Justis-Javiad-Iqbal-NAB

حرفِ دشنام سے سنگِ الزام تک

مرزا غالب کو اپنے ایک ناراض دوست کا خط ملا جس میں انہوں نے مرزا غالب کو بے شمار دشنام یعنی گالیوں سے نواز ا۔ مرزا غالب نے خط پڑھ کر اپنے ناراض دوست کو جو جوابی خط لکھا وہ کچھ اس طرح سے تھا کہ”عزیزم آپ کا خط ملا آپ نے جو کچھ لکھا جواباً وہی کچھ لکھنے کو میرا دل بھی چاہا مگر اس لیئے نہ لکھ سکا کہ میاں آپ کو تو یہ بھی نہیں معلوم کے دشنام طرازی کیسے کی جاتی ہے۔آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ بچے کو ہمیشہ ماں کی گالی دی جاتی ہے، جوان کو بہن کی گالی دی جاتی ہے،شادی شدہ کو بیوی کی اور بوڑھے کو بیٹی کی گالی دی جاتی ہے مگر چونکہ تم دشنام طرازی کے فن میں ابھی طفلِ مکتب ہو اور الزام تراشی کے بنیادی علم سے بھی نا بلد واقع ہوئے ہو اس لیئے تمہیں گالی دینے کو میرا من نہیں کرتا“۔

جس طرح مرزا غالب کے دوست دشنام طرازی میں بالکل اناڑی ثابت ہوئے تھے بالکل اسی طرح چیئرمین نیب جسٹس ریٹائر جاوید اقبال پر بھی سنگِ الزام برسانے والواں نے بھی انتہائی ناتجربہ کار ی اور عجلت پسندی کا ثبوت دیا ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اگرسیاست میں کسی نے نتیجہ خیزالزام لگانا سیکھنا ہے تو وہ مخدوم جاوید ہاشمی سے سیکھے جنہوں نے دھرنے کے دوران ایسا الزام داغا تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا پور دھرنا ہی ڈھڑن تختہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اگر چیئرمین نیب پر الزامات لگانے کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک بار محترم مخدوم جاوید ہاشمی جیسے زیرک اور تجربہ کار سیاست دان سے صلح مشورہ کر لیتے تو شاید پھر اُن کا یہ وار خطا نہ جاتا اور اِس سارے معاملہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو اتنا نقصان پہنچنے کا احتمال نہ ہوتا، جتنا کہ اَب مستقبل قریب میں ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ چیئرمین نیب نے اپنے اُوپر الزامات لگانے والے تمام مرکزی کرداروں کے خلاف نیب ریفرنسز داخلِ دفتر کریئے ہیں،جس سے جلد ہی یہ معلوم ہوجائے گا کہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کے خلاف بنائی جانے والی اِس فلاپ فلم کا اصل خالق اور ڈائریکٹر کون تھا؟یادش بخیر کہ فلم کے ڈائریکٹر کے خلاف مکمل جانکاری ملنے کے بعد پھر نیب، اُس ڈائریکٹر اور اُس کے سہولت کاروں کے ساتھ کیا کیا کچھ کرے گی، یقینا فلم کا وہ حصہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھنے والا ہوگا۔



پاکستان کی سیاست میں الزام کا پودا یوں تو روزِ اول ہی میں بو دیا گیا تھا لیکن اس پودے کی آبیاری کر کے ایک مکمل تناور درخت بنانے میں جتنی محنت70 کی دہائی کے بعد سیاست میں جوک در جوک وارد ہونے والے سیاست دانوں اوراُن کی جماعتوں نے کی ہے،اِس سے پہلے ایک دوسرے پر الزامات کا سہارا لے کر سیاسی مفادات حاصل کرنے ایسا مذموم کھیل کھیلنے کی ہمت کم کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔جبکہ 90 کی دہائی کے بعد سیاست دانوں نے الزام تراشی کے پرانے فن میں ایک نئی جدت اور اختراع پیدا کرتے ہوئے، پاکستان کے اداروں پر بھی طرح طرح کی الزام تراشیاں اور دشنام طرازیاں شروع کردیں۔اَب تو نوبت یہاں تک آچکی ہے کہ وطنِ عزیز پاکستان کوئی بھی مقتدر ادارہ ایسا نہیں بچا،جسے سیاست دانوں کے گھناونے الزامات کی دست برد سے محفوظ قرار دیا جاسکے۔

اگر غور و فکر کیا جائے تو منکشف ہو گا کہ دوسروں پر الزام لگانا بھی انسان کے مزاج اور سرشت کا ایک حصہ ہے بہت کم لوگ ایسے ہیں جواس فعل ِ قبیح سے پرہیز کرسکتے ہیں۔کبھی نہ کبھی ہم میں سے ہر شخص کی زبان پر غصہ کے وقت کوئی نہ کوئی الزام اپنے مخالف کے لیئے آہی جاتا ہے۔ہمیں دیکھنا یہ چاہیئے کہ آخر الزامات کا ماخذ کیا ہے۔قیاس یہ کیا جاسکتا ہے کہ جوں جوں انسان کے سماجی تعلقات بڑھے اور تہذیب وتمدن نے ترقی کی منازل طے کیں۔اسی قدر انسان کے اظہار کی قوتیں بھی بڑھتی گئیں کیونکہ انسان کے تعلقات و روابط کا سب سے بڑا وسیلہ قوت ِ اظہار ہی تھی اس لیئے تعلقات بڑھنے سے محبت و نفرت بھی بڑھنے لگی۔اب یہ بات لازم تھی کہ محبت و نفرت کا اثر انسان کی قوتِ اظہار پر بھی پڑے۔پس محبت نے وہ تمام الفاظ پیدا کیئے جو دعاؤں میں،تہنیتوں میں،تعریفوں میں استعمال کیئے جاتے ہیں اور نفرت نے الزامات،بددعائیں اور مذمت کے کلمات کو ایجاد کیا۔پھر مختلف حالات،زمانوں،مختلف طبیعتوں اور مواقعوں نے اُن میں اس قدر گوناگو کثرت پیدا کردی کہ آج اگرہم صرف پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے پر عائد الزامات کی لغت ترتیب دینے بیٹھ جائیں توقوی اُمید ہے کہ دنیا کی سب سے ضخیم کتاب منصہ شہود پر آجائے گی۔

ویسے تو الزامات کی بے شمار قسمیں ہوتی ہیں لیکن اپنی عصمت و عزت کا پاس کیونکہ ہرشخص کو سب سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اس لیئے کسی کے لیئے سب سے سنگین الزام اس کی عصمت و عفت پر لگایا ہوا الزام ہی ہوتا ہے،بہرحال ایک بات طے ہے آپ پر جو بھی شخص الزام لگائے گا وہ آپ کا واقف کار، جاننے والا یا پھر ایسا شخص ضرور ہوگا، جس کا آپ کے ساتھ کوئی نہ کوئی مفاد وابستہ ہوگا۔کسی اجنبی کو کسی اجنبی پر یا بغیر کسی مفاد کے کسی پر الزام لگانے کا انسانی تاریخ میں کوئی قابلِ ذکر ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ یوں جو شخص یا انسان سب سے زیادہ آپ کے رحم و کرم پر ہو،اُسی کی طرف سے زیادہ تر الزام تراشی کا احتمال ہونا چاہیئے۔چیئر مین نیب جاوید اقبال پر الزام تراشی و دشنام طرازی کرنے والوں میں بھی یہ دو بنیادی خامیاں پائی جاتیں ہیں۔اِس لیئے لازم ہے کہ چیئرمین نیب پر الزامات کی منصوبہ بندی کرنے والوں میں بھی وہی شخصیات پیش پیش ہوں گی،جنہیں مستقبل میں نیب کی احتسابی چکی کے پاٹوں کے درمیان پس جانے کا اندیشہ لاحق ہوگا۔یعنی کُھرا ایک بار پھر سے سیاست دانوں کی طرف ہی جاتا ہے کیونکہ فقط سیاست دان ہی ایسی مخلوق ہے جو آج کل پوری طرح سے نیب چیئرمین کی احتسابی ریڈا ر پر آئے ہوئے ہیں۔

ہم تو صرف اُمید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ لوگ جو سیاست میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کے دعویدار ہیں اور مستقبل میں اپنے لیئے نیک نامی اور اچھی شہرت کے طلب گار ہیں کم ازکم انہیں تو اپنے مخالفین پر ہر قسم کے الزامات سے قطعاً پرہیز کرنا چاہئے۔نہ جانے کب ہمارے سیاستدان زندگی گزارنے کے اس بنیادی نقطہ کو سمجھیں گے کہ قوت ِ اظہار ہی انسان کی تہذیب وتمدن کا پہلا معیار ہے اور اس کا پورا معاشرے پر اثر بدرجہ اتم ہوتا ہے۔اس لیئے جو کسی پر الزام لگاتا ہے تو پھر اُس پر بھی کبھی نہ کبھی الزام ضرور لگتا ہے۔الزامات سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے کسی بھی مخالف پربلاتحقیق اور بلاثبوت الزامات لگانے سے اجتناب برتا جائے۔مگر کیا اتنی معمولی سی بات کبھی ہمارے سیاستدانوں کو سمجھ آئے گی؟۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 05 جون 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں