Hazrat Moeen Ud Deen Chishti

فکر و عمل کا مینارہ نور، سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ

حضرت معین الدین چشتیؒ کی ولادت 14رجب المرجب 537ہجری بمطابق 1143ء میں سیستان (افغانستان)کے ایک مقام سنجر میں ہوئی۔آپ کا اسم مبارک معین الدین حسن ہے اور آپ نے محبوب حق،سراج الاولیا،قطب الاقطاب اور خواجہ غریب نواز کے القاب پائے۔ طریقت میں آپ نے حضرت خواجہ ہارونی سے سلسلہ چشتیہ میں خرقہ خلافت پائی۔آپ کو والدین پیار سے حسن کہا کرتے تھے اور غریب پروری کی وجہ سے آپ عوام الناس میں غریب نواز کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے پدر بزرگوار کا نام خواجہ غیاث الدین حسن ہے جو زہد و ورع، تقوٰی و طہارت میں ممتاز اور علم ظاہر و باطن سے بھی آراستہ تھے۔ آپ آٹھویں پشت میں حضرت موسٰی کاظم کے پوتے ہوتے ہیں۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام بی بی ام الورع تھا جو بی بی ماہ نور سے مشہور تھیں یہ بھی بلند کردار، پاکیزہ باطن خاتون تھیں، عبادت و ریاضت آپ کا محبوب مشغل تھا۔ چند واسطوں سے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی تھیں۔ اس لئے حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒنجیب الطرفین سید کہا جاتا ہے۔ حضرت خواجہ حضرت غوث اعظم کے خالہ زاد بھائی اور ایک روایت کے مطابق آپ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک رشتے سے ماموں زاد تھے۔ آپ نے متقی و پارسا والدین کی آغوش تربیت میں پرورش پائی تھی اس لئے عام بچوں کی طرح کسی عادتِ بد یا عامیانہ خصلت کا شکار نہ تھے۔ آپ کی پیشانی مبارک پر لمعہ نور اور شائستہ اطوار اس امر کی غمازی کرتے تھے کہ آپ آگے چل کر غیر معمولی شخصیت اور فکر و عمل، صلاح و تقوٰی کا روشن مینار ہوں گے۔ ابتدائی تعلیم والد گرامی کے زیر سایہ ہوئی۔ نو برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا پھر ایک مدرسہ میں داخل ہو کر تفسیر و حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی اور بہت قلیل مدت میں کثیر علم حاصل کر لیا۔جب آپ کی عمر پندرہ سال کی ہوئی تو والد کا سایہ شفقت سر سے اٹھ گیا۔آپ کو وراثت سے ایک باغ اور ایک پن چکی ملی تھی جس کو آپ نے ذریعہ معاش بنایا اور خوشگوار زندگی گزرنے لگی مگر قدرت نے آپ کو اپنی مخلوق کے دلوں کی باغبانی کے لئے پیدا فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک دن ایک مجذوب حضرت ابراہیم قندوزی باغ میں تشریف لائے اور ایک کھلی کا ٹکڑا کھلا کر دل کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا۔ فوراً حضرت خواجہ نے باغ اور پن چکی بیچ کر اس کی قیمت فقراء میں تقسیم کردی اور تلاش حق میں نکل کھڑے ہوئے۔ کئی مقامات سے گزرتے ہوئے قریہ ہارون پہنچے جہاں حضرت خواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو اپنے حلقہ اردات میں داخل فرما کر اپنی دو انگلیوں کے درمیان سے اوپر عرش اعظم اور نیچے تحت الثرٰی تک دکھا دیا۔ بیس سال تک اپنے مُرشد کی خدمت کرتے رہے یہاں تک کہ ایک دن پیرو مُرشد نے آپ کو ساتھ لیکر خانہ کعبہ کا سفر کیا۔ طواف و زیارت کے بعد ہاتھ پکڑ کر حق تعالیٰ کے سپرد کردیا۔ جب زیر حطیم کعبہ مناجات کی تو ندا آئی”ہم نے معین الدین کو قبول کیا“ بعد ازاں بارگاہ آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر بحکم مُرشد حضرت خواجہ نے سلام عرض کیا تو روضہ انور سے اس طرح جواب ملا“وعلیکم السلام یاقطب المشائخ بروبحر“ یہ تو مُرشد برحق کے ساتھ کا واقعہ ہے لیکن جب دوسری مرتبہ اپنے مُرید خاص حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو اپنے ساتھ لیکر حج و زیارت کے لئے تشریف لے گئے تو ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ حرم کعبہ کے اندر یادِ الٰہی میں مشغول تھے کہ ہاتف کی آواز سنی“اے معین الدین ہم تجھ سے خوش ہیں، تجھے بخش دیا، جو کچھ چاہے مانگ تاکہ عطا کروں“ اور جب روضہ انور کی زیارت کیلئے پہنچے تو یہ خوشخبری سنی“اے معین الدین تو میرے دین کا معین ہے ہندوستان کی ولایت میں نے تجھے عطا کی“۔بزرگان دین اور علمائے عظام سے علمی اور روحانی فیض حاصل کرنے کیلئے آپ نے اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے حکم کے مطابق کئی ممالک کا سفر کیا۔آپ مختلف ممالک کی سیر اور مختلف خانقاہوں کے فیض حاصل کرتے ہوئے 586ہجری میں ہندوستان میں داخل ہوئے۔اس وقت آپ کی عمر53 برس کی تھی۔ آپ نے ہرات میں خواجہ عبداللہ انصاری کے مزار پر حاضری دی وہاں سے بلخ تشریف لے گئے اور احمد خزرویہ کی خانقاہ میں قیام کیا۔ غزنی میں آپ کی ملاقات شیخ عبداللہ احمر سے ہوئی۔شیخ صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے درویش اوربزرگ تھے۔ غزنی سے آگے بڑھے تو ملتان پہنچے۔ ملتان میں کچھ دن قیام فرمایا بزرگوں کے مزارات پر حاضری دی۔ ملتان میں رہ کر آپ نے ہندوستان کے حالات کا مطالعہ کیا سنسکرت زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی رسم ورواج کی مذہبی وسماجی خصوصیات سے واقفیت حاصل کی۔ملتان سے تحصیل مشاہدہ سے فراغت حال کرنے کے بعد آپ نے لاہور میں حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری المعروف داتا گنج بخش علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر حاضری دی اور چلہ کاٹا اور یہاں سے زبردست روحانی فیوض و برکات سے مالا مال ہونے کے بعد آپ نے حضرت داتا گنج بخشؒ کی بلند شان کے بارے میں ان کلمات کا اظہار کیا
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا۔۔۔۔ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما
لاہور سے روانہ ہونے کے بعد آپ ہندوستان کی راجدھانی دہلی پہنچے اور راجہ کھانڈے راؤ کے راج محل کے سامنے ایک بت کدہ کے پاس قیام کیا۔آپ نے اپنے اعلٰی اخلاق و کردار، سادہ مؤثر نصیحتوں سے راج کھانڈے راؤ کے کاریگروں اور بہت سے راجپوتوں کو کلمہ اسلام پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لوگ جوق در جوق آنے لگے اور اسلام کا نور پھیلنے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے دہلی کی سر زمین پر مسلمانوں کا ایک وسیع حلقہ تیار ہو گیا چونکہ آپؒ کی منزل مقصود اجمیر تھی اس لئے اپنے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو دہلی میں خلق خدا کی ہدایت کے لئے چھوڑ کر عازم اجمیر ہو گیا۔چند ثقہ مؤرخوں کے مطابق آپ 561ھ کو اجمیر شریف پہنچے اور وہاں ایک درخت کے نیچے ٹھہرنا چاہا مگرپرتھوی راج کے دربار کے شتربانوں نے کہا کہ یہاں راجہ کے اونٹوں کی جگہ ہے آپ یہاں سے چلے جائیں اور آپ وہاں سے اٹھ کر بمقام ”اناساگر“تشریف لے گئے جہاں بے شمار بت خانے تھے۔ اونٹوں کو جس جگہ ٹھہرایا گیا تھا اگلی صبح جب شتربانوں نے حسب معمول اونٹوں کو اٹھانے کی کوشش کی توکوئی اونٹ اپنی جگہ سے نہ اٹھ سکا۔جس سے شتربانوں نے سمجھ لیا کہ کل ہم نے جس فقیرکو یہاں ٹھہرنے نہیں دیا تھا یہ انہی کی وجہ سے ہوا ہے وہ آپ کی خدمت میں حاضرہوئے۔ عرض اور منت سماجت پیش کی آپ نے کمال شفقت سے ان کو کہا کہ جاؤ تمہارے اونٹ کھڑے ہوجائیں گے۔جب ساربان اونٹوں کے پاس آئے تواونٹ خود بخود کھڑے ہوگئے۔یہ آپ کی دعا اور کرامت کا نتیجہ تھا۔اجمیر شریف میں آپ کی ذات بابرکت سے کرامتوں کا مسلسل ظہور ہونے لگا اور لوگ جوق در جوق اسلام کی صداقت کے معترف ہونے لگے پرتھوی راج چوہان کی تمام معاندانہ کوششوں کے باوجود حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا اثر بڑھنے لگا تو پرتھوی راج دل سے حضرت خواجہ کا دشمن ہوگیا، جوگی جے پال کی ناکامی اور اس کے قبول اسلام کے بعد پرتھوی راج کی آتش عداوت تیز ہوگئی اور وہ حضرت خواجہ کو اجمیر شریف سے نکالنے کا منصوبہ بنانے لگا جب وہ اپنے منصونے کو عملی شکل دینے کا ارداہ کرتا اندھا ہو جاتا اور جب باز آتا بینائی واپس آ جاتی اس کرامت کو بار بار دیکھنے کے باوجود بھی شرک و بُت پرستی کی ظلمت اس کے دل سے نہ نکل سکی،یہاں تک کہ وہ اپنے آخری انجام تک جا پہنچا۔
ایک روز حضرت خواجہ غریب نواز صحرا سے گزرے وہاں آتش پرستوں کا ایک گروہ آگ کی پرستش میں مشغول تھا یہ لوگ اس قدت ریاضت و مجاہدات کرتے تھے کہ چھ چھ مہینے تک دانہ پانی زبان پر نہیں رکھتے تھے سرکار خواجہ نے ان لوگوں سے آتش پرستی کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ آگ کو اس لئے پُوجتے ہیں کہ دوزخ میں یہ آگ ہمیں تکلیف نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا دوزخ سے بچنے کا طریقہ یہ نہیں بلکہ نارِ دوزخ سے بچنے کیلئے خالق نار کی پُوجا کرو پھر یہ آگ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم لوگ اتنے دنوں سے آگ کی پوجا کرتے ہو ذرا اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر دکھاؤ؟ ان لوگوں نے جواب دیا۔ آگ کا کام جلانے کا ہے، ہمارا ہاتھ تو جل جائے گا لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حق پرستوں کو آگ نہ جلائے گی۔ حضرت خواجہ نے فرمایا، دیکھو ہم خدا کے پرستار ہیں۔ یہ آگ ہمارے جسم کو تو دور کی بات ہماری جوتی کو بھی نہیں جلا سکتی۔ یہ فرما کر آپ نے اپنی ایک جوتی آگ میں ڈال دی بہت دیر تک وہ آگ میں رہی مگر اس پر آگ کا ذرا سا بھی اثر نہ ہوا یہ دیکھ کر سب مسلمان ہو گئے۔حضرت خواجہ ایک مجلس کا تذکرہ فرماتے ہیں جس میں خواجہ عثمان ہارونی خواجہ اوحدالدین کرمانی اور حضرت خواجہ بھی موجود تھے۔ گفتگو اس بارے میں شروع ہوئی کہ جو شخص بھی اس مجلس میں ہے وہ اپنی کرامت دکھائے یہ سنتے ہی خواجہ عثمان ہارونی نے مصلے کے نیچے ہاتھ ڈالا اور مٹھی بھر اشرفیاں نکال کر ایک درویش کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ درویشوں کے لئے حلوہ لے آؤ۔ شیخ اوحدالدین نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک لکڑی پر ہاتھ مارا تو فوراً وہ لکڑی سونا بن گئی۔ میں پیچھے رہ گیا جو پیر و مُرشد کی وجہ سے کوئی کرامت ظاہر نہیں کر سکتا تھا شیخ نے میری طرف رُخ کرکے فرمایا تم کوئی کرامت کیوں نہیں دکھاتے؟ اس مجلس میں ایک بھوکا درویش تھا جو شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرتا تھا میں نے اپنی گدڑی میں سے جوکی چار روٹیاں نکالیں اور اس درویش کے حوالہ کر دیں۔
سیرالاولیا کے مصنف نے آپ کی بے شمار کرامتوں کا ذکرکرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ ہندوستان میں مشرق سے لے کر مغرب تک کفروکافری اور بت پرستی عام تھی اور سربراہان ہند مشرک تھے۔ ان کے تاریک دلوں پر کفرکے قفل لگے ہوئے تھے نہ کسی کو دین شریعت کی خبرتھی اور نہ خداداد پیغمبرکی۔ نہ کسی نے قبلہ دیکھا اور اللہ اکبرکی آواز سنی تھی۔ محض خواجہ صاحب کے قدم مبارک یہاں پہنچے تویہ ملک نورالاسلام سے روشن ہوا یہاں ہرشخص مسلمان ہونے لگا۔جس کا شیخ الاسلام معین الدین کو قیامت تک ثواب پہنچتا رہے گا۔سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ کا عرس مبارک ہر سال رجب المرجب کی 6 تاریخ کو اجمیر شریف میں منعقد کیا جاتا ہے۔جہاں آپ کے لاکھوں عقیدت مند دنیا بھر سے بلا کسی رنگ و نسل شریک ہوکر آپ سے اپنے بے لوث روحانی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 22 مارچ 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں