Maulana-Fazal-ur-Rehman

دھرنا۔۔۔ورنہ۔۔۔!

جب مولانا فضل الرحمن کسی حکومت کے حاشیہ بردار ہوتے ہیں تو اِن سے زیادہ نرم خو، حلیم الطبع،بذلہ سنج،دُور اندیش، معاملہ فہم،صلح جو اور آئینی حدود قیود تک محدود رہنے والا کوئی دوسرا سیاست دان نہیں ہوتا مگر یہ ہی مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کی صف میں شامل ہوجانے کے بعد اچانک سے اکھڑ مزاج، سیماب صفت، ہٹ دھرم، ضدی، احتجاج پسند اور ایک انقلابی سیاست دان کے روپ میں نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ آج کل بھی سب سے بڑی سیاسی خبر یہ ہی گردش میں ہے کہ مولانا فضل الرحمن ہر صورت میں عمران خان کی ایک سالہ حکومت کے خلاف تاریخ ساز قسم کا دھرنا کرنا چاہتے ہیں مگر مولانا کی مصیبت یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کسی بھی صورت اُن کے دھرنے کا باقاعدہ حصہ بننے پر آمادہ نہیں ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن بھی بے شمار اگر،مگر کے ساتھ دھرنے میں شرکت کرنے کے معاملہ پر غیر ضروری سیاسی لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

یہ صورت حال مولانا فضل الرحمن کے لیئے انتہائی غیر متوقع اور مایوس کن ہے کیونکہ دھرنے کا اعلان کرتے ہوئے اُن کے ذہن میں تھا کہ وہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو عین آخری وقت پر اپنے دھرنے میں شرکت کے لیئے آمادہ کر ہی لیں گے لیکن مولانا کو سخت حیرانی بلکہ پریشانی لاحق ہے کہ میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری کے جیل کے اندر ہونے کے باوجود بھی آخر وہ کونسی بات ہے جو دونوں جماعتوں کو عمران خان کی حکومت کے خلاف ہونے والے اُن کے دھرنے میں شرکت کے لیئے مانع ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے اِس بیان نے کہ ”وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی گرفتاری اُن کی جماعت کی طرف سے کھینچی گئی وہ ریڈ لائن ہے،جسے حکومت کی طرف سے عبور کیئے جانے کے بعد ہی وہ ملک گیر احتجاج کرنے کا سوچیں گے“۔ مولانا فضل الرحمن کو سخت رنج اور صدمہ پہنچایا ہے اور وہ زبانِ حال سے تلملاتے ہوئے بے ساختہ پکار اُٹھے ہیں کہ ”کیا پاکستان پیپلزپارٹی اور بلاول بھٹو زرداری کے لیئے آصف علی زردای یا فریال تالپر کی گرفتاری گرین لائن تھی؟ کہ جس کے بعد بلاول،مرادعلی شاہ کی گرفتاری کو ریڈ لائن قرار دے کر اُن کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا بہانہ تراشا جارہا“۔ہر ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ اِس وقت مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے درمیان کس قدر سیاسی تنہائی کا شکارہیں۔



دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کی اپنی جماعت جمعیت علمائے اسلام ف کے کئی سرکردہ رہنما بھی اپوزیشن جماعتوں کی شمولیت کے بغیر اکیلے دھرنا دینے کے سخت مخالف ہیں اور وہ اِس نقطہ نظر کا اظہار ایک سے زائد بار ڈھکے چھپے لفظوں میں مولانا کے گوش گزار کرنے کی جسارت بھی کرچکے ہیں۔ اِن کا موقف ہے کہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی شمولیت کے بغیر اسلام آباد میں تن تنہا دھرنا کرنا ”سیاسی خودکشی“ کے مترادف ہوگا، اِس لیئے بہتر یہ ہی ہے کہ یا تو احتجاجی تحریک کو اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے رام ہونے تک مکمل طور پر ملتوی کردیا جائے یا پھر اِس احتجاج کو فقط جلسے یا ریلی تک محدود کرکے دھرنا کے لیئے ایک دو ماہ بعد کی کوئی دوسری تاریخ کا اعلان کردیا جائے۔ اگر بادی النظر میں جائزہ لیا تو جائے جے یو آئی کے رہنماؤں کی قائم کردہ رائے کو کچھ اتنا بے محل یا غلط بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی الف،ب جاننے والا شخص بھی اِس چھوٹی سے حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ آج تک پاکستان کی سیاست میں کبھی ایک جماعت تن تنہا کسی کمزورسے کمزور حکومت کو بھی گرانے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ لیکن واقفانِ حال کے مطابق مولانا فضل الرحمن اپنے کسی رفیق،سیاسی دوست یا سیاسی سرپرست کے مشورہ کو مان کر حکومت کے دھرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر بالکل بھی تیار نہیں ہیں۔اُلٹا مولانا اپنے ناصحوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر عمران خان کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے میں مزید ایک دو ماہ کی تاخیر برتی گئی تو پھر حکومت کو گرانا کسی بڑے سے بڑے اپوزیشن اتحاد کے لیئے بھی ممکن نہیں رہے گا۔

سیاسی بیان بازی جو بھی مگر اندرونِ خانہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت تہہ دل سے چاہتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمن تن تنہا ہی حکومت کے خلاف دھرنے کا ایڈونچر کر گزریں۔ کیونکہ اُن کا خیال ہے کہ مولانا کا یہ دھرنا حکومت کو گرانے میں بھلے ہی کامیاب نہ ہوسکے مگر اِس دھرنے کے نتیجہ میں ہونے والی سیاسی اتھل پتھل سے حکومت پر کم ازکم اتنا سیاسی دباؤ تو ضرور آ ہی سکتا ہے کہ جس سے نجات حاصل کرنے کے لیئے عمران خان کی حکومت کو پی پی پی اور مسلم لیگ ن میں سے کسی ایک جماعت کے ساتھ سیاسی ڈیل کرنے پر مجبور ہونا پڑ جائے۔یعنی اپوزیشن کے نزدیک سیاست کے منافقانہ راستے میں مولانا فضل الرحمن کی ”سیاسی خودکشی“ اگر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کی بھی سیاسی قیادت کے لیئے”مستقل رہائی“ کا پیغامِ جاں فزا بن سکتی ہے تو اِس میں آخرمضائقہ ہی کیا ہے۔

ویسے بھی عشق میں محبوب کی محبت میں ہونے والے عقل کے اندھے اور سیاست میں اپنے حریف کی نفرت میں عقل کو مکمل طور پر گروی رکھ کر سیاسی فیصلے کرنے والے ذرا کم ہی ملتے ہیں۔اسِ مناسبت سے تو یہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی نیب زدہ قیادت کے لیئے بڑے ہی نصیب کی بات ہے کہ اُنہیں کارزارِ سیاست میں مولانا فضل الرحمن کی صورت میں ایک عدد ایسا گاؤدی اور بے عقل سیاست دان ملا ہے جو عمران خان کی نفرت میں تن تنہا ہی سیاسی آگ کے منہ زور دریا میں چھلانگ لگانے کو آمادہ دکھائی دیتا ہے۔بلا یہ سوچے سمجھے کہ آیا اِس سیاسی خودکشی کے نتیجہ میں خود اُس کو یا اُس کی جماعت کے کارکنوں کو کیا حاصل ہونے والا ہے۔ فی الحال تو بغض ِ عمران خان میں مولانا فضل الرحمن کا ایک ہی خواب ہے کہ کسی طرح عمران خان کو وزیراعظم کے تخت سے اُترنے پر مجبور کیا جاسکے،اَب اپنے اِسی خواب کی تعبیر کو پانے کے لیئے مولانا کسی ضدی بچہ کی طرح اسلام آباد میں دھرنا دینے کی لیئے بے تاب نظر آتے ہیں،پھرچاہے اِس کا حتمی انجام کچھ بھی ہو۔بقول انور مینائی
چیختے خوابوں کی تعبیر یہ ہی کہتی ہے
ہوگی ہڑتال کہیں تو کہیں دھرنا ہوگا

حوالہ: یہ کالم سب سے پہلے روزنامہ جرات کراچی کے ادارتی صفحہ پر 03 اکتوبر 2019 کی اشاعت میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

دھرنا۔۔۔ورنہ۔۔۔!” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں