Finger Print Security Fake Myth

فنگر پرنٹس سے بچیئے

پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو ”فنگر پرنٹس سیکورٹی“ کے بارے میں نہ جانتا ہو۔ سم کی ملکیت حاصل کرنے کے لیئے،بنک اکاؤنٹ کھلوانے کے لیئے،اے ٹی ایم مشین سے رقم نکلوانے کے لیئے،ضعیف العمری کی پنشن وصول کرنے کے لیئے،حتی کے خبریں گرم ہیں کہ 2023 کے قومی انتخابات میں بھی ووٹنگ کے لیئے فنگر پرنٹس کے استعمال کیئے جانے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہاہے۔ جبکہ لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون اور موبائل میں بھی بطور سیکورٹی سہولت کے ”فنگر پرنٹس ریڈر“ نت نئے انداز میں تسلسل کے ساتھ پیش کیئے جارہے ہیں۔ہماری زندگی میں ”فنگر پرنٹس سیکورٹی“ کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے عمل دخل کے پیچھے صرف ایک ہی خیال کارفرما ہے اور وہ یہ کہ فنگر پرنٹس سیکورٹی دنیا کا سب سے محفوظ ترین طریقہ شناخت ہے۔اگر ہم آپ سے کہیں کہ اس خیال کاحقیقت سے دور دور تک کا بھی کوئی واسطہ نہیں تو شاید آپ کو ہماری اس بات پر ہنسی آئے لیکن ذرا دیر کے لیئے ٹھریئے پہلے ہمارے اس مضمون کو ایک بار مکمل پڑھ لیں کیونکہ زیرِ نظر مضمون میں ہم فنگر پرنٹس سیکورٹی کے حوالے سے عوام الناس کے اذہان میں پائے جانے والے چارعام بڑے مغالطے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔

پہلا مغالطہ: فنگر پرنٹس سیکورٹی پاس ورڈ سے زیادہ محفوظ ہے۔

اکثر لوگ اپنے اس خیال پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں مگر حقیقت قطعاً اس کے برعکس ہے کیونکہ فنگر پرنٹس چوری بھی ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ میں ہوم لینڈ سیکورٹی کی یہ سرکاری پالیسی ہے کہ امریکہ میں داخل ہونے والے کسی بھی غیر ملکی جس کی عمر 14 سال سے لے کر 79 سال تک ہے اُسکے فنگر پرنٹس باقاعدہ اُس شخص کے علم میں لائے بغیر تواتر کے ساتھ جمع کیئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ ایک محتاط اندازے کے مطابق 100 ملین سے زیادہ فنگر پرنٹس ایک فائل کی صورت میں امریکہ کی خفیہ ایجنسی FBI کے پاس بھی موجود۔اس فائل میں میں 30 ملین کے قریب ایسے افراد کے فنگر پرنٹس بھی ہیں جن کا کسی بھی قسم کی مجرمانہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ان دو مثالوں سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ اپنے جن فنگر پرنٹس کو محفوظ ترین تصور کرتے ہیں یہ بڑی آسانی سے چرائے بھی جاسکتے ہیں بالکل اُسی طرح جیسے کہ کریڈٹ کارڈ یا پن نمبر چوری ہوجاتے ہیں۔



دوسرا مغالطہ: فنگر پرنٹس کو کاپی نہیں کیا جاسکتا۔

2013 میں ایپل کمپنی نے دنیا میں پہلی بار بائیومیٹرک فنگر پرنٹ اسکینر اپنے مشہور زمانہ فون iPhone 5s میں متعارف کرایا تھا۔جس کے بارے میں ایپل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس فنگر پرنٹس ٹچ سسٹم سے آپ کا فون آپ کے علاوہ ہر شخص کے لیئے ناقابلِ رسائی ہوگیا ہے۔لیکن ایپل کے اس دعویٰ کو ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ جرمنی کی معروف سیکورٹی کمپنی کے محقق ”اسٹار برگ“نے ایکVerifinger نامی سافٹ ویئر مارکیٹ میں عام استعمال کے لیئے پیش کردیا جو کسی بھی فنگر پرنٹ کی ہائی ریزولیشن تصویرکی مددسے سینکڑوں نقل یا کاپیاں باآسانی تیار کر لیتا تھا جسے آپ کسی بھی بائیومیٹرک اسکینر میں استعمال کر سکتے تھے۔ 2016 ؁ء کے اواخر میں ایک اور معروف بائیومیٹرک فرم Vkansee نے ”ٹیکنالوجی محفوظ نہیں رہی“ کے عنوان سے منعقدہ ایک کانفرنس میں اس بات کا عملی مظاہرہ کیا تھا کہ کوئی بھی چیز جسے آپ کے ہاتھوں نے کبھی بھی چھوا ہو یہ کمپنی اپنے ایجاد کردہ ایک جدید ترین سینسر کی مدد سے اُس سے آپ کے فنگر پرنٹس کی کاپی بناکر دے سکتی ہے جسے کوئی بھی کہیں بھی کسی بھی بائیومیٹرک اسکینر پر جتنی بار دل چاہے استعمال کر سکتا ہے۔امریکی خفیہ ایجنسیFBI کی طرف سے روسی ہیکرز کی جانب سے ایسی ہی کسی ٹیکنالوجی کی مدد سے امریکہ میں ہونے والے حالیہ انتخابات کے نتائج میں ردوبدل کرنے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔اس سے کم ازکم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ فنگر پرنٹس کی کاپیاں یا نقل بنانا ایک معمول کی بات خیال کی جاتی ہے۔

تیسرا مغالطہ:فنگر پرنٹس آپ کو کبھی دھوکہ نہیں دیں گے۔

فنگر پرنٹس کس طرح آپ کو دھوکہ دیتے ہیں یہ جاننے کے لیئے آپ اپنی مصروف زندگی میں سے کچھ وقت نکال کر اپنے قریب میں واقع کسی ایزی پیسہ سینٹر چلے جائیں جہاں پنشنرز بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے اپنے فنگر پرنٹس کی ہر چھ ماہ بعد تصدیق کروا رہے ہوتے ہیں۔آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ یہاں انہیں اپنے فنگر پرنٹس کی تصدیق میں کس قدر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر بائیومیٹرک اسکینر ان کے فنگر پرنٹس کو شناخت کرنے سے ہی انکار کر دیتا ہے۔جی ہاں یہ حقیقت ہے کہ زیادہ کام کرنے اورعمر رسیدہ ہوجانے کی صورت میں بھی فنگر پرنٹس آپ کی انگلیوں کی پوروں سے مٹ جاتے ہیں،خراب ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار تبدیل بھی ہوجاتے ہیں اگر آپ کے ساتھ بھی خدانخواستہ کبھی ایسا ہوجائے کہ اے ٹی ایم سے پیسے نکلوانے جائیں اور اے ٹی ایم پر لگا ہوا ”فنگر اسکینر“ آپ کے انگوٹھے کے نشان کو شناخت کرنے سے انکار کردے توسمجھ جائیئے گا کہ آپ کے فنگر پرنٹس آپ کو دھوکہ دے چکے ہیں توبجائے متعلقہ بنک اہلکاروں کے ساتھ بحث و مباحثہ کرنے کے سیدھے نادرا آفس روانہ ہوجائیے گا کیونکہ اب آپ کو اپنے متروک فنگر زپرنٹس کی جگہ نئے فنگر پرنٹس اندراج کرانے کی ضرورت ہوگی۔

چوتھا مغالطہ: فنگر پرنٹس مستقبل میں پاسورڈ کی جگہ لے لے گا۔

جب یہ بات ثابت شدہ ہے کہ فنگر پرنٹس نہ صرف چوری ہوسکتے بلکہ کاپی بھی ہوجاتے ہیں اس کے بعد ماہرین سیکورٹی کے نردیک یہ بات خارج ازامکان ہے کہ مستقبل میں کبھی بھی فنگر پرنٹس پاسورڈ کی جگہ لے سکیں گے ہاں ایک بات ضرور ہے کہ آخر پاسورڈ کب تک بطور سیکورٹی بخوبی استعمال ہوتے رہیں گے آخرکار ایک وقت تو ایسا ضرور آئے گا کہ جب پاسورڈ بھی شاید محفوظ نہ رہ سکیں۔اس ضمن میں اکثر سیکورٹی ماہرین یہ آرا ء پیش کرتے ہیں بہر حال انسان کوکسی بھی ایک سیکورٹی کی سہولت کو اختیار کرنے کے بجائے مستقبل میں ایک سے زیادہ سیکورٹی کے طریقے متعارف کرانے ہوں گے۔اس سے مراد یہ ہے کہ فنگر پرنٹس اور پاسورڈ کے ملاپ سے ایک مشترکہ سیکورٹی کا نظام متعار ف کرانے کے بعد ہی انسان شاید یہ دعویٰ کرنے کے قابل ہوسکے گا کہ اُس کی سیکورٹی کا نظام واقعی ناقابل ِ تسخیر ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے ماہنامہ اُردو ڈائجسٹ لاہور میں جولائی 2019 کے شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

فنگر پرنٹس سے بچیئے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں