in-House-change-Pakistan-s-Prime-Minister-Imran-Khan

اِن ہاؤس تبدیلی کا خواب

گزشتہ ڈیڑھ سال میں اپنے کئی خواب چکنا چور ہونے کے بعد اپوزیشن آج کل پھر سے ایک نیا خواب دیکھ رہی ہے اور وہ خواب ہے ”اِن ہاؤس تبدیلی“ کا۔ فی الحال اِس بات کا تو کسی کو کوئی اتا پتا نہیں ہے کہ یہ خواب اپوزیشن کی اپنی ”خوابیدہ کاوش“ہے یا پھر اپوزیشن کے ماضی کے خوابوں کی طرح یہ خواب بھی کوئی اور اِسے دکھا نے کی کوشش کررہاہے۔بہرحال خواب اپنا ہو یا پرایا لیکن کم ازکم یہ بات پوری طرح سے اظہر من الشمس ہے کہ اِسے دیکھنے کا دعوی اپوزیشن ہی کر رہی ہے اور اپنے خواب کواِس ”معاندانہ یکسوئی“کے ساتھ دیکھ رہی جیسے ”اِن ہاؤس تبدیلی“ کا خواب،گویا خواب نہ ہو بلکہ جیتی جاگتی حقیقت ہو۔ مشتری ہوشیار باش کہ اپوزیشن کے پچھلے خوابوں کی طرح اِس خواب کے بنیادی معبر یعنی تعبیر بتانے کا اصل فریضہ بھی حضرت مولانا فضل الرحمن ہی سپرد ہے۔ گو کہ آج تک مولانا نے اپوزیشن کے جس خواب کی بھی ”73 کے آئین“ تناظر میں تشریح و تعبیر فرمائی ہے،وہ اپوزیشن کی ”مفاداتی نااتفاقی“ کے باعث کبھی بھی سچ ثابت نہ ہوسکی مگر اِس کے باوجود تمام اپوزیشن کا متفقہ جمہوری اصرار یہ ہی ہے کہ ”اِن ہاؤس تبدیلی“ والے خواب کی تمام تر تعبیر و تشریح مولانا فضل الرحمن خود اپنی زبانِ مبارک سے ہی فرمائیں تو زیادہ بہتر ہے تاکہ اگر ”اِن ہاؤس تبدیلی“ کے خواب کا پلان اے،بی اور سی ناکام ہوجائے تو پھر اپوزیشن کو عبرتناک سیاسی شکست کی تہمت سے بچانے کے لیئے کوئی ایکس،وائی اور زیڈ قسم کا متبادل سا خواب دیکھنے کا بروقت اور فوری اعلان کیاجاسکے اور یقینا اِس کام کے لیئے اپوزیشن کو اپنی صفوں میں مولانا سے موزوں اور بہتر کوئی دوسرا ”حیلہ ساز“ نہیں مل سکتا۔

پس! ”اِن ہاؤس تبدیلی“ والے خواب کے حصہ اوّل کا جو بیان اپوزیشن کی طرف سے بہ زبانِ مولانا میڈیا پر خصوصی پیشکش کے لیئے فراہم کیا گیا ہے اُس کے مطابق”بہت جلد ہی اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم پاکستان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کے لیئے ایک قرارد پیش کی جائے جسے قومی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے اپوزیشن اور حکومتی بینچوں پر بیٹھنے والے اراکین کی اکثریت بلاں کسی چوں چراں کے منظور کرلے گی۔ جس کے بعد وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف باقاعدہ طور پر تحریک اعتماد کی کارروائی شروع کرتے ہوئے عمران خان کو ایک بار پھر سے قومی اسمبلی کے اراکین سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیئے کہا جائے گا اور یوں قومی اسمبلی ہال میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کے حق میں باقاعدہ ووٹنگ شروع ہوجائے گی۔ کیونکہ ووٹنگ کا یہ عمل سب کے سامنے ہوگا جسے پوری پاکستانی قوم اپنی ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست ملاحظہ کر رہی ہو گی۔اِس لیئے اس معرکہ میں اپوزیشن کی جیت یقینی ہوگی اور حکومت کے اپنے اراکین بھی اپوزیشن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر سیا سی موقع پرستی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عمران خان کے خلاف پیش ہونے والی تحریک عدم اعتماد کو بھرپور انداز میں کامیاب بنائیں گے۔ جبکہ حتمی نتائج کے اعلان کے بعد عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی شکست تسلیم کرکے خاموشی سے بنی گالہ واپس چلے جائیں گے اور یوں اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کر کے اپنی مشترکہ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے گی“۔ فی الحال اِس ”خوابناک بیان“ میں یہ انکشاف نہیں کیا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی وزیراعظم کے منصب سے سبکدوشی کے بعد اپوزیشن کی طرف سے قائم ہونے والی مشترکہ حکومت کا وزیراعظم کون بنے گا؟۔



اپوزیشن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو درج بالا خواب کی تعبیر من و عن بالکل ویسی ہی حاصل ہونی چاہیئے جیسا کہ اپوزیشن کے معبر خاص مولانا فضل الرحمن اپنی نجی محفلوں میں ہر ملنے جلنے والے کو دعوی کے ساتھ بتا رہے ہیں لیکن دوسری جانب اگر حکومت کی ٹیڑھی آنکھ سے سارے معاملہ کا جائزہ لیا جائے تو ”اِن ہاؤس تبدیلی“ کا خواب پورا ہونا اتنا سہل بھی نہیں ہے جتنا کہ اپوزیشن اپنی دانست میں خیال کیئے بیٹھی ہے۔خاص طور پر اُن حالات میں جبکہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں آج تک ایک بار بھی کبھی اِن ہاؤس تبدیلی کا ظہور ہونا ممکن نہ ہوسکا ہو۔ اس کے علاوہ گزشتہ ڈیڑھ میں سال میں حکومت کے خلاف مختلف سیاسی محاذ پر اپوزیشن کو حاصل ہونے والی ”عبرتناک سیاسی شکستوں“ کو بھی شمار کر لیا جائے تو پھر ”اِ ن ہاؤس تبدیلی“ کے امکانات بالکل ہی معدوم ہوجاتے ہیں۔ شاید یہ ہی وجہ کہ ابھی پاکستانی عوام اور وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی اپوزیشن کی ”اِ ن ہاؤس تبدیلی“ کی دھمکی کو خاص سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ کیونکہ اجماع اُمت یہ ہے کہ جو متحدہ اپوزیشن،سینٹ میں واضح اکثریت ہونے کے باجود چیئرمین سینٹ جناب صادق سنجرانی کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم کو اعتماد کو کامیاب نہ بنا سکے ایسے چلے ہوئے کارتوسوں سے یہ اُمید رکھنا کہ وہ قومی اسمبلی میں ”اِن ہاؤس تبدیلی“ لا سکتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔

ہاں! اگر اپوزیشن کی ”اِن ہاؤس تبدیلی“ سے مراد یہ ہے کہ ”اِن ہاؤس“ بھی ”تبدیلی حکومت“ کی اخلاقی و سیاسی ساکھ کو مزید مستحکم بنا دیا جائے تو بلاشبہ یہ وہ کام ہے جسے اپوزیشن کا ”اِن ہاؤس تبدیلی“ والا خواب باآسانی پورا کرسکتا ہے۔جس طرح اپوزیشن کے ناکام دھرنے کی وجہ سے احتجاجی سیاست کے میدان میں حکومت ِ وقت کے قدم مضبوط ہوئے ہیں بالکل ویسے ہی اِس بات کے روشن امکانات ہیں کہ ”اِن ہاؤس تبدیلی“ کی ناکام کوشش عمران خان کی حکومت کو اِن ہاؤس بھی لازوال سیاسی و پارلیمانی طاقت مہیا کردے گی۔ بقول شاعر
سب ہی تعبیر اِس کی لکھ رہے ہیں
کسی نے بھی اِسے دیکھا نہیں ہے

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 12 دسمبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں