GDA in Sindh

سندھ میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی نئی لہر

سندھ میں اقتدار کے طویل ترین مزے لوٹنے کے 10 سال بعد پہلی مرتبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے اقتدار کا سورج غروب ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ پیپلز پارٹی سے وابستہ صوبے کی کئی اہم اور بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں نے پارٹی سے راہیں جدا کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ اسی باعث 2018 کے الیکشن میں سندھ میں پیپلز پارٹی کیلئے اپ سیٹ شکست کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ جن سیاسی خاندانوں نے پیپلز پارٹی سے راہیں جدا کرنے کیلئے غور شروع کردیا ہے، ان میں مخدوم خاندان، مہر خاندان، جونیجو خاندان اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام خاندانوں کی جانب سے آپس میں خفیہ مذاکرات بھی کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق نگران سیٹ اپ آتے ہی سندھ میں سیاسی تبدیلیوں کا آغاز پورے زور اور شور سے ہوگیا ہے بالکل ویسے ہی جس طرح سائبیریا سے پرندوں کی سندھ کی جانب اُڑان سے موسم بدلنے کا پیغام ملتا ہے اور کوئٹہ کی یخ بستہ ہواؤں سے سندھ کے صحرا کی گرمی اچانک سردی میں بدل جاتی ہے، اسی طرح سے سندھ کے وڈیروں کی اُڑان بھی قبل از وقت بتا دیتی ہے کہ اقتدارِ سیاست کا مرکز ثقل تبدیل ہوسکتا ہے یا ہونے جارہا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ شیرازی برداران، میاں محمد سومرو اور فہمیدہ مرزاکی اڑان بھرنے کا کتنا اثر دوسرے ”سیاسی پرندے“ لیتے ہیں اور پیپلز پارٹی کے لئے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں، کیونکہ بہت سے دوسرے ”سیاسی پرندوں“کے بارے میں بھی مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ وہ بھی کنارے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی بھی وقت پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی منڈیر سے اُڑان بھر سکتے ہیں۔سندھ کے سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی زبان زدِ عام ہے کہ ضلع ٹھٹھہ سے قومی اسمبلی کی 2اور صوبائی اسمبلی کی 5نشستوں پر پیپلز پارٹی کی بے سرو سامانی نے اس کی قیادت کے لئے ماتم کا سماں پیدا کردیا ہے، اب پیپلز پارٹی کو ٹھٹھہ میں میمن، سومرو اور پلیجو برادریوں پر انحصار کرنا ہوگا۔سندھ کے اکثر سیاسی خاندانوں کا انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی چھوڑنے اور ایک بار پھر آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اقتدار کاہما چاہے جس”سیاسی جماعت“ کے سر پر بیٹھے، مگر وہ پیپلز پارٹی کے سر پر نہیں بیٹھنے جارہا۔جبکہ دوسری جانب گزشتہ چند ماہ کا جائزہ لیں تو پیپلزپارٹی کی سیاسی صفوں میں بھی حیرت انگیز تبدیلیاں نظرآنا شروع ہوگئی ہیں، پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیاست میں فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا ہے۔پارٹی کے تمام اہم ترین فیصلے بلاول بھٹو زرداری خودکرنے لگے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے سیاسی پلیٹ فارم پر بھی بلاول بھٹو کو طبع آزمائی کابھرپورموقع فراہم کیا جارہا ہے۔

سندھ میں پیروں اور گدی نشینوں کے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہونے سے پیپلز پارٹی کو ضلع سانگھڑ میں بھی بڑا دھچکا لگا ہے،قومی اسمبلی کے دو حلقوں این اے 215اور این اے216میں جبکہ صوبائی اسمبلی کے پانچ حلقوں جن میں پی ایس41.42.43.45اور پی ایس46میں پی پی مخالف سیاسی اتحاد کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہوچکی ہے آزاد ذرائع کا دعوی ہے کہ پہلی بار پیروں اور گدی نشینوں کے سیاسی اتحاد کی وجہ سے ان حلقوں میں پیپلز پارٹی کی یقینی جیت شکست میں تبدیل ہونے جارہی ہے اورپیروں کے سیاسی اتحاد کا اثر سندھ کے دوسرے اضلاع جن میں مٹیاری۔عمر کوٹ خیرپور گھوٹکی شکارپور بدین اور تھرپاکر کے قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر بھی پڑے گا اس وقت عام ووٹر ز یہ نعرہ لگاتا دیکھائی دے رہا ہے کہ تلواروں کا نہ تیروں ہمارا ووٹ ہے پیروں کا جبکہ دوسری جانب فنکشنل لیگ اور پیپلزپارٹی کے متوقع امیدواروں کے نام بھی سامنے آگے ہیں، جن کے درمیاں 2018 ء کے انتخابات میں سخت معرکہ کی توقع کی جارہی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں این اے215سانگھڑ ون سے فنکشنل خیر محمد جونیجو پیپلز پارٹی فدا حسین ڈیرو این اے 216فنکشنل قاضی سمش الدین راجڑ پیپلز پارٹی شازیہ مری این اے217پیپلز پارٹی ملک امام الدین شوقین فنکشنل ماھی خان وسان پی ایس41فنکشنل حاجی خدا بخش راجڑ پیپلز پارٹی چوہدری عابد فاروق پی ایس42فنکشنل خدا بخش درس پیپلز پارٹی امان اللہ مری پی ایس43فنکشنل جام نفیس علی پیپلز پارٹی جام مدد علی پی ایس 44فنکشنل لیاقت مری پیپلز پارٹی روشن جونیجو پی ایس45فنکشنل محمد بخش خاصیخلی پیپلز پارٹی شاہد تھیم پی ایس46فنکشنل وریام فقیر خاصخیلی اور پیپلز پارٹی رانا عبدالستار راجپوت کے نام سامنے آئے۔اُمیدواروں کے نام منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز تر ہوچکی ہی اور پورے سندھ میں سیاسی جماعتیں خم ٹھونک کر میدان میں اُتر چکی ہیں، احتجاج،جلسے،عوامی رابطہ مہم، پریس کانفرنسز کے ذریعے جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشیوں، عوام سے وعدوں،حکومت سے عوام کو حقوق دینے کے مطالبات اور حکومت سندھ کی عوام کے ساتھ ناانصافیوں کو اُجاگر کرنے کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے، نئے نئے سیاسی اتحاد تشکیل پا رہے ہیں تو حکمران بھی ناانصافیوں اور مظلومیت کا رونا رورہے ہیں تا کہ متوقع انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کی جاسکے۔ سندھ کی سیاست کو شہری اور دیہی تناظر میں دیکھا جائے تو اب تک شہری سطح پر ایم کیو ایم اور دیہی سطح پر پیپلز پارٹی چھائی رہی ہیں۔22، اگست،2016ء کو بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر کے بعد سے ایم کیو ایم کی سیاسی منظر نامہ سے غیر موجودگی کا فائدہ کراچی، حیدرآباد،میرپور خاص وغیرہ میں پی ٹی آئی،پی پی، پی ایس پی،جی ڈی اے اور مذہبی جماعتیں اُٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں بھی پی پی کی خراب طرز حکمرانی کے سبب جو فطری خلا پیدا ہوا ہے کو پُر کرنے کے لئے پی ٹی آئی،جی ڈی اے،مسلم لیگ (ن)اورمذہبی اتحادبھی سر گرمِ عمل ہیں لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش نہیں کیا اور نہ ہی کسی نے سندھ اور اس کے عوام کو بدحالی میں پہنچانے والے مرض ”کوٹہ سسٹم“جو کہ 2013 ء میں اپنی آئینی معیاد پوری کرچکا ہے اور اب بھی اس پر عمل جاری ہے کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے عملی قدم اُٹھانے کا اعلان کیا ہے۔سندھ کے سیاسی منظر نامے پر سے دھند ابھی پوری طرح چھٹی نہیں ہے لیکن نظر آنے والے آثار سے اندازہ ہورہا ہے کہ2018 ء کے انتخابات میں بہت کچھ نیا دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 21 جون 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں