Ameer Khusro

حضرت امیر خسرو ایک نابغہ روزگار شخصیت

حضرت امیر خسرو ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، آپ صاحب سیف بھی تھے، صاحب قلم بھی تھے، صاحبِ طرزشاعر بھی تھے، نثرنگار بھی تھے، تاریخ نویس بھی تھے، سپاہی بھی تھے، صوفی بھی تھے اور ایک ماہر موسیقار بھی تھے۔ دنیائے موسیقی کو آپ نے ستار اور طبلہ کا تحفہ دیا۔حضرت امیر خسرو کے زمانے میں افغانستان، غزنی، عراق، ایران اور وسط ایشیاء سے ار باب کمال اور علماء اور ادباء ہجرت کر کے ہندوستان آرہے تھے اور مختلف قوموں کے اختلاط سے ایک نئی زبان کی تشکیل ہورہی تھی، اس زبان کو امیر خسرو نے ہندوی کا نام دیا، یہ ہندوی بعد میں ریختہ کہلائی اور پھر اردو بن گئی۔بلاشبہ امیر خسرو کو اردو زبان کا پہلا شاعر یا باوا آدم کہا جاسکتا ہے۔امیر خسرو 1253 ء میں شہر پٹیالی میں پیدا ہوئے۔آپ کامکمل نام ابوالحسن اور عین الدین لقب تھا لیکن آپ امیرخسرو کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کے والد سیف الدین محمود ماوراء النہر کے ایک شہر کشن میں مقیم تھے اور وہ ترکوں کے قبیلے ہزارہ اور چین کے سردار تھے۔ گو کہ امیر خسرو نے باقاعدہ تعلیم تو کسی درسگاہ سے حاصل نہیں کی لیکن اپنی خداد ذہانت کے بل بوتے پر جلد ہی ابتدائی علوم میں مہارت حا صل کر لی،آپ کی خطاطی اور آواز بھی اچھی تھی۔ کم عمری میں ہی شعر کہنے لگے جبکہ متعدد زبانیں بھی جانتے تھے۔ 7سال کی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا پھر آپ کے نانا عماد الملک نے آپ کی پر ورش کی 20 سال کی عمر میں نانا کا بھی انتقال ہوگیا۔حضرت امیر خسرو کی درباری ملازمت کا سلسلہ سلطان غیاث الدین بلبن کے امیر کشلو خان عرف چھجو کی ملازمت سے ہوا۔ کسی وجہ سے اس دربار سے دلبر داشتہ ہو کر بلبن کے بیٹے بغرا خان کے دربار سے وابستہ ہوگئے، یہاں پر آپ کی اور بھی قدرو منزلت ہوئی۔ بلبن کے زمانے میں ایک ترک غلام جو لکھنو اور بنگال کا حاکم تھا نے بغاوت کی تو بلبن نے بغراخان کو طغرل کی بغاوت ختم کرنے کیلے بنگال بھیجا۔ امیر خسرو بھی اس مہم میں شہزادے کے ساتھ تھا اور سلطان بلبن بھی بنگال پہنچا۔ بغاوت ختم کر نے کے بعد شہزادہ بغرا خان کو بنگال کا حکیم مقرر کیا گیا لیکن امیرخسرو کا دل بنگال میں نہ لگا اور آپ واپس دہلی آگئے۔ بلبن کا بڑا بیٹا سلطان محمود جو ملتان کا حاکم تھا دہلی آیا ہوا تھا، وہ امیرخسرو کو اپنے ساتھ ملتان لے گیا۔حضرت امیر خسرو پانچ سال تک ملتان میں رہے۔ 1284 ء میں شہزادہ ولی عہدسلطان محمدمغلوں سے جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا۔ مشہور ہے کہ امیر خسرو بھی گرفتار ہوئے۔ قید سے رہائی کے بعد دہلی واپس آگئے کیونکہ آپ کی والدہ دہلی میں تھیں اور اپنے فرزند کی جدائی میں بے قرار تھیں۔ امیر خسرو دہلی میں سلطان کیقباد کے دربار سے بحیثیت ملک الشعراء بھی وابستہ رہے۔
حضرت امیر خسرو 1272ء میں حضرت نظام الدین اولیاء ؒکے مرید ہوئے۔حضرت نظام الدین اولیاءؒ آپ سے بہت محبت کرتے تھے۔ دوسرے مرید مرشد کی توجہ کے لیئے اکثر امیر خسرو ہی کو ہی وسیلہ بناتے۔ ایک طرف آپ کا تعلق درباروں سے تھا اور دوسری طرف حضرت نظام الدین اولیاءؒ کی بارگاہ سے کسب فیض کرتے تھے۔ امیر خسرو نے بیشتر اشعار اپنے مرشد کو خطاب کرکے کہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ نے اپنے اس مرید پر خاص توجہ دی۔ایک روایت کے مطابق سات سال کی عمر میں جب انکے والد اس وقت کے صوفی نظام الدین اولیا کے ہاتھ پر بیعت لینے کے لیے اپنے دو صاحب زادوں کو لے کر گئے تو امیر خسرو نے اندر جانے سے انکار کردیا اور انکی خانقاہ کی سیڑھیوں پر ہی بیٹھ گئے،دل میں سوچا کہ اگر یہ واقعی میرے پیر ومرشد ہیں تو میں کیوں انکے پاس جاؤں، وہ خود مجھے منتخب کریں گے اور اپنی سوچ کو ان لفظوں میں ڈھالا۔
اگر آپ واقعی ایک عالم ہیں ہستی ہیں تو یہ جانتے ہونگے کہ ایک ادنی ٰکبوتر ایک دن عقاب بن سکتا ہے؟
ایک سوالی آپ کے درپر آیا ہے اور اجازت چاہتا ہے کہ وہ اندر آئے یا واپس چلا جائے؟
اسکے جواب میں حضرت نظام الدین اولیا ء ؒنے یہ جواب بھجوایا۔آنے والا اگر سچ جانتا ہے تو اندر آجائے تاکہ ہم دونوں مقدس حقیقت اور راز کی باتوں کو سمجھ سکیں اور اگر آنے والا اپنے اندر کی آواز کو نظر انداز کررہا ہے تو وہ اُنہی قدموں واپس لوٹ جائے جن پر چل کے وہ آیا ہے۔اپنے روحانی استاد یا مرشد کو چننے کے لیے جو سوال امیر خسرو نے پوچھے اور سوچے، انکے جواب نظام الدین اولیاء ؒنے انکی سوچ کے مطابق دیے اورپھر یہ تعلق ایسا بنا جس نے برصغیر کی تاریخ کو صوفیائی رنگوں میں ڈھال دیا۔امیر خسرو برصغیر میں اعضاء کی شاعری کے پہلے فنکار مانے جاتے ہیں، عشق کے ردھم پر جو رقص کرتے ایسا معلوم ہوتا کہ سازوں کے ساتھ الفاظ بھی محو جنوں ورقص ہیں۔اگر فن موسیقی کی بات کی جائے تو کئی مدھر ساز امیر خسرو کی ایجاد ہیں جن میں سِتار اور طبلہ سب سے اہم ہیں اور ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ امیرخسرو کی شاعری صرف امیرخسرو کی دی گئی موسیقی سے ہی گائی اور پڑھی جاتی ہے۔جو ُ سر اس وقت استعمال کیے گئے انکے علاوہ کسی اور ردھم میں امیر خسرو کی شعاری کو گانا نا ممکن ہے۔حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے عشق نے انکے فن کو فنون لطیفہ کا خوبصورت مرقع بنادیا۔ رنگوں کی یہ دھنک اس وقت سیاہ رنگ میں ڈھل گئی جب حضرت امیر خسرو کے مرشد حضرت نظام الدین اولیا ء ؒ کا انتقال ہوگیا۔ ایک روایت کے مطابق امیر خسرو اس سانحہ کے بعد محض تین ماہ یا چھ ماہ زندہ رہے اور 28 ستمبر 1325ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے جہان فانی کو خیر آباد کہہ دیا۔ امیر خسرو اپنے مرشد کے قدموں میں دفن ہوئے۔عشق کے دھنک رنگوں سے بنا شاعر امیر خسرو آج بھی دنیا کے لیے نا سمجھ میں آنے والی مثالیں رکھتا ہے کیونکہ امیر خسرو کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے عشق کیا ہو،یا وہ جس نے سچی محبت کے رنگوں سے اپنی ذات کو بنایا ہو۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 28 جون 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں