karachi-rain-and-westage

کراچی جیسا ہے ویسا ہی رہے گا؟

کتنی افسوس ناک بات ہے کہ کراچی جب تک بارش کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا،اُس وقت تک پاکستان پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے ترجمانوں کے کراچی کو بچانے،بنانے اور سنوارنے کے بلند بانگ دعوے سننے والے تھے۔لیکن جیسے ہی شہر کراچی پر سے بارشوں کا زور کم ہونا شروع ہوا،ویسے ہی سندھ حکومت ایک بار پھر سے کراچی کو نظر انداز کرنے کی اپنی برسوں پرانی پالیسی پر عمل پیرا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لگتا ہے کہ کراچی پیکج کی مختصر سی زندگی بھی بس تب تک ہی تھی جب تک کراچی کے بے بس و لاچار شہری بارش کے گندے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ شہر میں معمولاتِ زندگی،ذرا سے بحال کیا ہوئے کہ کراچی پیکج کے نام پر بھی نت نئی کمیٹیاں قائم ہونا شروع ہوچکی ہیں اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں کی جانب سے قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی تاریخ کتنی زیادہ تلخ ہے۔ اَب تو پاکستانی سیاست میں یہ مثل زبان زدِ عام ہوچکی ہے کہ ”حکومت وقت نے جس کا م کو نہ کرنا ہو،اُس کے لیئے حکمران ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردیتے ہیں“۔ کراچی پیکج پر یکے بعد دیگرے مشاوراتی کمیٹیوں کا اعلان، عام آدمی کے ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے کہ کیا بہت جلد کراچی پیکج کے لیئے اعلان کردہ اربوں روپے بھی سندھ حکومت کی انتظامی اور سیاسی سرگرمیوں کی نذر ہوجائیں گے اورشہر کراچی کی قسمت میں فقط چند اعلیٰ سطحی کمیٹیاں ہی رہ جائیں گی؟۔

یہ بھی پڑھیے: کراچی کی بارش اور اٹھارویں ترمیم کی چھتری

کراچی کے دیرینہ مسائل اگر حکمرانوں کی قائم کردہ کمیٹیوں ہی سے حل ہونے ہوتے تو نہ جانے کب کے حل ہوچکے ہوتے،کیونکہ سرکلر ریلوے کی تعمیر سے لے کر سیوریج لائن کی تنصیب تک اور عوامی ٹرانسپورٹ کی بحالی سے لے کرپینے کے صاف پانی کی فراہمی سمیت کراچی کا وہ کون سا ایسا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیئے ماضی میں اعلیٰ سطحی کمیٹیاں نہ قائم کی گئیں ہوں۔مگر کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ کراچی شہر کے جس مسئلہ کے حل کے لیئے بھی حکمرانوں نے کمیٹی قائم کی،وہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ گنجلک اور پیچیدہ تر ہوتا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی کے مسائل حل کرنے کے لیئے اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کی جگہ بس ذرہ برابر خلوص نیت کی ضرورت تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ ہی وہ نایاب ترین شئے ہے،جو ہمیشہ سے کراچی پر حکمرانی کرنے والوں میں عنقا رہی ہے۔ کراچی کے بدترین زبوں حالی کے بعد بھی حکمرانوں کی سیاسی و انتظامی خلوص نیت کا یہ عالم ہے کہ وہ آج کے بدترین حالات میں بھی اس شہر کے باسیوں کو انتظامی اختیارات دینے کے بجائے،اُلٹا ان کے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ کراچی کے وسائل پر زیادہ سے زیادہ قبضہ کی سیاسی خواہش نے شہر کے حکمرانوں کوذہنی طور پر قائل کیا ہوا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے مگر وہ کسی بھی صورت اہلیانِ کراچی تک انتظامی اختیارات پہنچنے نہیں دیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ کراچی کے تمام مسائل کے حل لیئے فقط ایک عدد منتخب میئر ہی کافی و شافی ہے،بشرط یہ کہ وہ میئر، شہر کراچی کا صحیح معنوں میں نہ صرف انتخابی مینڈیٹ رکھتا ہو بلکہ اس کا تعلق کراچی سے بھی ہو۔سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال اس کی دو بہترین مثالیں ہیں۔چونکہ یہ دونوں میئر، شہر کراچی کے ساتھ ایک خاص قلبی تعلق رکھتے تھے۔لہٰذا ان کے دورِ نظامت میں شہر کراچی کے باسیوں نے اپنے مسائل حقیقی معنوں میں حل ہوتے ہوئے بھی دیکھے۔ حالانکہ ان دونوں شخصیات کے پاس نہ تو جادو کی کوئی چھڑی تھی اور نہ ان کی پشت پر اعلیٰ سطحی کمیٹیوں کا تام جھام تھالیکن اس کے باوجودیہ نابغہ روزگار افراد فقط اس لیئے کراچی کے دیرینہ مسائل کسی نہ کسی حد تک حل کرنے میں کامیاب رہے کہ یہ دونوں کم از کم خلوص نیت سے پوری طرح لبریز تھے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اہلیان کراچی نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے دورِ نظامت کو آج بھی بڑی شدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں جبکہ ان کے مقابلہ میں کراچی پر حکمرانی کرنے والے حالیہ نام نہاد حکمرانوں کو جن القابات سے شہر کے گلی محلوں میں نوازا جاتاہے،اُن کا ہلکا سا بھی تذکرہ مذکورہ کالم اس لیئے نہیں برداشت کرسکتا کہ زبان ِ خلق کی جانب سے کراچی کے حالیہ حکمرانوں کی شان میں ادا کیے جانے والے الفاظ، دبستان اخلاق کے زمرے میں شمارنہیں کیئے جا سکتے۔

ویسے تو کراچی کی زبان خلق سے ادا ہونے والے الفاظ کی اس شہر پر حکومت کرنے والوں کو کوئی خاص پرواہ بھی نہیں ہے۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ جس شہر کے باسی اُن کی سیاسی جماعت کو ووٹ ہی نہ دیتے ہوں،اُن بدبختوں کو اپنی اٹھارویں ترمیم کی طاقت میں آخر بلاوجہ ہی کیوں شریک کیا جائے؟۔ صرف اس ڈر اور خوف میں کہ کہیں کراچی شہر کے حقیقی بلدیاتی نمائندے منتخب ہوکر شہر کی نظامت تک نہ پہنچ جائیں،سندھ حکومت نے صوبہ بھر میں فی الفور بلدیاتی انتخابات کروانے سے صاف انکار کردیا ہے۔ حالانکہ اگر آج صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوجائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کراچی کے علاوہ صوبے بھر میں اپنے بلدیاتی نمائندے منتخب کروانے میں باآسانی کامیاب ہوجائے گی لیکن چونکہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات میں جیت پانا،فی الحال پیپلزپارٹی کو کم و بیش ناممکن ہی نظر آتا ہے۔لہٰذا مردم شماری کے نتائج کا بہانہ بناکر ہر ممکن طریقہ سے سندھ میں اگلے دو سال تک بلدیاتی انتخابات کروانے سے اجتناب برتا جائے گا اور بھرپور سیاسی و انتظامی کوشش کی جائے گی کہ اس عرصہ میں کراچی کو اپنے نامزد کردہ ایڈمنسٹریٹر کی مدد سے ہی جب تک ممکن ہو سکتا ہے، اپنے قابو میں ہی رکھا جائے۔حالانکہ ہمیں پیپلزپارٹی کی اس سیاسی حکمت عملی پرقطعاً کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کبھی کبھی بس دل میں یہ ہول سا اُٹھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی کراچی پر قبضہ کی یہ بے پناہ خواہش،کہیں اگلے سال ایک بار پھر سے کراچی کو بارشوں میں ڈوبا نہ دے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 17 ستمبر 2020 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں