grift-of-maweshi-mandi-at-eid-ul-azha

مویشی منڈی کے ٹھگ

جولائی کی حبس زدہ،تپتی دوپہر میں سلیم کو مویشی منڈی کی خاک چھانتے ہوئے پورے پانچ گھنٹے ہوچکے تھے لیکن ابھی تک اُسے اپنی جیب میں موجود رقم کے مطابق ایک بھی اچھااور مناسب بکرا دیکھنے کو بھی نہ مل سکا تھا۔ویسے تو مویشی منڈی میں قربانی کے تمام ہی جانوروں کی قیمتیں بہت زیادہ تھیں لیکن خاص طور پر بکروں کی قیمتیں تو گویا، آسمان سے باتیں کررہی تھی۔حد تو یہ ہے کہ مویشی منڈی میں موجود کمزور جسامت اور واجبی شکل و صورت بکرے کے دام بھی 50 ہزار سے کم نہ تھے۔منڈی کی ہوش رُبا گرانی کو ملاحظہ کرتے ہوئے سلیم نے بغیر خریداری ہی گھر لوٹنے کا فیصلہ کرلیا۔ابھی اُس نے مویشی منڈی کے ہجوم سے باہر نکلنے کے لیئے چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ اُس کی نظر ایک انتہائی خوب صورت اور بھاری جثہ کے بکرے پرجاکر ٹک گئی۔جاتے جاتے یوں ہی ہی دل بہلانے اور حجت پوری کرنے کے لیئے سلیم نے انتہائی بد دلی کے ساتھ بکر ے کے مالک سے پوچھا”اس بکرے کے کیا دام ہوں گے؟“۔
”صاحب! 22 ہزار روپے“۔ بیوپاری نے مری مری آوازمیں کہا۔ بکر ے کی قیمت سنتے ہی سلیم کا منہ حیرانگی سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کیونکہ ایسا لحیم شحیم،اونچے قد کاٹھ کا بکرا تو اس مویشی منڈی سے 80 ہزار میں بھی مل جانا بڑی غنیمت تھا۔ سلیم نے بکرے کا اچھی طرح معائنہ کیا،شاید اس میں کوئی شرعی عیب ہو،جس کی وجہ سے بیوپاری اسے ارزاں نرخوں پر بیچ رہا ہے۔ مگر غیر متوقع طور پر بکرا بالکل بے عیب اور ہر لحاظ سے قربانی کے لیئے مناسب تھا۔ سلیم تو گویا خوشی سے نہال ہوگیا،اُس نے بھاؤ تاؤ میں وقت ضائع کیئے بغیرجیب سے 22 ہزار روپے نکال کر بکرے کے مالک کی جانب بڑھائے تو بیوپاری نے پیسے اپنے ہاتھ میں لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ”صاحب جی! میں یہ بکرا پیسوں میں نہیں بیچوں گا“۔
”بھئی کیوں! ابھی تو تم نے اس بکرے کی قیمت 22 ہزار روپے بتائی تھی،اَب کیوں اپنی بات سے مُکر رہے ہو“۔سلیم نے درشت لہجہ میں کہا۔
”دراصل میں تو گاؤں سے گدھا خریدنے آیا ہوں،مجھے اپنی روزی روٹی کے لئے گاڑی میں جوتنے کے لیئے ایک گدھا درکار ہے۔ جس کے لیئے میں اپنا قیمتی بکرا بیچ رہا ہوں۔یہاں منڈی میں ایک شخص گدھا بیچ رہا ہے،لیکن وہ بکرے کے بدلے مجھے گدھا نہیں دے رہا،اگر تم مجھے اس شخص سے گدھا خرید دو تو میں یہ بکرا تمہیں گدھے کے عوض سونپ دوں گا“۔ بیوپاری نے انتہائی لجاجت سے جواب دیا۔

سلیم نے گدھے والا کا ٹھکانہ پوچھا۔بیوپاری نے ہاتھ سے سامنے کی سمت اشارہ کیا،جہاں ایک شخص گدھا کے ساتھ اکیلا کھڑا تھا۔سلیم گدھے کے مالک کے پاس گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا گدھا 24 ہزار میں بیچنے کو تیار ہے۔سلیم کوابھی بھی یہ سودا سستا ہی لگا۔لہٰذا اُس نے رقم بیوپاری کے حوالے کی اور گدھے کی رسی پکڑ کر اُس سمت چل پڑا جہاں بکرے کا مالک اُس کا انتظار کررہاتھا۔ابھی سلیم نے چند قدم ہی بڑھائے تھے کہ اُس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کیونکہ مقررہ جگہ پر بکرے والا موجود نہیں تھا۔ سلیم نے دفعتاً پیچھے مڑ کر دیکھا تو اُس کے سر سے آسمان بھی کھسک گیا کیونکہ گدھے کا بیوپاری بھی رفو چکر ہوچکا تھا۔سلیم کو صورت حال کی نزاکت اور سنگینی سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔لیکن اب کیا ہوسکتا تھا، نہ تو گدھا،گھر لے جاکر اس کی قربانی کی جاسکتی تھی اور نہ ہی عید قرباں کے لیئے سجائی گئی مویشی منڈی میں اُسے اپنے سے بڑا گدھا،یعنی اس گدھا کا خریدار ملنا ممکن تھا۔ پس! سلیم نے خاموشی کے ساتھ گدھا وہیں مویشی منڈی میں چھوڑا اور 24 ہزار کے نقصان پر صبر کر کے گھر کی سمت چل دیا۔

سماجی رابطوں کے ویب سائٹ پر زیرگردش ایک پوسٹ سے ماخوذ اس کہانی کا مرکزی کردار سلیم کی جگہ ہم میں سے بھی کوئی شخص بن سکتاہے۔ کیونکہ مویشی منڈی کے ٹھگ پورے طرح سے متحرک ہوچکے ہیں۔اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ اگر مویشی منڈی میں بکرے کے کم سے کم نرخ50 ہزار سکہ رائج الوقت سنائی دے رہے ہوں تو پھر وہاں سے24 ہزار میں خریدا گیا بکرا، سب کچھ ہوسکتاہے،مگر بکرا تو کسی صورت بھی نہیں ہوگا۔لہٰذا احتیاط کریں اور اس عید قرباں کے موقع پر مویشی منڈی کے ٹھگوں کے ہاتھوں قربان ہونے سے بچنے کے لیئے زیر نظر مضمون کا پورے انہماک سے مطالعہ فرمائیں۔

دانت کھیرے کے اور۔۔۔دکھانے کے اور
عید الاضحی پر قربانی کا جانورخریدنے سے پہلے تین بنیادی باتوں کو اپنے پلے باندھ کر رکھنا از حد ضروری ہے۔سب سے پہلے قربانی کے جانور کی عمر کہ آخر وہ جانور قربانی کے لائق ہے یا نہیں، عموماًعمر کا تعین جانور کے دانتوں کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔دوئم قربانی کے جانور کی صحت، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جگالی کرے، کیونکہ جانور کے مسلسل جگالی سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور صحت مند ہے۔سوئم، جانور کی چال، ایسا جانور جو اتنالنگڑا ہو کہ صرف تین پاؤں سے چلتا ہو اور چوتھے پاؤں کا سہارا نہ لے پاتا ہو، اس کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔ قربانی کا جانور خریدنے کے لیے ان تمام باتوں کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔واضح رہے کہ اگر قربانی کی جانور کی دو برس تک پرورش آپ کی ذاتی نگرانی میں ہوئی ہے تو پھر قربانی کے لیئے اُس کے دو دانت کی جانچ والی شرعی شرط کی پیروی کرنا لازم نہیں ہے۔ لیکن کسی اجنبی شخص یا مویشی منڈی سے قربانی کا جانور خریدنے سے قبل اس بات کا اطمینان کرلینا ازحد ضرور ی ہے کہ اُس کے منہ میں دو دانت ہیں بھی یا نہیں۔

عام مشاہد ہ میں آیا ہے کہ مویشی منڈی میں قربانی کے جانور کے منہ میں نقلی دانت لگا کر کم عمر جانور انتہائی مہنگے داموں بیچنے کے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بیل،گائے،بکرا غرض ہر قسم کے قربانی کے جانور کے منہ میں مردہ جانوروں،گدھے اور سنگ مر مر سے بنے مصنوعی دانت لگا کرمویشی منڈی میں آنے والے سادہ لوح افراد کو ٹھگنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اَب تو مویشی منڈی کے ٹھگوں نے ایک قدم مزید آگے بڑھاتے ہوئے مویشیوں کو نقلی سینگ لگا کر بھی بیچنا شروع کردیا ہے۔ نقلی دانت اور جعلی سینگ کو ہوبہو اصل جیسا بنانے کے لیئے ہتھوڑے، چھینی کے علاوہ گلو، صمد بونڈ، ایلفی اور دیگر جدید ترین آلاتِ سرجری کو استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ چونکہ عید الاضحی پر سنت ابراہیمی اداکرنا ہر فرد کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ تگڑے سے تگڑا اور سستے سے سستا جانور خریدا جائے اور گاہک کی اسی جذباتی کمزوری کا فائدہ بعض چالاک بیوپاری دھوکہ دہی کی صورت میں اُٹھاتے ہیں۔ اس لیئے مویشی منڈی سے جانور کا سودا طے کرنے سے قبل جانور کے دانت چیک کرنے لگیں تو مسوڑوں کا رنگ بھی دیکھ لیں، مسوڑے سیاہی مائل یا بہت زیادہ کالے ہوں، یا سرخی مائل یابہت زیادہ نیلے ہوں یا پھر دانت غیر معمولی حد تک بڑے دکھائی دیں تو فوراً سمجھ جائیں کہ آپ کو جعلی دانت لگاکر ٹھگنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بہرکیف،زیادہ مستحسن تو یہ ہے کہ جانوروں سے متعلق سوجھ بوجھ رکھنے والے کسی تجربہ کار شخص کو اپنے ہمراہ لے جاکر مویشی منڈی سے قربانی کا جانور خریدیں۔

مویشی منڈی کے جیب کترے
ہمارے ہاں قربانی کے جانور کی 90 فیصد خریدو فروخت یا لین دین نقد ادائیگی سے ہوتا ہے۔ اس لیئے مویشی منڈی میں قربانی کے جانور خریدنے کے لیئے آنے والے کم و بیش تمام گاھک اپنی جیبیں پیسوں سے بھر کر ہی آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مویشی منڈی میں جانور،بیوپاری اور گاھک کے علاوہ بڑی تعداد میں جیب کترے بھی ہمہ وقت اپنے شکار کی تلاش کے لیئے سرگرداں رہتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے افراد جو پہلی بار مویشی منڈی میں آئے ہوں یا پھر جو تن تنہا ہی قربانی کا جانور خریدنے کے لیئے نکل پڑتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افراد جیب کتروں کے لیئے آسان ترین شکار ہوتے ہیں۔نیز جیب کترے صرف خریداروں کو ہی نہیں بلکہ بیوپاریوں کی جیبوں پر بھی اپنی ہاتھ کی صفائی دکھانے سے باز نہیں آتے۔ لیکن خریداروں کے مقابلے میں گھاگ بیوپاری، جیب کتروں کے لیئے ذرا مشکل ہدف ہوتے ہیں۔

کیونکہ زیادہ تر بیوپاری مکمل احتیاط کے ساتھ،ٹولیوں کی شکل میں انتہائی منظم انداز میں مویشی منڈی وارد ہوتے ہیں۔ جیب کتروں کا شکار بننے سے بچانے والی ایک چھوٹی سی احتیاط تو یہ ہے کہ مویشی منڈی کبھی تنہا نہ روانہ ہوں بلکہ اپنے کسی عزیز یا دو چار دوستوں کے ہمرا ہ جائیں۔ اس طرح بوریت بھی نہیں ہوگی اور اپنی جیب اور خریدکیئے گئے جانور کی اچھی طرح سے دیکھ بھال کرنے میں بھی کافی سہولت میسر آئے گی۔ علاوہ ازیں اگر ہر صوبے اور ضلع کی انتظامیہ تھوڑی سی توجہ مویشی منڈی کے انتظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی جانب مبذول کرے تو قربانی کے جانور کی خرید و فروخت کے لیئے اے ٹی ایم، ڈیبٹ کریڈٹ کارڈ،موبائل والٹ اور آن لائن بینکنگ جیسی ڈیجیٹل سہولیات بھی مویشی منڈی میں فراہم کی جاسکتی ہیں۔ مالیاتی لین کے جدید ذرائع کی موجودگی سے مویشی منڈی آنے والے صارفین کی نقد رقم جیب میں رکھنے کے جھنجھٹ سے کافی حد تک جان چھوٹ سکتی ہے۔ یعنی نہ ہوں گے جیب میں پیسے اور نہ ہی خوف ہوگا جیب کٹ جانے کا۔

اصلی جانور،نقلی نوٹ
17اگست 2018 کوصوبہ خیبر پختونخواہ کے دارلحکومت پشاور میں سجنے والی مرکزی مویشی منڈی میں چند چالاک ٹھگ ایک سولہ،سترہ سال کے بچے کو اپنی چکی چپڑی باتوں سے بہلا وا دے کر اُ س سے جعلی کرنسی نوٹوں کے عوض بکرا خرید کر لے گئے تھے۔کچھ دیر کے بعد جب بچے کو معلوم ہوا کہ اُسے اپنا بکرا بیچ کر جو کرنسی نوٹ حاصل ہوئے ہیں وہ سب جعلی ہیں تو دور دراز گاؤں سے پشاور شہر آنے والاوہ معصوم اور کمر عمر بیوپاری مالی نقصان کے صدمے سے رو رو کر ہلکان ہو گیا۔موقع پر موجود ایک شخص نے روتے ہوئے بچے کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کردی۔ ویڈیو میں بچہ آنسو بہاتے ہوئے بتاتاہے کہ”کچھ لوگ نے مجھ سے 28 ہزار روپے کے عوض بکرا خرید کر لے گئے اور جعلی پیسے مجھ تھما گئے“۔ مذکورہ ویڈیو تھوڑ ی دیر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔اس ویڈیو نے اقراء یونیورسٹی کے چند طالب علموں کو بھی جذباتی طور پر شدید متاثر کیا۔

بعد ازاں اقراء یونیورسٹی کے طلبا و طالبات نے یونیورسٹی اور دیگر مخیر حضرات کی مدد سے متاثرہ بچے کی داد رسی کرتے ہوئے 50 ہزار روپے کی خطیر رقم بچے کے حوالے کردی۔نیز طالب علموں نے اپنی جانب سے مذکورہ بچے اور اس کے بہن بھائیوں کے لیئے عید قرباں پر پہننے کے لیئے نئے کپڑوں اور جوتوں پر مشتمل بیش قیمت تحائف بھی دیئے۔ اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ عید قرباں کے موقع پر ملک بھر میں سجنے والی مویشی منڈیوں میں نوسر بازوں کی نو سربازی کس قدر عروج پر ہوتی ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ نقلی کرنسی نوٹو ں کے علاوہ اکثر دور دراز کے گاؤں،دیہات سے آنے والے بیوپاریوں کو نشہ آور چیزیں کھلا، پلا کر بھی اُنہیں اُن کی قیمتی متاع سے محروم کردیا جاتاہے۔علاوہ ازیں اَب تو مویشی منڈیوں میں منظم ڈکیتیاں بھی ہونے لگی ہیں،ایک اخباری خبر کے مطابق گزشتہ ہفتے کراچی سپر ہائی پر واقع ایک کیٹل فارم میں ڈکیتی کی ایک بڑی واردات میں 20 سے زائد ڈاکو باڑے سے 100 سے زائد مویشی لوٹ کر فرار ہوگئے، لوٹے گئے مویشیوں کی مالیت کروڑوں روپے میں تھی۔اس طرح کے واقعات چغلی کھاتے ہیں کہ صوبائی اور ضلعی حکومتیں مویشی منڈیو ں کا انتظام و انصرام کتنی غیر سنجیدگی اور بے دلی سے انجام دیتی ہیں۔

سرکاری ٹھگ
”باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے۔۔۔ جن پہ تکیہ تھا،وہی پتے ہوادینے لگے“۔معروف شاعر ثاقب لکھنوی کا یہ شعر عید الاضحی کے موقع پر ملک بھر میں قائم ہونے والی مویشی منڈیوں کی دیکھ ریکھ کرنے والے سرکاری اداروں پر پوری طرح سے صادق آتاہے۔ بظاہر عوامی حکومتوں کی جانب سے ہر سال مویشی منڈیوں کے حسن انتظام کے بلند بانگ دعووں سے مرصع اشتہارات الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر شائع کروائے جاتے ہیں۔ مگر حقیقت احوال یہ ہے کہ کئی مویشی منڈیاں تو صرف بد انتظامی ہی نہیں بلکہ بدعنوانی کا بھی ایک شاہ کار نظر آتی ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ بظاہر مویشی منڈیوں کی بابت بتایا جاتاہے کہ ان کا انتظام مکمل طور پر عوامی حکومت کے پاس ہے۔ جبکہ ملک کی 90 فیصد مویشی منڈیاں پرائیوٹ ٹھیکے دار اپنے خود ساختہ اُصول و ضوابط کی روشنی میں چلا رہے ہوتے ہیں۔

نیز یہ نجی ٹھیکے دار مختلف سرکاری محکموں کے افسران بالا سے ساز باز کرکے مویشی منڈی میں خرید و فروخت کے لیئے آنے والے بیوپاریوں اور شہریوں سے داخلہ فیس کے نام پر جگا ٹیکس اور پارکنگ فیس کے نام پر اووچارجنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اگر حکومت نے جانوروں کو مویشی منڈی لانے اور لے جانے والی گاڑیوں کے لیئے پارکنگ فیس کے سرکاری نرخ 200 روپے مقرر کیئے ہیں تو ٹھیکیداروں کے ہرکارے بیوپاریوں سے 500 روپے وصول کرتے ہیں اور انہیں رسید 200 کی ہی بنا کر دیتے ہیں۔ جبکہ اگر شہریوں کے لیئے مویشی منڈی میں داخلے کی سرکاری فیس 300 روپے ہو،تو یہ اُن سے 7 سو سے ہزار روپے طلب کرتے ہیں جبکہ رسید 300 کی ہی بناکر دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اکثر مویشی منڈیوں میں حکومت کی جانب سے قربانی کے جانوروں کی خریدو فروخت بالکل مفت ہونے کے واضح احکامات ہوتے ہیں،مگر اس کے باوجود بھی یہ نجی ٹھیکیدار مویشی منڈی میں طے پاجانے والے ہر سودے پر شہری اور بیوپاری سے علحیدہ علحیدہ بھتہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مویشی منڈیوں میں ہونے والی سہولیات کی عدم فراہمی، بدانتظامی،قانون شکنی اور دھوکہ دہی کی تمام وارداتوں میں بھی اکثر مویشی منڈی کے یہ ہی پرائیوٹ ٹھیکیدار براہ راست ملوث پائے جاتے ہیں۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 11 جولائی 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں