Hanta-Virus-in-China

کورونا کے بعد ہنٹا وائرس کی بازگشت

ابھی کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی سے دنیا کو مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر پائی تھی کہ اچانک سے خبر آگئی ہے کہ چین کے ایک اور صوبے یوننان میں ”ہنٹاوائرس“ کا شکار 32 افراد رپورٹ ہوئے ہیں اور ایک متاثرہ مریض ہلاک ہوگیاہے۔جبکہ چین کے سرکاری میڈیا نے بھی ہنٹا وائرس سے متاثرہ شخص کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔بین الاقوامی میڈیا میں اِس خبر کے نشر ہونے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے کہ ابھی انسان کورونا وائر س کی وباسے پوری طرح نبرد آزما ہی نہیں ہو پائے تھے کہ ہنٹا وائرس کی صورت میں ایک اور وبا ئی مرض اُن کے دروازے پر دستک دینے کے لیئے تیار کھڑا ہے۔ابتدائی معلومات کے مطابق ہنٹا وائرس کوئی نیا وائرس نہیں ہے اور نہ ہی یہ کورونا وائرس جتنا خطرناک اور جان لیواہے۔کہا جارہاہے کہ عموما ً گھروں میں اور اس کے آس پاس چوہوں کے بل ہنٹا وائرس کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب بن سکتے ہیں۔مگر خطرناک بات یہ ہے کہ اِس وائرس نے چین میں صحت مند افراد کو بھی انفیکشن سے متاثر کرنا شروع کردیاہے۔

طبی اصطلاح کے مطابق ہنٹا وائرس کا مکمل نام’’ہنٹا وائرس پلمونری سینڈروم“(ایچ پی ایس)ہے۔ معروف امریکی طبی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی)کے مطابق ہنٹا وائرس چوہوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔ جبکہ بعض صورتوں میں یہ وائرس دیگر پالتو جانوروں سے بھی انسانوں میں منتقل ہوسکتاہے۔لیکن عام طور پر ہنٹا وائرس چوہے اور چوہے کی نسل سے تعلق رکھنے والے جانوروں کے پیشاب، تھوک یا فضلے میں ہی پایا جاتا ہے۔یہ انسانوں میں صرف اسی صورت منتقل ہوسکتا ہے کہ جب کوئی شخص چوہوں کے مذکورہ مواد کو ہاتھ لگائے اور پھر اسی ہاتھ سے اپنی آنکھ یا ناک کو چھوئے تویہ وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہوکر اسے نقصان پہنچاسکتا ہے۔دوسری جانب سانس لینے کے باعث بھی یہ وائرس انسان کے جسم میں منتقل ہوسکتا ہے مگر اِس کے لیئے ضروری ہے کہ ماحول میں چوہوں کا فضلہ یا اس سے متعلق کوئی شئے ہوا میں پہلے ہی سے موجود ہو توپھر یہ امکانات پائے جاتے ہیں کہ انسان اگر اس آلودہ اور تعفن زدہ ماحول میں سانس لے گاتو یہ وائرس با آسانی انسان کی سانس کی نالی میں منتقل ہوجائے گا۔امریکی طبی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (سی ڈی سی) کے مطابق اس وائرس سے متاثر کیسز شازو نادر ہی سامنے آتے ہیں، امریکا میں ایک سے دوسرے انسان میں اس کے پھیلاؤ کاکبھی کوئی کیس سامنے نہیں آیا، مگر چلی اور ارجنٹائن میں چند کیسز ایسے ضرور سامنے آئیں جس میں اس کی ایک قسم اینڈس وائرس سے بیمار افراد کے قریب جانے پر لوگ بیمار ہوئے ہوں۔درحقیقت ارجنٹائن میں گزشتہ سال اس وائرس کے نتیجے میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے تھے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اس موقع پر ایک الرٹ جاری کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ اکتوبر 2018 سے جنوری 2019 کے دوران ہنٹا وائرس کے 29 کیسز کی باقاعدہ تصدیق ہوئی ہے، جن میں سے 60 فیصد خواتین یا لڑکیاں تھیں۔اس موقع پر عالمی ادارہ صحت نے اِس وائرس کے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقلی کے عمل کا جائزہ لیا تھا تاہم اس وقت کچھ زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آسکی تھیں۔اس لیئے طبی ماہرین کی طرف سے اُمید یہ ہی ظاہر کی جارہی ہے کہ فی الحال ہنٹا وائرس کے عالمی وبائی صورت اختیار کرنے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔



واضح رہے کہ ہنٹا وائرس کا نام جنوبی کوریا میں ایک دریا ہنٹا سے مستعار لیا گیا ہے۔جہاں اس وائرس نے 1950 میں پہلی مرتبہ امریکا اور ویتنام کی جنگ کے دوران امریکی افواج کو اپنا شکار بنایا تھا اور ایک ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کی جان لے لی تھی۔ 2012 میں ہنٹا وائرس امریکی ریاستوں میں پھیل گیا تھااورجس کے انسداد کے لیئے امریکہ نے ہنٹا وائرس سے بچاؤکی ویکسن 2014 میں بنا لی تھی۔ہنٹا وائرس کی ابتدئی علامات میں تھکاوٹ، بخار اور پٹھوں کے شدید دردسمیت سر درد، چکر آنا، سردی لگنا، متلی وغیرہ جیسی کیفیات شامل ہیں۔ہنٹا وائرس سے متاثرہ لوگوں میں سے نصف میں یہ علامات باآسانی ظاہر ہوجاتی ہیں۔اس وائرس سے لاحق ہونے والی بیماریوں میں ”ہنٹا ہیمرج فیور رینل سینڈروم“یا”ہنٹا وائرس پلومونری سینڈروم“شامل ہیں۔ اس وائرس کی طویل مدتی علامات میں کھانسی اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔عام طور پر ہنٹا وائرس سے متاثرہ مریض کو پھیپھڑوں میں مائع بھر جانا جیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔چونکہ دنیا بھر میں اِس وائرس کے بہت کم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔جس کی وجہ سے اس وائرس کے ”انکیوبیشن ٹائم“ کی درست طور پر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔کچھ غیر ملکی ویب سائٹس و جریدوں کیمطابق ہنٹا وائر س کے انسانوں میں منتقل ہونے کے ایک سے آٹھ ہفتوں کے درمیان اس کی علامات ظاہر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔

چونکہ چین میں اس وائرس کا کیس اس وقت سامنے آیا جب نئے نوول کورونا وائرس کی وباسے پوری دنیا لڑنے میں مصروف عمل ہے۔لہٰذا طبی ماہرین اور عام عوام ہنٹاوائرس کی خبر کو نظرانداز نہیں کرپارے ہیں اور عالمی ذرائع ابلاغ میں ہنٹاوائرس کے متعلق چھان بین کا عمل تیز تر کردیاگیا ہے جب کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے ہنٹا وائرس کے حوالے سے مختلف طرح کی میمز اور پوسٹیں بھی بنانا شروع کردی ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار لوگ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہنٹا وائرس سے ہونے والی رواں برس کی پہلی ہلاکت پر اپنی بھرپور تشویش کا اظہار بھی کررہے ہیں۔شاید یہ ہی وجہ گزشتہ چند دنوں سے کورونا وائرس کے ساتھ ٹوئٹر پر hantavirus# کا ہیش ٹیگ بھی دنیا بھر میں ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہے۔مگر جیسا کہ ابتداء میں ہی اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ یہ کورونا وائرس کی طرح متعدی وائرس نہیں ہے۔لہذاہنٹا وائرس کی جلد تشخیص کر کے متاثرہ مریض کو باآسانی بچایا جا سکتا ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ہفت روزہ ندائے ملت لاہور میں 02 اپریل 2020 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں