Mobile Phone Phobia

موبائل فون دشمنِ جاں بھی۔۔۔!

یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ میں سے اکثر قارئین”مارٹن کوپر“ کو نہیں جانتے ہونگے کیونکہ آپ کو سارا دن اسمارٹ فون پر کال کرنے،دوستوں کو میسجز بھیجنے، رشتہ داروں کوواٹس ایپ پر ویڈیوز شیئر کرنے،فیس بک پر اقوالِ زریں پوسٹ کرنے اور سیلفیاں لینے کے دوران فرصت کا کوئی ادنی سا لمحہ ملے تو سوچیں گے نا کہ یہ سارا دن آپ جس موبائل فون کو اپنے ہاتھ میں لیئے اِدھر سے اُدھر پھرتے رہتے ہیں یہ آخر کس موصوف کی ایجاد ہے۔تو جناب آپ کی طرح فون ہاتھ میں لے کر گھومنے کا خیال سب سے پہلے مارٹن کوپر کے ذہن میں ہی آیا تھا اور پھر موٹرولا کی ٹیم کے ساتھ مل کر انہوں نے3 اپریل 1973 ء کو پہلا موبائل فون بنایا جس کا وزن دو کلو تھا۔ نیویارک کی ایک سڑک پر جب انہوں نے اس موبائل فون سے پہلی کال کی ہوگی، اُس وقت مارٹن کوپر کے خواب و خیال میں بھی نہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں اُن کی ایجاد کو اپنے ہاتھوں میں لیئے بغیر دنیا کو کوئی شخص اپنے گھر سے باہر نکلنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ اس اولین موبائل فون کی بیٹری صرف بیس منٹ ٹاکنگ ٹائم کی حامل تھی لیکن یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا کیونکہ موبائل فون کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ اسے کوئی بیس منٹ بھی اپنے کان سے لگا کر بات نہیں کر سکتا تھا۔جبکہ دنیا کا پہلا اسمارٹ فون 16 اگست 1994 کو معروف کمپنی آئی بی ایم نے متعارف کرایا تھا جس کا نام پہلے انیگلر رکھا گیا مگر بعدازاں اسے سائمن پرسنل کمیونیکٹر کہا جانے لگا۔ یہ مارکیٹ میں دستیاب اپنی نوعیت کا پہلاٹچ اسکرین فون تھا جسے انگلی کی مدد سے آسانی سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے اسمارٹ فونز میں ہونے والی اختراعات نے ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔آج ایک عام شخص کے نزدیک ٹیلی کمیونیکیشن سے مراد موبائل فون،انٹرنیٹ اور اس سے متعلق نظام کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ویسے تو ٹیلی کمیونیکیشن کا عالمی یوم 1969 ء سے 17 مئی کو دنیا بھر میں ہر سال باقاعدگی سے منایا جارہا ہے جس کا مقصد ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کی اہمیت کا اعتراف کرنا اور دنیا بھر میں رہائش پذیر افراد کی زندگیوں پر پڑنے والے اس کے مثبت اور منفی اثرات کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔لیکن اس وقت دنیا کا شاید ہی کوئی فر د ہو جو ٹیلی کمیونیکیشن کی آفادیت سے کماحقہ آگاہ نہ ہو۔مگر بدقسمتی سے عام لوگوں کو اس تیزی سے فروغ پاتی صنعت کے دنیا اور انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک محتا ط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5 ارب کے قریب صارفین موبائل فون استعمال کر رہے ہیں،ماہرین کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں 2020ء تک موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد 5.5 ارب سے تجاوز کر جائے گی۔گزشتہ سال دنیا بھر میں موبائل فون مارکیٹ کا حجم 479 ارب ڈالر تھا جبکہ 2020 ء تک یہ حجم 3 ہزار 155 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق ہمارے ملک میں موبائل فون صارفین کی تعداد 14 کروڑ سے زائد ہوچکی ہے۔ ملک میں اس وقت 5 سب میرین کیبلز کام کر رہی ہیں اور سالانہ 74 ہزار ٹیرا بائٹ ڈیٹا استعمال ہورہا ہے اور ملک کے 72 فیصد سے زائد حصے میں ٹیلی کمیونیکشن سروسز دستیاب ہیں۔ادارہ شماریات اسلام آبادکے مطابق پاکستان میں موبائل فون کی درآمدات میں صرف 2ماہ یعنی جولائی اور اگست 2017ء میں 30 اعشاریہ 8 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دو ماہ کا حال یہ ہے تو باقی سال کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری کے یہ ہی وہ بیش بہا فوائد ہیں جنہیں پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس انڈسٹری کے نتیجے میں انسان دوست ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات سے صرفِ نظر کر لیا جاتا ہے۔اس بات سے انکار نہیں کہ رابطے کے لیے ناگزیر انٹرنیٹ اور موبائل فون نے انسانی زندگی میں سہولتوں کے کئی نئے دروازے تو ضرور وا کیے لیکن دوسری جانب یہ سہولیات اپنے مضر اثرات کی بناء پر کرہ ئارض اور اس پر رہنے والے انسانوں کے لیئے خطرات کا باعث بھی بنتی جا رہی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے مضر اثرات سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد ترقی پزیر ممالک کی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق موبائل ریڈایشن سے جو پریشانیاں لاحق ہو سکتی ہیں ان میں سردرد، سر میں جھنجھناہٹ، مسلسل تھکن محسوس کرنا، چکر آنا، ڈپریشن، نیند اُچاٹ ہوجاتا، کام میں توجہ کا فقدان، کانوں کا بجنا، سماعت میں کمی، یاداشت میں دیوالیہ پن،نظام ہضم میں خرابی، بے قاعدہ حرکت قلب اور جوڑوں میں درد جیسے سنگین عوارض شامل ہیں۔ جبکہ انٹرفون اسٹڈی میں کہا گیا ہے کہ روزانہ چار گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت کیلئے موبائل فون کا استعمال کرنے پر 8تا10 سال کے دوران برین ٹیومر کا خدشہ 200تا400 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ دراصل انسانی جسم میں 70 فیصد پانی ہے جبکہ دماغ میں بھی 90 فیصد تک پانی ہوتا ہے۔ یہ پانی بتدریج باڈی ریڈی ایشن کو جذب کرتا ہے حتی کہ مستقبل میں صحت کیلئے نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ دوسری جانب موبائل فون ٹاورز سے ماحولیات کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔موبائل فون ٹاورز کی تاب کار شعاعیں اور ان سے نکلنے والی برقی لہریں ایک تسلسل کے ساتھ انسانی جسم کے خلیوں کو اپنا ہدف بناتی ہیں جس سے ہمارے خلیوں اور اعضاء کے جنکشن پوائنٹس سمیت ہمارا سارا دماغی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے۔ موبائل کمپنیوں کو چاہیے کہ اگر گنجان آباد علاقے میں کہیں موبائل ٹاور کی تنصیب کی اشد ضرورت ہیں تو انہیں کسی قدرتی ماحول کے مطابق کیموفلاج کیا جائے تاکہ یہ دیکھنے میں نہ صرف انسانی آنکھ کو بھلے محسوس ہوں بلکہ اپنے مضراثرات سے بھی پاک ہوں۔ترقی یافتہ ممالک میں موبائل فون ٹاورز انسانی آبادی کے علاقوں میں نصب کرنے سے پہلے انہیں مضر اثرات سے مکمل طور پر پاک کرلیا جاتاہے۔اس کام کے لیئے وہاں باقاعدہ ادارے بنائے گئے ہیں لیکن ہمارے ہاں نوے فیصد سے زیادہ موبائل فون ٹاورز جو لوگ نصب کرتے ہیں اُن کا انتخاب فرسودہ ٹھیکیداری نظام کے ذریعے کیا جاتا ہے۔جس پر حکومت کا چیک اینڈ بیلنس سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے۔

موبائل ریڈئیشن آخر ہے کیا بلا؟
ریڈی ایشن کئی طرح کا ہوتا ہے یہ عموماً الیکٹرومیگنیٹک لہروں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جن کی فریکوئنسی 1000 سے 3000 میگاہرٹز تک ہوسکتی ہے۔ مائکروویو اوون، اے سی، وائرلیس کمپیوٹر، کورڈلیس فون اور دیگر وائرلیس ڈیوائسیں بھی ریڈ ی ایشن پیدا کرتی ہیں لیکن مسلسل بڑھتے ہوئے استعمال، جسم سے نزدیکی اور بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے موبائل ریڈی ایشن سب سے خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ موبائل ریڈی ایشن دوقسم کا ہوتا ہے، پہلاموبائل ٹاورسے جبکہ دوسرا موبائل فون سے۔ موبائل ریڈی ایشن ہر عمر کے افراد کیلئے نقصان دہ ہے لیکن بچے، خواتین، عمر رسیدہ افراد اور مریضوں کو اس سے زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کے فوڈ اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن کا کہنا ہے کہ بچوں اور نوعمروں کو موبائل پرزیادہ وقت نہیں گزارنا چاہئے اورا سپیکر فون یا ہینڈسیٹ کا استعمال کرنا چاہئے تاکہ سر اور موبائل ہینڈ سیٹ کے درمیان فاصلہ قائم رہے، یہی وہ عالمی معیار ہے جس کی وجہ سے ہر مو بائل فون کے ساتھ ایک عدد ہینڈز فری اسپیکر سیٹ ضرور آتا ہے۔لیکن ہمارے ہاں اسے استعمال کرنے کا تکلف کم لوگ ہی کرتے ہیں۔ بظاہرموبائل فون انسانی جسم کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لئے موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن سے نقصان زیادہ ہونا چاہئے جبکہ سائنسی تحقیقات کے مطابق انسانی جسم پر زیادہ بُرے اثرات موبائل فون کے ٹاوروں سے خارج ہونے والی ریڈی ایشن سے مرتب ہوتے ہیں کیونکہ موبائل فون کا استعمال مسلسل نہیں کیا جاتا لیکن موبائل فون کے ٹاور بلاکسی تعطل مسلسل چوبیس گھنٹے ریڈی ایشن خارج کرتے رہتے ہیں۔ موبائل پر اگر کوئی شخص مجموعی طور پر چار گھنٹے بات کرتا ہے تو اس سے پیداشدہ نقصان کی تلافی کیلئے 23 گھنٹے درکار ہوتے ہیں جبکہ موبائل ٹاور کے قریب رہنے والے اس سے نکلنے والی لہروں کی زد میں مسلسل پھنسے رہتے ہیں۔ اگر گھر کے سامنے ٹاور نصب ہے تو اس میں رہنے والے لوگوں کو 2تا3 سال کے اندر صحت سے متعلق دشواریاں پیش آنا شروع ہو سکتی ہیں۔موبائل ٹاور کے 300 میٹرکے دائرے میں سب سے زیادہ ریڈی ایشن ہوتا ہے۔موبائل ٹاور پر نصب انٹیناکے سامنے والے حصے سے سب سے زیادہ لہریں خارج ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سامنے کی جانب ہی نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے بمقابلہ پیچھے اور نیچے کے۔ موبائل ٹاور سے درپیش نقصان میں یہ پہلو بھی خاصا اہمیت کا حامل ہے کہ آپ کا گھر ٹاور پر لگے ا یٹینا کے سامنے ہے یا پیچھے۔ اسی طرح فاصلہ بھی بہت اہم ہے۔ ٹاور کے ایک میٹر کے ایریا میں 100 گنا زیادہ ریڈیشن ہوتا ہے۔ ٹاور پر جتنے زیادہ ا ٹینانصب ہوں گے، ریڈی ایشن کا اخراج بھی اتنازیادہ ہوگا۔



موبائل فون ریڈی ایشن کے مضر اثرات کے حوالے سے اب تک دنیا بھر میں بے شمار تحقیقات کی جاچکی ہیں۔2010 میں ڈبلیوایچ اوکی ایک ریسرچ میں انکشاف ہوا تھا کہ موبائل ٹاور ریڈیشن سے کینسر ہونے کا خطرہ ہے۔ ہنگری میں سائنس دانوں نے پتہ چلایاہے کہ جو نوجوان بہت زیادہ موبائل فون کا استعمال کرتے تھے، ان کے اسپرم کی تعداد کم ہو گئی۔ جرمنی میں ریسرچ کے مطابق جو لوگ ٹرانس میٹر ا یٹینا کے 400 میٹر کے دائرہ میں رہ رہے تھے‘ ان میں کینسر ہونے کے خدشات تین گنا بڑھ گئے جبکہ 400 میٹر کے ایریا میں ٹرانس میشن دیگرعلاقوں سے 100 گنا زیادہ ہوتا ہے۔چین میں کی گئی ایک ریسرچ کے مطابق موبائل فون ٹاوروں سے ہونے والے ریڈی ایشن سے شہدکی مکھیوں کی تعداد 60 فیصد تک کم ہوگئی۔

موبائل فون ٹاورز کے مضر اثرات سے بچنے کے کچھ رہنما اُصول
جتنا ممکن ہوموبائل ٹاور سے دور رہیں۔
ٹاور کمپنی سے ا یٹینا کا پاور کم کرنے کیلئے کہیں۔
اگر گھر کے بالکل سامنے موبائل ٹاور ہے تو گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر کے رکھیں۔
گاہے بہ گاہے گھر میں ریڈیشن ڈٹیکٹر کی مدد سے ریڈیشن کا لیول چیک ڈاو ن لوڈکرتے رہیں، جس علاقے میں ریڈئیشن زیادہ ہے، وہاں کم وقت گذاریں۔
ایک ریڈیشن ڈٹیکٹر پاکستان میں تین سے چار ہزار روپے میں آسانی سے مل جاتا ہے۔
گھر کی کھڑکیوں پر مخصوص قسم کی فلم نصب کر سکتے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ ریڈئیشن شیشے کے ذریعے آتا ہے۔ ایک کھڑکی کیلئے اینٹی ریڈایشن فلم کی قیمت عموماً دو سے تین ہزار روپے ہوتی ہے۔
کھڑکی دروازوں پر شیلڈنگ پردے لگوا لیں۔ یہ پردے کافی حد تک ریڈایشن کو روک سکتے ہیں۔ متعدد کمپنیاں ایسی حفاظتی مصنوعات تیارکرتی ہیں۔

اسمارٹ فون کو استعمال کرنے کے ”اسمارٹ“طریقے
دن بھر میں 24 منٹ تک موبائل فون کا استعمال صحت کے لحاظ سے مفید ہے۔ یہاں یہ بھی اہم ہے کہ آپ کے موبائل کی SARویلیو کیا ہے؟ زیادہ SAR ویلیو کے فون پر کم بات کرنا کم SAR ویلیو والے فون پرزیادہ بات کرنے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ لمبے وقت تک بات چیت کیلئے لینڈ لائن فون کا استعمال ریڈیشن سے بچنے کا آسان طریقہ ہے۔کوشش کریں کہ آفس یا گھر میں زیادہ تر لینڈ لائن فون کا استعمال کریں۔
ریڈی ایشن کم کرنے کیلئے اپنے فون کے ساتھ ”فیرائٹ بیڈ“ یاریڈی ایشن خشک کرنے والا ایک آلہ بھی لگا سکتے ہیں۔جبکہ موبائل فون ریڈی ایشن شیلڈ کا استعمال بھی ایک اچھا طریقہ ہے۔اس کے علاوہ ریڈیشن بلاک ا یپلی کیشن کا استعمال کرکے بھی ریڈی ایشن کے مضر اثرات سے بچا جاسکتا ہے۔ دراصل یہ خاص طرح کے سافٹ ویئر ہوتے ہیں جو ایک خاص وقت تک وائی فائی، بلیو ٹوتھ، جی پی ایس یاا یٹینا کو بلاک کرکے موبائل ریڈی ایشن میں اچھی خاصی کمی کر دیتے ہیں۔
اگر سگنل کم آ رہے ہوں تو موبائل کا استعمال بالکل نہ کریں کیونکہ اس دوران ریڈیشن زیادہ ہوتا ہے۔ پورے سگنل آنے پر ہی موبائل استعمال کرنا چاہئے۔ موبائل کا استعمال کھڑکی یا دروازے کے پاس کھڑے ہو کر یا کھلی فضاء میں کرنا بہتر ہے کیونکہ اس سے لہروں کو باہر نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے۔
موبائل جسم سے جتنا دور رہے گا، اس کا نقصان بھی کم ہوگا، اس لئے فون کو جسم سے دور رکھیں۔ بلیک بیری فون میں ایک میسیج بھی آتا ہے جو کہتا ہے کہ موبائل کو جسم سے 25 ملی میٹر یاتقریبا 1 انچ کی دوری پر رکھیں۔ سیمسنگ گیلیکسی کے کئی ایک ماڈلز میں بھی موبائل کو جسم سے دور رکھنے کا میسیج آتا ہے۔ الیکٹرو میگ نیٹک ریڈی ایشن سے بچنے کیلئے ا سپیکر فون یاہینڈز فری کا استعمال کریں۔ ایسے ہیڈ سیٹ استعمال کریں جن میں ایئر پیس اور کانوں کے درمیان پلاسٹک کی ایئر ٹیوب نصب ہو۔
موبائل کو ہر وقت اپنی شرٹ یا قمیض کی سامنے والی جیب میں رکھ کر نہ گھومیں، نہ ہی تکیہ کے نیچے یا بغل میں رکھ کر سوئیں کیونکہ موبائل ہر منٹ گزرنے پر ٹاور کو سگنل بھیجتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موبائل کو کہاں رکھا جائے، گو کہ اس بارے میں ابھی تک کوئی حتمی تحقیق تو سامنے نہیں آسکی ہے اور نہ ہی واضح طور پر یہ ثابت ہو پایا ہے کہ موبائل فون کوجیب وغیرہ میں رکھنے سے انسانی جسم کو کوئی سنگین نوعیت کا حادثہ پیش آسکتا ہے، لیکن اس کے باوجود بھی طبی ماہرین اصرار کرتے ہیں کہ احتیاط کے طور پر خواتین کیلئے موبائل کو پرس میں رکھنا اور مردوں کیلئے کمر پر بیلٹ پر سائیڈ میں لگائے گئے پاوچ میں رکھنا زیادہ درست طرزِ عمل ہے۔ اس لیئے موبائل فون کو جیب سے نکال کر کم سے کم دو فٹ یعنی تقریبا ایک ہاتھ کی دوری پر رکھیں جبکہ سونے کے دوران بھی اس فاصلہ کو برقرار رکھنے کی عادت کو اپنائیں۔
ویسے تو ابھی تک موبائل ریڈی ایشن اور دل کی بیماری کے درمیان براہ راست طور پر کوئی ٹھوس تعلق سامنے نہیں آسکاہے لیکن ریڈی ایشن کے مضر اثرات کا جائزہ لینے والے چند ماہرین کی رائے میں موبائل کے بہت زیادہ استعمال یا موبائل ٹاور کے قریب رہنے سے دیگر مسائل کیساتھ ساتھ دل کی دھڑکن کا بے قاعدہ ہونے کے خدشات سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔اس لیئے بہتر یہی ہے کہ ہم احتیاط برتتے ہوئے موبائل کا استعمال کم سے کم کریں۔
ہمیشہ لفٹ،میٹروبس یا میٹرو ٹرین میں موبائل کے استعمال سے گریز کریں کیونکہ لہروں کے باہر نکلنے کا راستہ مسدودہونے سے ان کا جسم میں داخل ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان مقامات پر سگنل کم ہونا بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمیشہ کمSAR تعداد والے موبائل فون خریدیں کیونکہ ایسے موبائل فون استعمال کرنے سے ریڈی ایشن سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ موبائل فون بنانے والی ہر کمپنی کی ویب سائٹ یا موبائل فون کے ساتھ ملنے والے یوزرمینول میں ایس اے آر کی تعدادضرور درج ہوتی ہے۔امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ سٹیڈرڈ کے مطابق، ایک متعینہ وقت کے اندر کسی انسان یا جانور کے جسم میں داخل ہونے والی الیکٹرو میگنیٹک لہروں کی پیمائش کو ایس اے آر یعنی(Specific Absorption Rate) کہا جاتا ہے۔اس لحاظ سے”ایس اے آر“ کی تعداد ہمارے موبائل فون سے خارج ہونے والی ری ایڈیشن توانائی کا وہ مخصوص پیمانہ ہے جو موبائل فون کے استعمال کے وقت انسانی جسم جذب کرتاہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس موبائل فون کا ایس اے آر تعداد میں جتنا زیادہ ہوگا، وہ جسم کیلئے اتنا ہی زیادہ نقصان دہ ہوگا۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 08 جولائی 2018 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

موبائل فون دشمنِ جاں بھی۔۔۔!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں