Fathers-Day-pic-2021

جذبہ پدر۔ ۔ ۔ فاتح عالم

”ہر زمانے اور ہر علاقے کا والد اپنے بچوں کو ہمیشہ وہ کھلونے،کھیلنے کے لیے مہیا کرنے کی کوشش کرتاہے، جن سے وہ خود بھی کبھی نہ کھیلا ہو“۔یہ جملہ بچپن میں کئی بار اپنے والد کی زبان سے سنا مگر اس جملہ کا درست مفہوم لڑکپن سے جوانی تک ہزار وں نصابی اور غیر نصابی کتابیں پڑھنے کے باوجود بھی سمجھنے سے قاصر ہی رہا لیکن جس روز اپنی اولاد کے لیئے پہلا کھلونا بازار سے خرید کر گھر لایا تو اُس لمحہ بخوبی معلوم ہوگیا کہ ایک کھلونے کی شکل میں والد اپنی اولاد کے حوالے کیاکچھ کر دیتاہے۔ بس اتنا جان لیجیے کہ ایک بچہ کے لیئے اُس کا والد کیا اہمیت رکھتا ہے،کسی حدتک بتایا بھی جاسکتاہے اور سمجھایا بھی جاسکتا ہے۔ لیکن والد کے نزدیک اُس کی اولاد کتنی انمول ہواکرتی ہے، اُسے لفظوں میں بیان کرپانا، ناممکن ہے۔

ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورکائنات،رحمتہ اللعامین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”رب کی رضا والد کی رضا میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے“۔(جامع سنن ترمذی۔1899)۔ذرا ایک لمحہ کے لیئے مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کے نفس مضمون پر تفکر کیجئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے باپ کی رضا میں اپنی رضاکو کیوں شامل حال فرمایا؟۔ یہاں وجدان ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے سرگوشی کرتا ہے کہ”چونکہ ایک با پ اپنی اولاد کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ دیکھنے کے لیئے ہنسی خوشی اپنی ہر رضا قربان کردہتاہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ با پ کی بے پناہ فطری پدرانہ محبت کا احساس اولاد کے دل و دماغ میں راسخ و جاگزیں کرنے کے لیئے اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی رضا کو باپ کی رضا کے ہم پلہ قرار دیا“۔اگر اولاد ”مقام ِ باپ“کی اہمیت کا سبق ازبر کرنا چاہے تو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے ادا ہونے والی یہ ایک حدیث ہی کافی و شافی ہے۔

والد کا دن، پیاری بیٹی کے نام
یہ 1865 کے اُس دور کا ذکر ہے،جب امریکا بھر میں خانہ جنگی جاری تھی اور آج متحدہ امریکا کا دست و بازو،اور ناگزیر حصہ نظر آنے والی امریکی ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف باقاعدہ جنگ میں مصروف تھیں۔ اس خانہ جنگی میں ریاست آرکنساس کا ایک کسان بھی زبردستی شامل کرلیا گیا تھا،جس کا نام ولیم جیکسن اسمارٹ تھا۔23 سالہ جوان،رعنا اور ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ رکھنے والا،ولیم فطری طور پر اَمن پسند اور صلح جو شخص تھا،جسے جنگ سے اُتنی ہی نفرت تھی جتنا کہ اُسے اپنی کاشت کاری سے محبت تھی۔ ولیم شادی شدہ تھا اور اُس کے اُوپر اپنی بیوی الزبتھ اور پانچ بچوں کی معاشی ذمہ داری بھی تھی۔ ولیم جیکسن خانہ جنگی میں شامل بھی صرف اپنے بیوی بچوں کے تحفظ کے لیئے ہی ہوا تھا۔ قصہ کوتاہ، 1878 میں ولیم کی بیگم الزبتھ کا انتقال ہوگیا اور اپنے پانچ بچوں کی نگہ داشت کی ذمہ داری مکمل طور پر اُس کے ناتواں کاندھوں پر آپڑی۔ ولیم نے بچوں کے لیے شہری زندگی کو ترک کر کے اپنے آبائی گاؤں میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ مگر پانچ بچوں کی پرورش اور گھرداری کو بیک وقت انصاف کے ساتھ نبھانا کوئی آسان کام تو تھانہیں۔ پس! ولیم جیکسن نے ایلن بلنگلے نامی بیوہ سے جس کے پہلے شوہر سے بھی تین بچے تھے شادی کرلی اور یوں ولیم اور ایلن اپنے اپنے بچوں کے ہمراہ ایک ہی چھت تلے گزر بسر کرنے لگے۔

1882 میں اِن کا ہاں بیٹی سونورا اسمارٹ ڈوڈکی پیدائش ہوئی اور اگلے چار برسوں میں ولیم کے ہاں چار مزید بیٹوں کی ولادت سے خاندان کی تعداد 12 تک پہنچ گئی۔یقینا اتنے بڑے خاندان کی کفالت کے لیئے چھوٹے سے پسماندہ گاؤں کی تھوڑی سی زرعی زمین کافی نہ تھی۔اس لیئے ولیم،واشنگٹن کے مضافاتی علاقے سپاکن میں منتقل ہوگیا۔سپاکن میں ولیم اور ایلن کے ہاں دو مزید لڑکوں کی پیدائش ہوئی۔1898 میں ایلن کا انتقال ہوگیا۔جس کے بعد ولیم پہلے سے بھی زیادہ تندہی کے ساتھ اپنے تمام بچوں کی نگہ داشت شروع کرنے لگا۔ 1909 میں سپاکن چرچ میں ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک خصوصی تقریب جاری تھی۔ جس میں ولیم کی صاحب زادی سونورا بھی شریک تھی۔ اسی تقریب کے دوران سونورا کے ذہن میں خیال آیا کہ اُس کے اور اُس کے بہن بھائیوں کی نگہ داشت میں اُس کے والد نے اپنی تمام زندگی تج کردی۔کیا انہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کوئی قومی دن نہیں منانا چاہئے۔اتفاق سے سونورا ایک متحرک خاتون تھی،جو پہلے ہی کئی فلاحی تنظیمات کے ساتھ بطور کارکن اور رضاکار کے منسلک تھی۔ 19 جون 1910 کو سونورا نے اپنے بہن بھائیوں، عزیز و اقارب اور دوستوں کے ہمراہ واشنگٹن شہر میں نصب ایک سرکاری مجسمے کے سامنے اکھٹا کر کے فادرز ڈے یعنی والد کا دن منایا۔ اس ضمن میں پہلی باضابطہ عوامی تقریب وائی ایم سی اے چرچ ہال اسپوکن میں منعقد کی گئی جس میں دنیا بھر کے باپوں کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا۔

سونورا نے صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ فادرز ڈے کو بطور قومی دن منانے کے لیئے ملک گیر آگہی تحریک بھی شروع کردی۔ سونورا کی اِس مہم کو غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی اور جلد اُس کی مہم امریکا بھر میں مشہور و معروف ہوگئی۔ یہاں تک امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھی فادر زڈے کو بطور قومی دن منانے کا مطالبہ گونجنے لگا۔ 1956ء میں امریکہ کے دونوں ایوانوں کی جانب سے ایک مشترکہ قرارداد پیش کی گئی۔جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر برس جون کے تیسرے اتوار کو یہ دن سرکاری سطح پر منایاجائے۔ 1966 میں صدر لنڈن بی جانسن کی جانب سے فادرزڈے منانے کا اعلان کردیا گیا۔لیکن اُس وقت تک یہ دن ہر امریکی ریاست صرف مقامی طور پر ہی منایا کرتی تھیں کیونکہ کئی ایوانِ نمائندگان کی تنقید کی وجہ سے فادرز ڈے منانے کا باقاعدہ صدارتی حکم نامہ جاری نہ کیا جاسکا تھا۔

بہرکیف ایک طویل انتظار کے بعد بالآخر 1972 میں جب اپنے باپ کی لاڈلی سونورا خود 90 برس کی ہوچکی تھی۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے جون کے ہر تیسرے اتوار کو فادرز ڈے قرار دے کر اس یوم پر ملک بھر میں قومی تعطیل کے سرکاری حکم نامے پر دستخط کردیئے۔ واضح رہے کہ فادرز ڈے کو جون کے ہر تیسرے اتوار کو اس لیئے منایا جاتاہے کہ سونورا اسمارٹ ڈوڈ نے اپنے والد کے سالگرہ کے دن 5 جون کو تعطیل کی مہم چلائی تھی۔ تاہم، اسپوکن میں پادریوں کو اس حوالے سے اپنی تقاریر کی تیاری کے لیئے زیادہ وقت درکار تھا۔ لہٰذا فادرز ڈے کو 19 جون 1910 تک کے لیئے موخر کردیا گیا تھا۔ چونکہ پہلی بار فادرز ڈے جون کے تیسرے اتوار منایا گیا تھا۔ پس! 56 برس بعد جون کا تیسرا، اتوار ہی بطور فادر ڈے سرکاری سطح پر نامزد کردیا گیا۔آج یہ دن دنیا کے کم و بیش ہر ملک میں تھوڑے بہت وقتی تفاوت کے ساتھ ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتاہے۔

والد سے لکھاری تک کا سفر
ویسے تو ہم میں سے ہر والد نے ہی اپنے بچوں کو رات سونے سے قبل کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی کہانی ضرور سنائی ہوگی۔ لیکن اس حوالے سے جو امتیازی حیثیت بطور ایک والد آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر جے آر آر ٹولکین کو حاصل ہے۔وہ قابل تحسین ہی نہیں بلکہ کچھ منفرد بھی ہے۔ یاد رہے کہ پروفیسر ٹولکین کے بچے جان، مائیکل، کرسٹوفر اور پریسکیلااس لحاظ سے بڑے ہی خوش قسمت واقع ہوئے تھے کہ اُن کا والد اُنہیں جن،بھوت، پریوں،ڈریگن اور جادوگروں کے رائج کرداروں کی سنی سنائی کہانیاں کے بجائے اُنہیں رات کو سنانے کے لیئے ہر روز نت نئے کرداروں پر مشتمل بالکل نئی کہانی تخلیق کیا کرتا تھا۔ ایک بار پروفیسر ٹولکین اپنے شاگرد وں کے امتحانی پرچے ملاحظہ کر رہا تھا کہ اُس کے سامنے اپنے ایک شاگرد امتحانی پرچہ آگیا جس کے پہلے صفحہ پر ایک گول دائرہ بناکر اُس کے نیچے فقط یہ لکھا ہوا تھا کہ اس میں ہوبٹ (Hobbits) رہتے ہیں۔

پروفیسر کو ہوبٹ لفظ بہت متاثر کن محسوس ہوا اور اُس نے سوچا کہ ہوبٹ پر اپنے بچوں کو سنانے کے لیئے کیون نہ ایک کہانی لکھی جائے؟۔ ٹولکین نے غیر ارادی طور پر قلم اُٹھا کر اپنی ڈائری میں لکھا شروع کردیا کہ ”ایک ہوبٹ انتہائی خوش خوراک ہوتا ہے،زیادہ کھانا اور سگار کے پائپ کے ذریعے تمباکو کا دھواں اُڑانے پسند کرتا ہے،یہ جس گڑھے میں رہتا ہے وہاں کی دنیا ہماری دنیا سے زیادہ بڑی،مسحور کن اور پراسرار ہے۔ جہاں ہر قدم پر ہوبٹ کے لیئے عجیب و غریب مہمات سر کرنے کے لیے موجود ہوتی ہیں“۔ہوبٹ کی کہانی ٹولکین کے بچوں کو بے حد پسند آئی اور وہ اپنے والد سے سے روزانہ ہوبٹ کی جانب سے انجام دی گئی کسی نئی حیرت انگیز اور پراسرار مہم جوئی کو سننے کی ضد کرنے لگے۔

دلچسپ با ت یہ ہے کہ ٹولکین کے بچے جب اپنی کلاس میں ہوبٹ کی کہانیاں سناتے تو ان کے ہم جولیوں کو بھی وہ کہانیاں بہت پسند آتیں اور وہ اُن سے ہوبٹ کی کہانیوں کی کتاب مانگتے۔اپنے بچوں کے بے حد اصرار پر پروفیسر ٹولکین نے ہوبٹ کو کتابی صورت میں شائع کروانے کی ٹھانی اور بالآخر 1937 میں ”بل بو“ ایڈونچر کے نام سے یہ کتاب شائع ہوگئی۔ حیران کن طور پر اس کتاب نے بچوں اور نوجوانوں میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ اَب ٹولکین کے صاحب زادے کرسٹوفر نے اپنے والد سے ہوبٹ سے ملتی جلتی ایک نئی کتاب لکھنے کی فرمائش کردی۔ جس پر پروفیسر ٹولکین نے”دی لارڈ آف دا رنگ“لکھنا شروع کردی۔ جنگ عظیم دوم کے دوران کرسٹوفر نے رائل ائیر فورس میں ملازمت اختیار کرلی۔مگر کہانی اور بچوں نے اپنے باپ کا پیچھا بڑے ہونے کے بعد بھی نہ چھوڑا۔دلچسپ با ت یہ ہے کہ پروفیسر ٹولکین نے ”دی لارڈ آف دا رنگ“ کا آخری باب نظر ثانی کے لیئے بذریعہ ڈاک اپنے پیارے بیٹے کرسٹوفر کو جنگی محاذ پر بھیجا۔ یہ کتاب 1954 میں شائع ہوئی اور ”لارڈ آف دا رنگ“ بچوں اور نوجوانوں کے لیئے لکھی گئی بیسوی صدی کی سب سے مقبول ترین کتاب قرار پائی۔یوں اپنے بچوں کو سونے سے قبل بستر پر سنانے کے لیئے لکھی جانے والی کہانیوں کی وجہ سے پروفیسر ٹولکین دنیا کے موثر ترین لکھاریوں کی فہرست میں شامل ہوگئے۔

خوش قسمتی ہے کہ پروفیسر ٹولکین کے جیسا ایک تخلیقی والد اُردو اَدب کو بھی میسر آیا۔جی ہاں! ڈپٹی نذیر احمد نے خالصتاً اپنے دو بچوں کی تفریح،اصلاح اور تعلیم و تربیت کے لیئے کئی معرکتہ الآرا کہانیاں تخلیق کیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے بیٹے کے لیے ”چند پند“ اور بیٹی کے لیے”مراۃ العروس“نامی دو کتابیں اپنے ہاتھ سے لکھ کر اُنہیں دیں۔دونوں بچے اپنے بابا جان کی لکھی ہوئی کہانیاں بار بار پڑھ کر بہت لطف اور خوشی محسوس کرتے تھے۔ حسن اتفاق سے ایک بار ڈپٹی نذیر احمد کا صاحب زادہ شہر کے مرکزی باغ میں بیٹھ کر یہ ہی کتاب پڑھ رہا تھا کہ وہاں سے محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر،کا گزر ہوا۔اُسے باغ کے ایک کونے میں انتہائی انہماک سے کتاب کے مطالعہ میں مصروف بچہ بہت اچھا لگا۔ ڈائریکٹر نے لڑکے سے دریافت کیا کہ ”وہ کس مصنف کی کتاب پڑھ رہا ہے“۔ ڈپٹی صاحب کے بیٹے نے جواب دیا کہ ”یہ کتاب اُس کے پیارے بابا جان نے صرف اُس کے لیئے ہی لکھی ہے اور ایسی ہی ایک کتاب میری بہن کے لیئے بھی لکھی ہے“۔

ڈائریکٹر نے ڈپٹی نذیر کے بیٹے سے کتاب لے کر ورق گردانی کرنے کے بعد اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں محکمہ تعلیم کا ڈائریکٹر ہوں کیا تم مجھے اپنے والد کی لکھی ہوئی دونوں کتابیں ابھی فراہم کرسکتے ہو،میں جلد ہی تمہیں واپس لوٹا دوں گا“۔ڈپٹی نذیر کے صاحب زادے نے دونوں کتابیں ڈائریکٹر کے حوالے کردیں۔ چند روز بعد محکمہ ڈائریکٹر کا ایک خط ڈپٹی نذیر احمد کو موصول ہوا۔جس میں لکھا تھا کہ ”محکمہ تعلیم نے”مراۃ العروس“کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا اور اتنی دلچسپ کتاب لکھنے پر مصنف کو ایک ہزار روپے نقد اور ایک گھڑی دینے کا اعلان بھی کیا جارہاہے“۔مراۃ العروس کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ اِس کتاب نے مقبولیت کی تمام حدود عبور کرلیں۔ یاد رہے کہ مراۃ العروس اَب تک لاکھوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔جبکہ اس کتاب کا انگریزی، مراٹھی، کشمیری، بنگالی، ہندی، پنجابی، گجراتی سمیت دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ بلاشک و شبہ آج بھی ڈپٹی نذیر صاحب کی لکھی ہوئی یہ کتاب کسی بھی والد کی جانب سے اپنے بچوں کو دیا جانے ایک بہترین تخلیقی تحفہ کہلانے کی حق دار ہے۔

محبت باپ کی ایجاد ہے
یہ 1942 کے آخری ایام کی ایک سرد رات کی بات ہے کہ”کینڈیو جوکوزی“ کا پیارا،راج دلارا بیٹا جس کا نام ”کین جوکوزی“ تھا۔ اچانک شدید بخار میں مبتلا ہوگیا اور اس بخار نے چند لمحوں میں ہی کین جوکوزی کو جان کنی کی کیفیت میں مبتلا کردیا۔ اتفاق سے ”کینڈیو جوکوزی“ اُس روز اپنے گھر کے دوسرے کمرے میں ہی محو استراحت تھا کہ اُسے اپنی بیگم کی چیخ و پکار کی آواز سنائی دی۔ وہ فوری طور پر برابر والے کمرے میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ اُس کی بیوی کے ہاتھوں میں اُس کا بیٹا کسی بے حس و حرکت شئے کی مانند بے سدھ پڑا ہے۔بچہ کی گردن نیچے کو ڈھلکی ہوئی ہے، آنکھوں کی پتلیاں اُوپر کی جانب چڑھ چکی ہیں اور اُس کا پورا جسم دہکتے ہوئے انگارے کی مانند سرخ ہوچکاہے۔جبکہ اُس کی بیوی کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہے“۔کینڈیو جو کوزی نے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور طبی امداد کے لیئے ہسپتال کے لیئے روانہ ہوگیا۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ”کین جوکوزی“ کا تفصیلی طبی معائنہ کرنے کے بعد کینڈیو جوکوزی کو بتایا کہ اُس کا بیٹا ایک خطرناک ترین مرض (juvenile rheumatoid arthritis) کے حملہ کا شکا رہوگیا۔جس کا علاج انتہائی مہنگا ہی نہیں بلکہ وقت طلب اور مشکل بھی ہے۔کینڈیو نے بیٹے کے علاج معالجہ کے لیئے اپنی ساری جائیدار فروخت کردی اور وہ اپنا تمام وقت اپنے بیٹے ”کین جوکوزی“ کی تیمارداری میں گزارنے لگا۔ یاد رہے کہ علاج کے لیئے کینڈیو نے مہنگے ترین فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کیں جو روزانہ ”کین جوکوزی“ کی فزیو تھراپی کرنے کے بعد بکری کا دودھ سونے کے انجکشن میں بھر کے اُسے لگا تا تھا۔ ایک سونے کا انجکشن بمشکل دو ہفتے استعمال ہوپاتا تھا،اُس کے بعد نئے سونے کے انجکشن کا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔

خیر کینڈیو کو یہ بھی گراں نہ گزرتا تھا مگراصل تکلیف دہ مسئلہ یہ تھا کہ کئی ماہ یہ طریقہ علاج اپنا کر بھی ”کین جوکوزی“ کی حالت میں بال برابر بھی بہتری نہ آسکی۔ بہرحال جب یہ مسئلہ طبی ماہرین کے گوش گذار کیا گیا تو انہوں نے تجویز دی کہ ”کین جوکوزی“ کو ہائیڈرو تھراپی یعنی گرم بھاپ میں مساج کیا جائے کیونکہ عام فزیو تھراپی سے مریض کی حالت میں تبدیلی آنے کا امکان بہت ہی کم ہے۔ مگر یہاں ایک اور مصیبت یہ آن پڑی کی ہائیڈرو تھراپی کی سہولت جس اسپتال میں موجود تھی، وہ کنڈیو کی قیام گاہ سے طویل مسافت پر تھا۔ کینڈیو تو کسی نہ کسی طرح روزانہ اپنے بیٹے کو علاج کی غرض سے وہاں بھی لے جانے کے لیئے آمادہ تھا۔ مگر اپنے مرض کے باعث بے حس و حرکت اور درد سے کراہتا ہوا ”کین جوکوزی“ اس قابل نہ تھا کہ اتنا طویل سفر کرسکے۔

اس کا حل کینڈیو نے یہ تلاش کیا کہ اُس نے اپنے گھر کے ایک قطعہ اراضی میں ہی بیس منٹ بناکر واٹر جیٹ قسم کا چاروں طرف سے بند سوئمنگ پول بنادیا۔جو بالکل ایک ہاٹ ٹب کی مانند کام کرسکتاتھا اور جس میں ہائیڈرو تھراپی کے تمام لوازمات بھی پورے کیئے جاسکتے تھے۔خوش قسمتی سے کینڈیو کے ایجاد کردہ اس منفرد ہاٹ ٹب میں ”کین جوکوزی“ کی ہونے والی فزیو تھراپی کے انتہائی مثبت اثرات نظر آنا شرو ع ہوگئے اور بچے کا دورنِ خون جسم میں معمول کے مطابق گردش کرنے لگا۔ ڈاکٹر ز بھی ”کین جوکوزی“ کی بہتر حالت اور کینڈیو کی ایجاد کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ چند ماہ کی ہائیڈرو تھراپی کے بعد ”کین جوکوزی“ کی طبیعت میں انقلابی بہتری آگئی اور وہ نارمل زندگی کی طرف آہستہ آہستہ لوٹنے لگا۔ اس خوش کن اور حوصلہ افزا صورت حال نے کینڈیو کو اس قدر شاداں و فرحاں کردیا کہ وہ اس راہ میں اَب تک برداشت کیے جانے تمام مصائب کو بھی فراموش کرگیا۔

بعد ازاں ڈاکٹر وں نے کینڈیو کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی منفرد ایجاد”ہاٹ ٹب“ کو طبی استعمال کے لیئے عام افراد کو بھی فراہم کردے۔ 1966 میں کینڈیو نے جوکوزی کمپنی کے تحت اپنی ایجاد ”ہاٹ ٹب“ کے جملہ حقوق اپنے نام پر محفوظ کروالیئے اور دنیابھر میں اس کی فروخت شروع کردی۔ رفتہ رفتہ یہ ایجاد صرف ”جوکوزی“ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی۔ سب سے حیران کن بات تو یہ ہے کہ خالص اپنے بیٹے کی محبت میں کی جانے والی ایجاد نے کینڈیو پر مال و دولت کی ایسی بارش کی کہ جس کا اس نے کبھی خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھا۔

دُور اندیش باپ کا قانونی تحفہ
یہ 1959 کی بات ہے کہ جب ”ایڈی کوکی مابو“ نے اپنی بیوی ”بونی ٹا“ کے ہمراہ آسٹریلیا کے انتہائی دور دراز جزیرے سے کوئنس لینڈ سٹی میں مستقل سکونت کرنے کا فیصلہ کیا۔ایک پسماندہ علاقہ سے زندگی کی جدید سہولیات اور گہما گہمی سے بھرپور شہر میں ہجرت کرنے کا بنیادی مقصد ”ایڈی کوکی مابو“ کے نزدیک صرف اتنا سا تھاکہ اُس کے بچوں کو اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ترقی کے وافر مواقع دستیاب ہوں سکیں۔ واضح رہے کہ ”ایڈی کوکی مابو“ نسلی طور پر آسٹریلیا کی اُس مقامی آبادی سے تعلق رکھتا تھا، جنہیں عظیم برطانیہ نے 1788 میں اپنازیرنگیں بنا کر آسٹریلیا کے تمام جزائر پر قبضہ جمالیا تھا۔ چونکہ حملہ آور برطانوی ہر لحاظ سے طاقت ور تھے اور آسٹریلیا کے جزائر پر بسنے والی سیاہ فام مقامی آبادی انتہائی پسماندہ تھی۔ لہٰذا انگریزوں کو یہاں کے وسائل اور زمین پر قابض ہونے میں زیادہ مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔

بہرکیف’’ایڈی کوکی مابو“کے خیا ل میں برسوں پہلے رونما ہونے والے یہ ایک ایسا تلخ واقعہ تھا۔ جسے یا د کرنے اور باربار دہرانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا،سوائے ذہنی اذیت اور تکلیف۔ ویسے بھی اَب تو مقامی آبادی کی اکثریت نے ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر ایک دوسرے کے ساتھ جینا بھی سیکھ لیا تھا۔ قصہ مختصر! ایڈی نے کوئنس لینڈ سٹی میں آنے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کو اس شہر کے ایک بہترین اسکول میں پڑھنے کے لیئے داخل کروادیا۔ بظاہر اسکول بہت اچھا تھا اور ایڈی کے بچے بھی پڑھنے میں بہت دلچسپی لے رہے تھے لیکن ایڈی کو اسکول سے ایک شکایت تھی کہ وہاں مقامی آبادی کی تہذیب و ثقاقت کا تذکرہ اچھے الفاظ میں نہیں کیا جاتاتھا۔ جبکہ اسکول کی حدود میں اس کے بچوں کے لیئے مادری زبان میں بات چیت کرنے پر بھی سخت پابندی عائد تھی۔ اس بابت ایڈی نے کئی بار اسکول انتظامیہ کو نظر ثانی کی درخواست دی مگر ہر بار اُس کی عرض داشت کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ ”آسٹریلیا کے نئے سرکاری دستور اور قوانین کے مطابق آسٹریلیا کی مقامی آبادی کی زبان میں تعلیم دینا یا اُن کی تہذیب کو کسی بھی سطح پر فروغ دینا سختی سے ممنوع ہے۔ جسے ایک اسکول کی انتطامیہ اپنے طور پر تبدیل نہ کرسکتی“۔

اسکول انتظامیہ کے رویے سے سخت مایوس ہونے کے بعد ’’ایڈی کوکی مابو“نے1973 میں آسٹریلیا کی قدیم مقامی آبادی کے لیئے ایک ایسا اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا جہاں ملک میں رائج جدید تعلیم کے علاوہ قدیم آبادی کی تہذیب و ثقافت کے بارے میں بھی پڑھایا جائے۔آسٹریلیا میں قائم ہونے والا یہ پہلا اسکول تھا جہاں آسٹریلیا کے قدیم نسل سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام افراد کے بچے بلا کسی روک ٹوک کے اپنی تاریخ، روایات اور زبان کے بارے میں نصابی تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔ مگر اگلے کچھ برسوں میں ’’ایڈی کوکی مابو“کو یہ سنگین مسئلہ درپیش ہوا کہ اُن کے اسکول سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا و طالبات کی تعلیمی اہلیت کو آسٹریلیا کے ہر ادارے کی جانب سے تسلیم کرنے سے صاف انکا ر کردیا گیا۔ یوں ایڈی کو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ ہونے کے بجائے مزید مخدوش ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری اور 1982 میں ’’ایڈی کوکی مابو“نے آسٹریلیا کی اعلی عدالت میں ایک کیس داخل کردیا جس میں موقف اختیار کیا گیاکہ ”ملک میں بسنے والے سیاہ فام ہی، اس سرزمین کے اصل وارث ہیں،لیکن سرکاری قوانین کے مطابق نہ اُنہیں اپنے جزائر پر کوئی حق تصرف حاصل اور نہ اُن کی تہذیب،ثقافت اور زبان کی اہمیت کو سرکاری اداروں میں تسلیم کیا جاتاہے“۔

آسٹریلیا کے اُس وقت کے معروضی و سیاسی حالات میں سفید فام حکمرانوں کے خلاف، ایک سفید فام جج کی عدالت میں ایک مقامی سیاہ فام فرد کی جانب سے باقاعدہ مقدمہ داخل کردینا بہت خطرناک اقدام سمجھا گیا۔ دلچسپ با ت یہ ہے کہ ’’ایڈی کوکی مابو“کی نسل اور برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے بھی ایڈی کو یہ مقدمہ واپس لینے پر آمادہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ مگر ایڈی کا موقف اٹل تھا کہ ”سب سے زیادہ،حتی کے میری زندگی سے بھی زیادہ میرے بچوں کا روشن مستقبل اہم ہے۔ اس لیئے میں آخری دم تک اپنے بچوں کی شناخت اور اُن کی زبان کے تحفظ کے لیئے برسرپیکار رہوں گا“۔جیساکہ ”ایڈی کوکی مابو“نے کہا تھا بالکل ویسا ہی ہوا اور جنوری 1992 میں یہ مقدمہ لڑتے ہوئے ہی اُس کا انتقال ہوگیا۔ مگر ایڈی کے انتقال کے ٹھیک پانچ ماہ بعد آسٹریلیا کی ہائی کورٹ نے اُس کے،اُس کے بچوں اور مقامی آبادی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ ”آج کے بعد مقامی آبادی کو بھی ملک بھر میں وہی تہذیبی شناخت اور حقوق حاصل ہوں جو باقی آسٹریلین کو حاصل ہیں“۔آسٹریلیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب سرکاری سطح پر مقامی افراد کا آسٹریلیا کی سرزمین پر حق ملکیت اور اُن کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ کو تسلیم کیا گیا۔ آج بھی یہ قانون آسٹریلیا کی مقامی سیاہ فام آبادی میں ”مابو لاء“ کے نام سے مشہور و معروف ہے اور اُن کے ہاں زبانِ زد عام ہے کہ ”مابو“ قانون ایک باپ کی جانب سے اپنی اولاد کو دیا جانے والا دنیا کا سب سے بہترین ”قانونی تحفہ“ ہے۔

حوالہ: یہ مضمون سب سے پہلے روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں 20 جون 2021 کے خصوصی شمارہ میں شائع ہوا۔

راؤ محمد شاہد اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں