Karachi Elections

کراچی کی انتخابی سیاست کے بدلتے رنگ

کراچی کے حالیہ انتخابات میں ایم کیو ایم اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان سخت اور دلچسپ مقابلہ متوقع ہے جبکہ تحریک انصاف کودونوں جماعتوں کے درمیان بلاشبہ ایک خطرناک”سیاسی انڈر ڈاگ“ قرار دیا جاسکتا ہے،جو الیکشن کے دوران اُس سنہری موقع کی تلاش میں ہوگا کہ کب ان دو جماعتوں کی سیاسی لڑائی میں سیاسی حکمرانی کا تاج کھسک کر اُس کی جانب آتا ہے اور وہ اُسے آگے بڑھ کر اُٹھالے کیونکہ ہمیشہ دو کی لڑائی میں فائدہ تیسرا ہی اُٹھاتا ہے اور کراچی کے حالیہ انتخابات میں وہ تیسرا تحریک انصاف کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔یہ سیاسی صورتحال اس لیئے پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم اور جی ڈی اے کی بھرپور انتخابی مہم کی بدولت اپنے اراکین کی ممکنہ بغاوت کی وجہ سے پوری طرح اندرونِ سندھ میں پھنس کر رہ گئی ہے اور اب اُس کے لیئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ کراچی پر اپنی ذرہ برابر بھی توجہ مبذول کرسکے۔ کچھ ایسا ہی الیکشن2013 میں بھی ہوا تھا کہ جب کراچی میں 1988 سے 2013 کے دوران ہونے والے انتخابات میں شہر میں اکثریتی قومی اور سندھ اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے والی جماعت ایم کیوایم کے مقابلے پر پاکستان پیپلزپارٹی کے بجائے اچانک تحریک انصاف اُبھر کر سامنے آگئی تھی۔ موجودہ صورتحال تو تحریک انصاف کے لیئے 2013 کے سیاسی حالات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بہترہے۔اس وقت سب کی نظریں کراچی کے انتخابی دنگل پر ہیں اور ہر کوئی معلوم کرنا چاہتا ہے کہ اب کراچی میں کو ن سی جماعت اکثریتی نشستیں حاصل کرے گی؟ بظاہر تو اس سوال کا جواب پولنگ کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ شہر قائد کا مینڈیٹ کس جماعت کے پاس جاتا ہے لیکن سیاسی حلقے سمجھتے ہیں کہ پی ایس پی، ایم کیو ایم کے مقابلے میں نئی سیاسی جماعت ضرور ہے تاہم اس میں شامل رہنمااور کارکنا ن کی اکثریت متحدہ کا حصہ رہی ہے جن کوماضی کے الیکشن کی تیاریوں کا وسیع تجربہ حاصل ہے۔ اس لیے پی ایس پی کیلیے الیکشن لڑنا تو مشکل نہیں تاہم ایم کیو ایم کے مقابلہ میں فیصلہ کن برتری اور ووٹ کے حصول کیلیے ان کو مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پاک سرزمین پارٹی متحدہ کی ماضی والی اکثریتی نشستیں کراچی سے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی یا ناکام؟۔ بہر حال ایک بات طے ہے کہ پی ایس پی ”مہاجر کارڈ یا مہاجر صوبہ“الیکشن میں نہیں کھیلے گی۔اس کا انتخابی کارڈ ”پاکستانیت“ہوگا یعنی ووٹ سب مذاہب اور قوموں کے لوگوں سے مانگے جائیں گے۔ شاید اسی لیئے پی ایس پی کا انتخابی سلوگن ”کراچی بنایا تھا۔اب پاکستان بنائیں گے“ہے۔ اس کے علاوہ پی ایس پی اپنی انتخابی رابطہ مہم میں پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال کی بحیثیت’میئر کراچی‘خدمات کاذکر بھی پورے شدو مد سے کررہی ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق پی ایس پی کیلیے کراچی سے الیکشن جیتنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ عام انتخابات میں پی ایس پی کا مقابلہ ایم کیوایم پاکستان کے علاوہ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، اے این پی، ن لیگ، ایم ایم اے اور دیگر جماعتوں سے ہوگا۔پی ایس پی اپنی سیاسی وانتخابی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لحاظ سے ضلع غربی میں این اے251،252،ضلع ملیر کی این اے 238،ضلع جنوبی کی این اے247۔ضلع وسطی کی قومی اسمبلی کی چاروں نشستوں این اے 253سے این اے 256تک،ضلع کورنگی،ضلع شرقی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے حصول کیلیے محنت کررہی ہے۔ پی ایس پی نے ایم کیوایم سے پارٹی شامل ہونے والے کئی رہنماؤں اور کارکنان کے علاوہ نئے چہروں کو بھی ٹکٹ دیے ہیں۔پی ایس پی کاہدف قومی اسمبلی کی 10 سے زائد اور سندھ اسمبلی کی20سے زائد نشستیں ہوسکتا ہے۔

پاک سرزمین پارٹی کے مقابلے میں ایم کیوایم پاکستان کو اس وقت ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں اندرونی اختلافات، تنظیمی نیٹ ورک کاغیر فعال ہونا، رہنماؤں و کارکنان کی مختلف جماعتوں میں شمولیت، فنڈکی قلت، اسیر و لاپتہ کارکنان کے مسائل، شہر میں بلدیاتی مینڈیٹ ہونے کے باوجود مسائل کے حل نہ ہونے پر عوامی تنقید کا سامنا اور دیگر وجوہ شامل ہیں۔ان چیلنجز اورسابقہ سیاسی حیثیت نہ ہونے کے باوجود ایم کیوایم پاکستان رواں عام انتخابات میں کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی کی سابقہ نشستیں حاصل کرنے کے مشکل ترین چیلنجز سے نمٹنے اور اپنا سابقہ مینڈیٹ حاصل کرنے کیلیے عام انتخابات میں آخری سیاسی آپشن’’مہاجر کارڈ“ کودوبارہ استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔ اس ہی مہاجر کارڈ کی مناسبت سے الیکشن میں انتخابی نعرہ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘متعارف کرایا جارہاہے۔اس طرز کا نعرہ ایم کیوایم نے2015 کے بلدیاتی انتخابات میں بھی متعارف کرایا تھا کہ ”میئر تو اپنا ہونا چاہیے“۔ ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے اپنی انتخابی مہم میں ”سندھ میں نئے صوبے کے قیام“ کے مطالبے کا سیاسی کارڈ فی الحال شامل نہیں کیا جائے گا۔ایم کیوایم پاکستان کا عام انتخابات میں مہاجر کارڈ کا استعمال اس کی کامیابی میں کتنا اہم کرداد ادا کرے گا۔ یہ25جولائی کو پتہ چل جائے گا جبکہ ایم کیوایم لندن عام انتخابات کے بائیکاٹ کااعلان کرچکی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایم کیوایم پاکستان اپنے قائد سے لاتعلقی کے اعلان کے بعد کراچی کے انتخابی دنگل میں اتر رہی ہے۔ایم کیوایم کی تقسیم کے بعد کراچی کی سیاسی پوزیشن اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہوگئی ہے۔ رواں انتخابات میں شہر کی سیاسی فضا مکمل طور پر پر امن ہے اور سب کیلیے انتخابی میدان میں متوازن طریقے سے حصہ لینے کی راہ ہموار نظر آرہی ہے۔نیز ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی الیکشن کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر اندر اور باہر فوج کی تعیناتی کے سبب کسی بھی جماعت کی طرف سے دھاندلی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔اس لیئے اُمیدہے کہ2018 ء کے انتخابات میں کراچی کے نتائج حیران کن ہوں گے یعنی کئی دہائیوں کے بعد کوئی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی اور کراچی کاعوامی مینڈیٹ یکطرفہ نہیں بلکہ مختلف جماعتوں میں تقسیم ہوجائے گا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 05 جولائی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں