Hazrat Ali

سیدنا حضرت علی المرتضٰیؑ کا فلسفہ حیات

امیر المؤمنین حضرت علی ؓ مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جمعہ کے دن تیرہ رجب کو متولد ہوئے۔آپ ؑ کی ولادت کے وقت30 عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ نے ہاتھیوں کے ذریعہ خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا)کے واقعہ کو تیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ آپ ؓکے علاوہ نہ کوئی اورخانہ کعبہ میں متولدہوا ہے نہ ہی کوئی اسکے بعد اس منزلت اور عظمت کو حاصل کر سکے گا۔حضرت علیؓکی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت آپ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہے۔یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا کی خاص عنایات آپؓ کے اوپر تھیں۔آپؓ کے و الد جناب ابوطالب ابن عبد المطلب ہیں اور حضرت عبداللہ(والد گرامی پیغمبراکرم ؐ)کے بھائی ہیں اور اسی طرح حضرت علیؓ اور پیغمبر اکرم ؐ چچا زاد بھائی ہیں۔حضرت ابو طالب کے نام پر اختلاف نظرہے کچھ حضرات نے آپ کے نام اور کنیت کو ایک ہی لکھا ہے یعنی ابوطالب مگرکچھ حضرات نے آپ کا نام عبدمناف ذکر کیا ہے اور کچھ نے عمر ان نام بتایا ہے بعد میں آپ کے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے آپ کو ابو طالب کہنے لگے اور اتنا زیادہ استعمال ہوا کہ آپ کے اصل نام کی جگہ لے لی۔ بلکہ یوں کہیں کہ کنیت ہی اصل نام کے اوپر چھاگئی۔حضرت ابوطالب کے چار بیٹے طالب، عقیل، جعفر، علی اور آپ کی بیٹیوں کے بارے میں اختلاف ہے کچھ حضرات نے دو بیٹیاں بنام فاختہ (ام ہانی) اور جمانہ لکھاہے اور کچھ نے تین بیٹیاں لکھی ہیں۔آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں۔حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد دونوں ایک ہی قبیلہ سے ہیں۔ مورخ حضرات نے آپ دونوں کی شادی کو قبیلہ ہاشمی کی ایک مرد اور عورت کے درمیان پہلی شادی قرار دی ہے اور اسی لحاظ سے یہ شادی خاص اہمیت کی حامل ہے۔حضرت فاطمہ بنت اسد بہت ہی خدا ترس خاتون تھیں پیغمبر اکرم ؐ آپ کو ماں کے طورپریاد فرماتے تھے کیونکہ آپ ؐ کو جناب فاطمہ سے ماں کی محبت حاصل ہوئی تھی۔حضرت علی ؓ کی والد گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد نے آپ ؓ کا نام حیدر رکھاتھا۔ آپ کے کنیت ابو الحسن ابو تراب اورآپؓ کے القاب بہت زیادہ ہیں جن میں سے سب سے مشہور امیر المؤمنین ہے اور اسد اللہ کالقب آپ ؓ کو پیغمبر اکرم ؐ نے عطا فرمایاتھا۔خدا کی ایک سب سے بڑی نعمت جو آپ کونصیب ہوئی وہ یہ تھی کہ حضرت علیؓ ابھی دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ ؓ کی تربیت اور تذکیہ کا ذمہ پیغمبر اکرم ؐ نے اٹھالیا۔پیغمبراکرم ﷺ کسی بھی حالت میں آپ کو اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے۔حضرت علیؓخود اسی بارے میں فرماتے ہیں ”میں ایک چھوٹا بچہ تھا جب مجھے پیغمبر اکرم ؐ نے اپنی آغوش میں لیا اوراپنے سینے سے لگایااوراپنے بسترپہ اپنے نزدیک مجھے سلایا اور میرے بدن سے اپنے بدن کو ملایا اور مجھے نوازش دی اپنی خوشبو کو مجھے سونگھواتے تھے اور اپنے کھانے کو چبا کر مجھے کھلاتے تھے۔ نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ سنا۔ میں ہمیشہ ان کی پیروی کرتا تھا۔ اور ہر روز اپنے اخلاق میں سے کچھ مجھ کو سکھاتے تھے اور تاکیدفرماتے کہ اس پر عمل کروں۔میں نے وحی کے نور کو دیکھا اور رسالت و نبوت کی خوشبوسے فیض یاب ہوا“۔فضل بن عباس سے روایت ہے میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم ؐ اپنے بیٹوں میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ جواب دیا: حضرت علیؓسے۔ پیغمبر ؐ کے نزدیک سب سے محبوب کون تھے؟ جواب دیا کہ آپؐ کے نزدیک سب سے محبوب علیؓتھے۔ جب حضرت علیؓ چھوٹے تھے تو کسی بھی صورت پیغمبرؐ سے جدا نہیں ہوتے تھے۔میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے زیادہ مہربان کسی با پ کو نہیں دیکھااور میں نے علی ؓسے زیادہ مطیع اور تابع نہیں دیکھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی۔آپ کی شادی مبارک حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شہزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوئی اور آپ کی گھریلو زندگی طمانیت اورراحت کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔غزوہ بدر،غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی ؓکو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا۔حضرت علی ؓ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ تھے۔ تاریخ اسلام میں شیر خدا، دمادِ مصطفےٰ کی اعلیٰ بصیرت، بہادری، جرت، دلیری اور افہام و تفہیم کے لا تعداد واقعات روز روشن کی طرح پوری آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ تین آدمیوں نے ”اونٹوں کا کاروبار ”شروع کیا، ایک وقت آیا ان میں اختلافات پیدا ہو گئے، انہوں نے اپنے اپنے حصے کے اونٹ تقسیم کرنے چاہے مگر مسئلہ پیچیدہ ہوتا چلا گیا، کیونکہ تینوں آدمی کے پاس کل اونٹ17 تھے جبکہ پہلے آدمی کا حصہ آدھا تھا، دوسرے آدمی کا حصہ تیسرا حصہ جبکہ تیسرے آدمی کا حصہ اونٹوں میں نواں تھا، جھگڑا شدت اختیار کرتا گیا کیوں کہ تینوں آدمی اپنا اپنا حصہ تو الگ الگ کرنا چاہتے تھے مگر اونٹ کو ذبح کر کے حصے نہیں کرنا چاہتے تھے، ہر طرف سے نا کامی ہوئی تومعاملہ امیر المومنین حیدر کرار جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا ہم اپنا اپنا حصہ الگ کرنا چاہتے ہیں مگر کسی اونٹ کے ”حصے نہیں کرنا چاہتے“جناب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک اونٹ اپنی طرف سے جمع کیا اس طرح 17 اونٹوں کی جگہ 18 اونٹ ہو گئے، آپ نے پہلے آدمی جس کا آدھا حصہ تھا اس کو 9 اونٹ دے دئے، پھر دوسرے آدمی کو جس کا تیسرا حصہ تھا اس کو 18 اونٹوں سے 6 اونٹ مل گئے جبکہ تیسرے آدمی جس کا نواں حصہ تھا 18 اونٹوں سے اس کو نواں حصہ یعنی 2 اونٹ دے دئے گئے اس طرح 9+6+2 =17 اونٹ تینوں آدمیوں میں حصوں کے مطابق برابر تقسیم بھی ہو گئے اور جو اونٹ اپنی طرف سے شامل کیا تھا وہ بھی واپس حاصل کر لیا۔ایسی ایک اور مشکل صورت اُس وقت پیش آئی جب ایک آدمی کی ایک بیوی اور ایک لونڈی تھی دونوں بیک وقت بچوں کو جنم دیا۔ ایک کو اللہ پاک نے بیٹی کی نعمت سے نوازہ اور دوسری کو بیٹا سے سرفراز کیا۔ دونوں کی ایک ہی وقت پیدائش ہونے سے نومولد وں کی پہچان نہ رہی دونوں کا دعویٰ تھا کہ لڑکا اس کا ہے لڑکی کی کوئی ماں بننے کے لئے تیار نہ ہوئی، معاملے میں شدت آئی تو انصاف کے لئے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے در انصاف پر التجا کی گئی، آپنے دونوں کو الگ الگ کیا اور پوچھا مگر ہر ایک اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔ آپ نے کہا ٹھیک ہے دو خالی ہم وزن شیشیاں لائی جائیں، دونوں اپنا اپنا دودھ خالی بوتلوں میں بھر کر لیں آئیں، جب دودھ والی بوتلوں کو پیش کیا گیا تو ان کا وزن کیا گیا ایک کا دودھ وزنی جبکہ دوسری کا دودھ وزن میں ہلکہ نکلا۔ آپ نے فیصلہ سنایا کہ جس کا دودھ وزن میں بھاری ہے لڑکا اس کو دے دیا جائے، جب پوچھا گیا شیر خدا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ دودھ کے وزنی اور ہلکا ہونے کی کیا حکمت ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا، خالق، مالک رازقِ حقیقی اللہ پاک نے لڑکے کو دوحصے اور لڑکی کو ایک حصہ دینے کا حکم فرمایا ہے تو پھر دودھ کا وزن کیسے برابر ہو سکتا ہے۔
مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت خوارج کے ہاتھوں ہوئی۔ یہ وہی گروہ ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں میں شامل تھا۔ بعد میں اس میں اختلافات پیدا ہو گئے اور خوارج نے اپنی جماعت الگ بنا لی۔تین خارجی ابن ملجم، برک بن عبداللہ اور عمرو بن بکر تیمی اکٹھے ہوئے اور انہوں نے منصوبہ بنایا کہ حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ اورحضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کو ایک ہی رات میں قتل کر دیا جائے۔ انہوں نے آج کل کے خودکش حملہ آوروں کی طرف اپنی طرف سے اپنی جانوں کو اللہ تعالی کے ہاتھ فروخت کیا اور خود کش حملے کا ارادہ کی غرض سے اپنی تلواریں زہر میں بجھا لیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کے لیے مسجد کی طرف آ رہے تھے تو اس نے آپ پر حملہ کر کے آپ کو شدید زخمی کر دیا۔ اس کے بقیہ دو ساتھی جو حضرت معاویہ اور عمرو رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے روانہ ہوئے تھے، ناکام رہے۔ برک بن عبداللہ، جو حضرت معاویہؓ کو شہید کرنے گیا تھا، انہیں زخمی کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن انہوں نے اسے پکڑ لیا۔ حضرت عمرو اس دن بیمار تھے، اس وجہ سے انہوں نے فجر کی نماز پڑھانے کے لیے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تھا۔ خارجی عمرو بن بکر نے عمرو بن عاص ؓ کے دھوکے میں خارجہ ؓکو شہید کر دیا۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوا اور مارا گیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وفات سے پہلے کچھ وقت مل گیا جسے آپ نے اپنے بیٹوں کو وصیت کرنے میں صرف کیا۔ جانکنی کے اس عالم میں بھی آپ نے جوباتیں ارشاد فرمائیں، وہ آب زر سے لکھنے کے لائق ہیں۔ یہاں ہم طبری سے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں.آپ نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو بلوایا اور ان سے فرمایا: ”میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ دنیا کے پیچھے ہرگز نہ لگنا خواہ دنیا تم سے بغاوت ہی کیوں نہ کر دے۔ جو چیز تمہیں نہ ملے، اس پر رونا نہیں۔ ہمیشہ حق بات کہنا، یتیموں سے شفقت کرنا، پریشان کی مدد کرنا، آخرت کی تیاری میں مصروف رہنا، ہمیشہ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے حامی رہنا اور کتاب اللہ کے احکامات پر عمل کرتے رہنا۔ اللہ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے مت گھبرانا“۔پھر خاص طور پر حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”میرے بیٹے! تمہارے لیے میری وصیت یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہنا، نماز وقت پر ادا کرنا، زکوۃ کو اس کے مصرف میں خرچ کرنا، وضو کو اچھی طرح کرنا کہ بغیر وضو کے نماز نہیں ہوتی او ر زکوۃ نہ دینے والے کی نماز بھی قبول نہیں ہوتی۔ ہر وقت گناہوں کی مغفرت طلب کرنا، غصہ پینا، صلہ رحمی کرنا، جاہلوں سے بردباری سے کام لینا،ہر کام میں ثابت قدمی دکھانا، قرآن پر لازمی عمل کرتے رہنا، پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا، نیکی کی تلقین اور برائیوں سے اجتناب کی دعوت دیتے رہنا اور خود بھی برائیوں سے بچتے رہنا۔”اپنے قاتل کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ ”بنو عبدالمطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینااور یہ کہتے نہ پھرنا کہ امیر المومنین قتل کیے گئے ہیں (تو ہم ان کا انتقام لے رہے ہیں۔) سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ حسن! اگر میں اس کے وار سے مر جاؤں تو قاتل کو بھی ایک ہی وار میں ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہی ہونا چاہیے۔ اس کی لاش کو بگاڑنا نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ تم لوگ لاشیں بگاڑنے سے بچو خواہ وہ پاگل کتے ہی کی لاش کیوں نہ ہو۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور 29 مارچ 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں