۔

سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد کردستان کا مستقبل مکمل طور پر تاریک ہوگیا تھا۔ عثمانی خلافت کے زیر اثر کردستان تین حصوں میں بٹ گیا، تاریخی کردستان کا سب سے بڑا حصہ ترکی کے ساتھ ملحق ہوا، اس کا کل رقبہ دو لاکھ تیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ دوسرا حصہ عراق کے حصے میں آگیا جس کا رقبہ80 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ سب سے چھوٹا حصہ شام کے ساتھ ملحق ہوا۔ جبکہ ایرانی کردستان ”جالدیران“ معرکے کے بعد سے ایران کے قبضے میں چلاگیا۔ ایرانی کردستان کا کل رقبہ تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ کردی بولنے والوں کا خطہ برطانیا، ہالینڈ، بلجیم، سوئٹزرلینڈ اور ڈنمارک کے کل رقبہ سے بھی زیادہ ہے لیکن اِس کے باوجود جدید دنیا نے کبھی کرد قوم کوکسی ایک جگہ سکون سے رہنے نہ دیا۔ یہ کرد ہی تھے جنہیں سب سے پہلے صدام حسین کی فوج کے ساتھ لڑایا گیا پھر انہیں شام میں بشرالاسد سے نبرد آزما ہونے کے لیئے اُتار دیا گیا۔ جبکہ کرد قوم کو ترکی کو کمزور کرنے کے لیئے بھی مسلسل استعمال کیا جاتا رہا۔
طیب اردگان نے کرد قوم کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے حل کرنے کے لیئے پختہ عہد کرلیا ہے اور طیب اردگان کرد قوم کی ایک بہت بڑی قیادت کو اپنا ہمنوا بنا کر ترکی کی پارلیمنٹ میں عملی طور پر شامل کرنے میں کامیاب بھی ہوچکے ہیں۔ جبکہ کرد قوم کو بھی طیب اردگان کے ساتھ اتحاد میں اپنی بقا نظر آنا شروع ہوگئی لیکن عالمی قوتیں کسی بھی صورت نہیں چاہتیں کرد قوم ایک بار پھر سے عالمِ اسلام کا دستِ بازو بنیں۔ اَب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے ایام میں اس عالمی چومکھی لڑائی میں کون غالب آتا ہے؟۔ اگر فتح ترکی کے نصیب میں آئی تو ”کرد کارڈ“ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے عالمی طاقتوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور کرد قوم ایک بار پھر سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں ہر اوّل دستہ کاکردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے گی۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 31 اکتوبر 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

کُرد کارڈ عالمی طاقتوں کے ہاتھوں سے پھسل رہاہے۔۔۔؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں