Imran Khan Meeting

اِس سادگی سے گِر نہ جائے کہیں، تبدیلی کی حکومت

ایک ماہر برطانوی ڈرائیونگ انسٹرکٹر نے اپنے علم اور تجربے کی روشنی میں ٹریفک کا سب بڑا اُصول بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ”آ پ اپنی گاڑی سڑک پر دوڑاتے ہوئے چلے جارہے ہیں کہ اچانک سائیڈ کی گلی سے ایک گیند سڑک پر آگئی ہے،یہ گیند دیکھ کر آپ کو جاننا پڑتا ہے کہ اس کے پیچھے یقینا ایک بچہ بھی آرہا ہوگا۔اگر آپ صرف ”گیند“ کو دیکھیں اور ”بچہ“ کو نہ دیکھیں تو کسی بھی صورت آپ کو ایک اچھا ڈرائیور نہیں کہا جاسکتا۔اچھا ڈرائیور وہ ہے جو گیند کو دیکھتے ہی ”بچہ“ کو بھی دیکھ لے اگر چہ بچہ اس وقت بظاہر اس کی آنکھوں کے سامنے نہ ہو۔اگر ڈرائیور نے گیند کو دیکھ کر اپنی گاڑی کو بریک نہیں لگایا تو یقینی بات ہے کہ اگلے ہی لمحہ اس کی گاڑی ایک بچہ کو سڑک پر کچل چکی ہوگی اور اس حادثہ کو کسی بھی صورت ڈرائیور کی سادگی پر محمول نہیں کیا جائے گا“۔یہ مثال بالکل ٹھیک،ٹھیک ہمارے وزیراعظم عمران خان پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ وہ اس وقت وطن ِ عزیز کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہیں اور 30 دنوں میں یہ کوئی 30 ویں بار ہوا ہے کہ اُن کی گاڑی کے سامنے غلط حکومتی فیصلہ کی ”گیند“آئی اور وہ اس کے پیچھے چھپے ن لیگی حکومت کے وفادار ”بچہ جمہورا“ کو نہ پہچان سکے جس کی وجہ سے ”تبدیلی حکومت“ کی گاڑی ناگہانی حادثہ کا شکار ہوتے ہوئے بال بال بچی۔پہلا حادثہ ”قادیانی مشیر“ کی تقرری کی صورت میں ہوا تھا، جب وزیراعظم پاکستان نے پچھلی حکومت کے کسی ”بچہ جمہورا“کے مشورے پر اقتصادی ٹاسک فورس میں میاں عاطف کا تقرر بطور مشیر کردیا تھا،وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ عوام کے دباؤ کے باعث یہ غلط فیصلہ بروقت واپس لے کر اصلاح کر لی گئی اور میاں عاطف کو اِن کے عہدے سے ہٹادیا گیامگر بدقسمتی سے پچھلی حکومت کا وہ ”بچہ جمہورا“جس نے یہ ”تبدیلی شکن“ مشورہ وزیراعظم کے گوش گذار کیا تھا،اُسے اِن کے خوشامدی عہدے سے ہٹانا ضرور ی خیال نہ کیا گیا۔یوں پچھلی حکومت کا وہ ”بچہ جمہورا“ اب بھی وزیراعظم صاحب کے دائیں بائیں میں اپنی جگہ پر بدستور موجود ہے اور آئے روز وزیراعظم عمران خان کو ایسے ایسے ”تبدیلی شکن“ مشورے دے رہا ہے کہ جن پر عمل کرکے تیس دنوں کی مختصر حکومت کو ایک کے بعد ایک فیصلہ کو واپس لے کر یہ کوئی تیسویں شرمندگی و خجالت ہے جو ریڈیو پاکستان کی نجکاری کے فیصلہ کو واپس لے کر برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔سب سے زیادہ زیادتی تو بیچارے وزیراطلاعات جناب فواد چوہدری صاحب کے ساتھ ہورہی ہے کہ جنہیں آئے روز کسی نہ کسی غلط حکومتی فیصلہ کی میڈیا کے سامنے آکر کوئی نہ کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کرنا پڑتی ہے،یہ تمام تر صورتحال فواد چوہدری کی خداد صلاحیتوں کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

شروع کے دو چار غلط حکومتی فیصلوں کی واپسی کو عوام کی اکثریت نے صرف اس لیئے نظر انداز کردیا تھا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ وزیراعظم پاکستان ایک انتہائی سادہ شخص ہیں،جبکہ وہ ابھی نئے نئے اقتدار کے ایوان میں آئے ہیں اور اقتدار کی سیاست کی گھمن گھیریوں و بھول بھلیوں سے زیادہ واقفیت بھی نہیں رکھتے۔ ایسے میں دوچار غلط فیصلے کرنا تو بنتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ 30 دنوں میں ایک بھی ایسا فیصلہ نہ کیا جاسکے جسے بالکل صائب اور”تبدیلی شکن“ سادگی کے سائے سے پاک قرار دیا جاسکے۔وزیراعظم پاکستان کو خود سوچنا چاہئے کہ کیا بار بار فیصلوں کو واپس لینا اُن کی فیصلہ سازی کی صلاحیتوں پر اُن کے مخالفین کو مختلف قسم کے سوالات اُٹھانے کا موقع فراہم نہیں کرے گا اور تحریک انصاف کے کارکنوں میں مایوسی کا سبب نہیں بنے گا۔کون نہیں جانتا کہ وزیراعظم پاکستان ماضی میں کرکٹ کے ایک کامیاب ترین کھلاڑی رہے ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ بالر جو اپنے پہلے ہی اوور میں چھ بالوں پر چھ چھکے کھا چکا ہو،کیا اُسے دوبارہ سے بال چلانے کی اجازت دینا ٹیم کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی؟۔وزیراعظم پاکستان کو اس بات کا اچھی ادراک ہونا چاہئے کہ وہ ”تبدیلی“ کے تاجر ہیں اور عوام ”تبدیلی“ کے گاہک ہیں،انہوں نے اس منصب پر آنے سے پہلے خود کہا تھا کہ اُن کے پاس ”تبدیلی“ کا سب سے اچھا سودا موجود ہے۔ عوام نے اُن کی بات پر پورے دل و جان سے اعتبار کیا اور ہر جھوٹے،بدعنوان تاجر کی دُکان کو چھوڑ کر اب اُن کی دُکان پر قطار لگا کر کھڑے ہوگئے ہیں، ایسے میں وزیراعظم صاحب کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے گاہکوں یعنی عوام الناس کو ”تبدیلی“ کے سودے کی کم ازکم ایک جھلک تو دکھائیں،تاکہ عوام الناس کے 35 سال سے نام نہاد جمہوری لٹیروں کے ہاتھوں زخمی ہونے والے دل کو کچھ قرار میسر آسکے۔

اتنے دکھ کی بات یہ نہیں ہے کہ وزیراعظم صاحب غلط فیصلے کر رہے ہیں،جتنے دُکھ اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ جن کے مشوروں اور رائے سے وہ یہ غلط فیصلے کر رہے ہیں وہ سب کے سب پچھلی حکومتوں کے ”بچے جمہورے“ ہیں۔ جو ایک خاص ”تبدیلی شکن“ مقصد کے تحت وزیراعظم عمران خان کے ارد گرد جمع ہوئے ہیں اور مقامِ حیرت تو یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہوگیا ہے لیکن وہ اپنی فطری سادگی کے باعث اِن ”بچے جمہوروں“ سے اپنی جان چھڑا نہیں پارہے۔اب کون ہے جو وزیراعظم صاحب کو سمجھائے کہ ہر غلط حکومتی فیصلہ کی ”گیند“ کے پیچھے پچھلی حکومتوں کا کوئی نہ کوئی ”بچہ جمہورا“ ہے اور اگر اس ”بچہ جمہورے“ کو ”سادگی“ کے بجائے ”تبدیلی“ کی آنکھ سے نہ دیکھا گیا تو یہ ”بچہ جمہورا“ تبدیلی کی حکومت کو کسی بہت بڑی مشکل کا شکار بھی بنا سکتا ہے۔

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 30 ستمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہوا

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں